گندم کا شدید بحران تیار کھڑا ہے

Blogger Rana Ijaz Hussain Chohan

سال 2024ء گندم کے کاشت کاروں کے لیے ایک مشکل ترین سال تھا، جب گندم کی فصل تو اچھی تھی، دانہ بھی موٹا تھا، مگر حکومت نے گندم کی خریداری سے صاف انکار کردیا۔
کاشت کاروں نے 14 ہزار روپے فی تھیلا والی ڈی اے پی، 45 سو روپے فی تھیلا والی یوریا، دو اسپرے، 2 ہزار سے 5 ہزار روپے فی گھنٹا پانی لگانے کے بعد جو گندم اُگائی اس کی صورتِ حال یہ تھی کہ فصل سرکاری ریٹ سے 1 ہزار سے 12 سو روپے من کم یعنی 26, 27 سو روپے من کے لگ بھگ بیچنا پڑی اور بیوپاریوں اور فلور ملز مالکان نے دونوں ہاتھوں سے کسان کو لوٹا۔اس صورتِ حال کی وجہ سے کاشت کاروں نے سال 2025 ء کے لیے پہلے سے کم رقبے پر گندم کاشت کی ہے۔
’’نیشنل ایگری کلچرل ریسرچ سینٹر‘‘کے عہدے داروں کے مطابق پہلے ان سے مصدقہ بیج لینے والوں کی لائنیں لگتی تھیں، مگر اس بار ایسا نہ ہوا۔ہم کسانوں کی منتیں کرتے رہے کہ بیج لے جائیں، پھر بھی ہمارا بیج فروخت نہیں ہوا۔
بیش تر کاشت کاروں نے گندم کی بہ جائے دیگر فصلیں اور سبزیاں کاشت کرلیں، اور جہاں جہاں گندم کی کاشت کاری کی گئی تھی، 15 نومبر تک گندم کی فصل ٹھیک چلتی رہی، لیکن اس کے بعد بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے فصل خراب ہونا شروع ہوگئی اور اِس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ بارشیں نہ ہونے اور مناسب نمی نہ ملنے کی وجہ سے اس کی 70 فی صد جنریشن متاثر ہوچکی ہے۔
ملک کے بیشتر علاقوں میں آخری بارش گذشتہ برس 6 اکتوبر کو ہوئی تھی اور اس کے بعد سے مسلسل خشک سالی چل رہی ہے۔
بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے گندم کا دانہ موٹا نہ ہوسکا اور گندم کی فصل سبز سے پیلی اور پھر چھوٹے چھوٹے سٹے نکالنے کے بعد خشک ہوتی چلی گئی۔
پاکستان میں گندم کے زیرِ کاشت رقبے میں 20 سے 25 فی صد بارانی ہے، مگر گندم کی مجموعی پیداوار میں اس کا حصہ 10 فی صد ہے۔ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے صرف بارانی علاقہ ہی متاثر نہیں ہوگا، بل کہ نہری علاقوں میں درجۂ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے وہاں بھی گندم کی پیداوار پر فرق پڑے گا۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ خشک سالی اور کسان کی عدم توجہی کی وجہ سے پاکستان میں گندم نایاب اور مہنگی ہونے والی ہے۔
پاکستان دنیا میں گندم کی پیداوار کے حوالے سے آٹھواں بڑا ملک ہے، لیکن بدقسمتی سے فی ایکڑ پیداوار کے حوالے سے دنیا میں 56ویں نمبر پر ہے۔
’’اکنامک سروے آف پاکستان‘‘ کے مطابق پاکستان کے زرعی شعبے کی مجموعی قومی پیداوار میں حصہ 23 فی صد ہے، جب کہ 37.4 فی صد ملازمتیں اس شعبے کی مرہونِ منت ہیں
پاکستان میں گندم کی مجموعی پیداوار میں پنجاب اور سندھ کا حصہ 90 فی صد ہے۔
پاکستان میں گندم کی کل کھپت سوا تین کروڑ ٹن ہے، جب کہ پیداوار ڈھائی کروڑ سے پونے تین کروڑ ٹن کے درمیان رہتی ہے، باقی کمی گندم کی درآمد سے پوری کی جاتی ہے۔ امسال بارشیں نہ ہونے اور 30 فی صد کم کاشت کاری کی وجہ سے پاکستان میں گندم کا درآمدی بِل بڑھ جائے گا۔
حکومت نے دعوا کیا ہے کہ اس سال گندم کی کاشت کم نہیں ہوئی، بل کہ ہماری شان دار پالیسیوں کے نتیجے میں گذشتہ سال سے صرف ایک دو فی صد کم رقبے پر کسانوں نے گندم کاشت کی ہے۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ کیوں کہ ہمیشہ ہی سے کاشت کے یہ اعداد وشمار اے سی والے بند کمروں میں بیٹھ کر ترتیب دیے جاتے ہیں۔
امسال پہلے ہی گندم کی کاشت 30 فی صد کم ہوئی ہے اور بارشیں نہ ہونے کا عنصر بھی اگر اس میں شامل کرلیا جائے، تو امسال گندم کی پیداوار پچھلے سال کی نسبت 50 فی صد کم ہوگی۔
یہ عملی صورتِ حال ہے جو کسان اتحاد پیش کر رہا ہے، جب کہ دوسری جانب سرکاری افسران اپنی نوکریاں بچانے کے لیے حکومت کو گم راہ کن اعدادوشمار پیش کر رہے ہیں اور کَہ رہے ہیں کہ اُنھوں نے گندم کی کاشت کا 98 فی صد حاصل کرلیا ہے، جس کے ثبوت کے طور پر وہ کَہ رہے ہیں کہ امسال 50 فی صد کھاد زیادہ فروخت ہوئی ہے۔ حالاں کہ اطلاعات کے مطابق فیکٹریوں میں کھاد سرپلس پڑی ہوئی ہے اور خریدار نہیں مل رہے۔
اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں گندم کا شدید بحران آنے والا ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے کہنے پر پہلے ہی ’’پاسکو‘‘ کو غیر موثر کر دیا ہے۔ اس سال وہ بھی گندم نہیں خرید رہا، جب کہ حکومت کے پاس صرف 11 لاکھ ٹن گندم کے ذخائر موجود ہیں، جو مارکیٹ کی ضرورت کے لیے بہت ہی کم ہیں۔
امسال ایک طرف تو گندم کی کل پیداوار کم ہوگی، تو دوسری طرف ناقص بیج، کھاد، ڈیزل اور اسپرے کی کسان کی پہنچ سے باہر ہوئی قیمتوں کے سبب فی ایکڑ پیداوار بھی کم ہوگی۔ یہ کم پیداوار ملک میں فصل کٹنے کے چند ماہ بعد ایک نئے بحران کو جنم دے گی۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت گندم کی صورتِ حال کا باریک بینی سے جائزہ لے اور بروقت گندم امپورٹ کرکے ملکی ضرورت کو پورا کرے، تاکہ ملک میں نہ تو گندم کا بحران پیدا ہواور نہ مہنگائی کا طوفان ہی جنم لے، تاکہ ہر غریب پاکستانی کو دووقت کی روٹی آسانی کے ساتھ میسر آسکے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے