(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے ، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
’’لنگر‘‘ یعنی زائرین کو کھانا فراہم کرنے کا نظام ہر پیر کے آستانے یا ان کی وفات کے بعد ان کی درگاہ کی ایک نمایاں خاصیت ہے۔ لوگ وہاں بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں اور ان کو اکثر دن میں دو بار، بلا معاوضہ کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ پختون علاقوں میں، ایسے پیر یا ’’ولی اللہ‘‘ کو ’’لنگر‘‘ چلانے کے لیے زمین کے بڑے قطعے دیے جاتے، تاکہ وہ ان پر اناج اُگا کر لنگر کا انتظام کرسکیں۔
اخوند عبد الغفور، جو عام طور پر سیدو بابا کے نام سے جانے جاتے ہیں، کی حیات میں، ابا خیل، برت خیل اور اکا معروف بامی خیل کے لوگوں نے سیدو بابا کو اپنی زمینیں ’’لنگر‘‘کے لیے دی تھیں۔ میجر راورٹی نے بھی اپنی رپورٹ میں اس ’’لنگر‘‘ کی تفصیل دی ہے۔
سیدو بابا کی وفات کے بعد، لنگر بغیر کسی خلل کے چلتا رہا۔ لنگر سے نہ صرف سوات کے زائرین مستفید ہوتے، بل کہ سیدو شریف کے غریب مقامی لوگوں کو بھی کھانا فراہم ہوتا رہا۔ وہ اپنے گھروں کے لیے دن میں دو بار مکس دالوں کا شوربا اور مکئی کی روٹی لے جاتے۔
جب میاں گل عبدالودود (باچا صاحب) کو سوات کے گرینڈ ’’جرگہ‘‘ نے اپنا بادشاہ منتخب کیا، تب بھی اسی طرح ’’لنگر‘‘ جاری رہا۔ بادشاہ صاحب اپنے محافظوں اور نچلے سٹاف سمیت اپنے عملے کے ساتھ فرش پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ اس کھانے میں ان کے یا دیگر اعلا حکام کے لیے کوئی علاحدہ یا مخصوص ڈشیں نہیں ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ سوات کے تمام علاقوں سے تعلق رکھنے والے جن لوگوں کے مقدمات سیدو عدالتوں میں زیرِ سماعت ہوتے، ان کو باچا صاحب کے بڑنگل محل (عقبا) میں کھانا بھی دیا جاتا۔
جیسے جیسے سیدو شریف کی آبادی بڑھی، لوگ ریاستِ سوات کے نئے نظام میں نوکریوں کی تلاش میں آئے۔ ان میں زیادہ تر بے زمین اور بے گھر لوگ تھے۔ انھوں نے سیدو شریف میں آباد ہونا شروع کیا۔ ان میں سے کچھ مقامی پاپینی میاں خاندانوں کے کرایہ دار بن گئے اور بعض بادشاہ صاحب کے مٹی کے گھروں میں بغیر کرایہ یا ’’بیگار‘‘ کے رہنے لگے ۔ لنگر اسی طرح چلتا رہا۔ جب مقدمات کی تعداد بڑھ گئی، تو مقدمات کے فریقین کو کھانا فراہم کرنے کا سلسلہ بند کرنا پڑا۔ اَب صرف بادشاہ صاحب کے عملے اور خانوں وغیرہ کو بڑنگل محل میں کھانا فراہم کیا جاتا۔
ہوٹلوں کی کمی کے باعث عوام سیدو بابا لنگر کی طرف جوق در جوق آنے لگے۔ مکئی کی ہزاروں روٹیاں بڑے تنوروں میں پکائی جاتی تھیں اور جو کوئی بھی مفت کھانا چاہتا تھا، وہ لنگر سے حاصل کرسکتا تھا۔
جیل میں بند قیدیوں اور سیدو شریف میں کام کرنے والے سپاہیوں کو بھی یہی مکئی کی روٹیاں فراہم کی جاتیں۔ ان روٹیوں کو عرفِ عام میں ’’لنگری‘‘ یا ’’ننگری‘‘ کہا جاتاتھا۔ یہ ایک سے دو انچ موٹی اور چار انچ قطر کی ہوتی تھیں، جو ریاست کے گودام سے فراہم کی گئی جوار کے آٹے سے تیار کی جاتی تھیں۔
اس لنگر نے سیدو والوں کی سماجی و اقتصادی زندگی میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ یومیہ اجرت یا مرغزار وادی سے لائی گئی لکڑی بیچ کر کمائی گئی رقم بچاسکتے تھے۔ ان کے بیٹوں نے مفت تعلیم حاصل کی اور جلد ہی ان میں سے بیش تر کو ریاست کے محکمۂ تعلیم، محکمۂ صحت، عدالتوں وغیرہ میں نوکریاں مل گئیں۔ اس طرح معاشرے میں خوش حال طبقے کا ایک نیا طبقہ پیدا ہوا، حالاں نکہ اس کا تعلق کسی بھی تاریخی اور بالادست قبیلے سے نہیں تھا۔ اب یہ نیا طبقہ سوات کے بعض بااثر خاندانوں سے زیادہ تعلیم یافتہ، زیادہ سماجی اور زیادہ مہذب ہوگیا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
