بلوچستان: ریاستی عمل داری اور چیلنجز

Blogger Shehzad Hussain Bhatti

بلوچستان میں حالیہ دنوں میں پیش آنے والے واقعات، بالخصوص جعفر ایکسپریس پر ہونے والے دہشت گرد حملے ، نے ایک بار پھر صوبے میں امن و امان کے حوالے سے سنگین خدشات کو جنم دیا ہے۔ شدت پسندوں کی سرگرمیوں میں اضافے اور بلوچ یک جہتی کمیٹی کے دھرنے کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کے پس منظر میں، وزیرِاعلا بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی زیرِ صدارت ایک اعلا سطحی اجلاس منعقد ہوا، جس میں کئی اہم فیصلے کیے گئے۔
یہ اجلاس صوبے میں بڑھتی ہوئی بدامنی کے تناظر میں نہایت اہمیت کا حامل تھا۔ اجلاس میں ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث سرکاری ملازمین کے خلاف سخت کارروائی کا عندیہ دیا گیا، جب کہ بلوچستان کے تمام تعلیمی اداروں میں قومی پرچم لہرانے اور قومی ترانے کے اہتمام کو لازمی قرار دیا گیا۔
وزیرِ اعلا سرفراز بگٹی نے واضح الفاظ میں کہا کہ جو سرکاری افسران اور ملازمین ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہوں گے، ان کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔ اُنھوں نے یہاں تک کَہ دیا کہ اگر کوئی سرکاری افسر حکومت کی پالیسیوں پر عمل درآمد نہیں کرسکتا، تو وہ از خود اپنے عہدے سے استعفا دے دے۔
یہ اقدام ان خدشات کو مدِنظر رکھ کر اُٹھایا جا رہا ہے کہ بعض سرکاری ملازمین اپنی ذاتی سوچ اور نظریات کو ریاستی پالیسی پر فوقیت دے رہے ہیں، جس کے نتیجے میں ریاستی رٹ کم زور پڑ رہی ہے۔ وزیرِ اعلا نے اس بات پر زور دیا کہ بلوچستان میں قانون کی بالادستی قائم کرنا ضلعی افسران اور انتظامیہ کی اولین ذمے داری ہے اور کسی بھی قسم کی کوتاہی ناقابلِ قبول ہوگی۔
بلوچستان ایک عرصے سے شورش کا شکار رہا ہے۔ یہاں علاحدگی پسند تحریکیں، دہشت گردی اور ریاستی اداروں کے خلاف مزاحمت جیسے چیلنج درپیش رہے ہیں۔ جعفر ایکسپریس حملے کے بعد شدت پسندوں کے حملے مزید بڑھ گئے، جس نے سیکورٹی فورسز کے لیے چیلنجوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے کے خلاف پولیس کی کارروائی اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری نے سیاسی ماحول کو مزید گرما دیا ہے۔ اب ان پر تین افراد کے قتل کا مقدمہ بھی درج کیا جاچکا ہے۔ حکومت کی جانب سے احتجاج کو طاقت کے ذریعے دبانے کی پالیسی پر بعض حلقوں کی جانب سے تنقید بھی کی جا رہی ہے، لیکن دوسری طرف حکومت کا موقف ہے کہ ریاست کی عمل داری کو ہر قیمت پر برقرار رکھنا ضروری ہے۔
بلوچستان میں تعلیم کے حوالے سے بھی حکومت نے سخت فیصلے کیے ہیں۔ وزیرِ اعلا نے واضح کیا کہ صوبے کے تمام تعلیمی اداروں میں قومی پرچم لہرایا جائے گا اور قومی ترانہ پڑھا جائے گا۔ اُنھوں نے عندیہ دیا کہ اگر کسی تعلیمی ادارے کے سربراہان ان احکامات پر عمل درآمد نہیں کرواسکتے، تو اُنھیں اپنے عہدوں سے مستعفی ہو جانا چاہیے۔
یہ فیصلہ دراصل بلوچستان میں حب الوطنی کے جذبات کو فروغ دینے کے لیے کیا گیا ہے۔ حکومت کا ماننا ہے کہ بعض عناصر نوجوانوں کو ریاست کے خلاف اُکسانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایسے میں تعلیمی ادارے ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ بلوچ نوجوانوں کو ایک لاحاصل جنگ میں دھکیلا جا رہا ہے، جس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ مقامی ضلعی افسران نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی جانب راغب کریں گے، اور میرٹ کو فروغ دے کر ان کا ریاست پر اعتماد بحال کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں بگٹی یوتھ پالیسی کی منظوری بھی ایک اہم قدم ہے، جس کے تحت نوجوانوں کو روزگار، تعلیم اور دیگر سہولیات فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
بلوچستان میں سیکورٹی اہل کاروں کی طرف سے بھتا خوری کی شکایات ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے۔ وزیرِ اعلا نے چیک پوسٹوں پر بھتا خوری کے خاتمے کے لیے سخت اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ اُنھوں نے واضح کیا کہ اگر کسی چیک پوسٹ پر بھتا خوری کی شکایت موصول ہوئی، تو متعلقہ ایس ایچ اُو یا لیویز افسر کو برطرف کر دیا جائے گا۔
بلوچستان میں ریاستی رٹ کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت سخت فیصلے لے رہی ہے۔ جہاں ایک طرف شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، وہیں دوسری طرف ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث سرکاری ملازمین، تعلیمی اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اندر موجود کالی بھیڑوں کے خلاف بھی سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
بلوچستان کی صورتِ حال انتہائی حساس ہے۔ حکومت اگر ایک طرف ریاست کی عمل داری کو یقینی بنانے کے لیے سخت اقدامات کر رہی ہے، تو دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ بلوچ عوام اور نوجوانوں کے حقیقی مسائل کو سمجھا جائے۔ ترقی، روزگار، تعلیم اور بنیادی سہولیات کی عدم دست یابی وہ مسائل ہیں، جو بلوچ نوجوانوں کو شدت پسندی کی طرف دھکیلتے ہیں۔
ریاستی رٹ قائم کرنا ضروری ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوام کا اعتماد جیتنا بھی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ صرف سخت اقدامات سے مسائل حل نہیں ہوں گے، بل کہ عوام کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ یہی بلوچستان میں پائیدار امن اور ترقی کا واحد راستہ ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے