ہوائی سفر کے دوران میں نظم و ضبط اور باہمی عزت ایک بنیادی اُصول ہے، جس پر ہر مسافر کو عمل کرنا چاہیے…… لیکن افسوس ناک طور پر، کوئٹہ سے اسلام آباد جانے والی نجی ائیر لائن کی پرواز 540 میں جو کچھ ہوا، اُس نے نہ صرف اس اُصول کو پاؤں تلے روند ڈالا، بل کہ ایک محنتی فضائی میزبان کو جسمانی تشدد کا نشانہ بننے کی مثال بھی قائم ہوئی۔
اطلاعات کے مطابق، سابق کمشنر کوئٹہ کی بیٹی نے ایک فضائی میزبان کو محض اس لیے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا کہ اُس نے سیٹ بیلٹ باندھنے اور میز بند کرنے کی درخواست کی تھی۔ یہ وہی معمولی ہدایات ہیں، جو ہر پرواز میں دی جاتی ہیں، تاکہ مسافروں کی سلامتی کو یقینی بنایا جاسکے…… لیکن بہ جائے اس کے کہ خاتون مسافر ان ہدایات پر عمل کرتی، اُس نے نہ صرف بدتمیزی کی، بل کہ اپنی بدتمیزی کو ایک قدم آگے لے جا کر فضائی میزبان کے چہرے پر مکا مار کر اُسے زخمی بھی کیا، جس کے نتیجے میں اس کی ناک سے خون بہنے لگا اور ایک دانت بھی ٹوٹ گیا۔
یہ واقعہ صرف ایک انفرادی غصے کا اظہار نہیں، بل کہ ہمارے معاشرتی رویے کی عکاسی کرتا ہے، جہاں بعض بااثر افراد قانون کو اپنے پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں اور خود کو ہر قسم کے ضابطے سے بالاتر تصور کرتے ہیں۔
اس واقعے میں سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ حملہ آور خاتون کے والد، جو کہ ایک سابق کمشنر ہیں، نے اپنی بیٹی کے اس رویے پر کوئی ندامت یا افسوس ظاہر نہیں کیا۔ بل کہ ان کے اثر و رسوخ کی بہ دولت معاملے کو دبانے کی کوشش کی گئی۔ نتیجتاً، محض ایک تحریری معافی پر اُنھیں جانے دیا گیا۔
یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک معصوم فضائی میزبان، جو اپنے فرائض سرانجام دے رہی تھی، تشدد کا نشانہ بنے اور حملہ آور صرف ’’معذرت نامے‘‘ کی بنیاد پر بچ نکلے؟ کیا اگر یہی حرکت کوئی عام شہری کرتا، تو کیا اُس کے ساتھ بھی اتنی ہی نرمی برتی جاتی؟ بدقسمتی سے، ہمارے ہاں قانون اور انصاف طاقت ور کے گھر کی لونڈی بن چکے ہیں، جہاں عام آدمی کے لیے الگ اُصول ہیں اور بااثر افراد کے لیے الگ۔
یہ واقعہ نہ صرف قابلِ مذمت ہے، بل کہ ایک بڑا سوالیہ نشان بھی کھڑا کرتا ہے کہ کیا ایئر لائنز اپنے عملے کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کوئی موثر اقدامات کریں گی، کیا ایسے واقعات کے سدباب کے لیے کوئی سخت قانون لاگو کیا جائے گا، یا پھر یہ محض ایک اور خبر بن کر رہ جائے گا جس پر کچھ دن بحث ہوگی اور پھر سب بھول جائیں گے؟
ہماری حکومت اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کو چاہیے کہ وہ اس واقعے کا نوٹس لیں اور مستقبل میں اس قسم کے رویوں کی روک تھام کے لیے سخت قوانین بنائیں۔ فضائی میزبانوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ایسے افراد پر سفری پابندیاں لگانی چاہئیں، جو ہوائی سفر کے دوران میں کسی بھی قسم کی بدتمیزی یا تشدد کے مرتکب ہوں۔
آخر میں ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی پیشے کے لوگ، چاہے وہ فضائی میزبان ہوں، ڈاکٹر ہوں، پولیس اہل کار ہوں یا اساتذہ…… سب احترام کے مستحق ہیں۔ اگر ہم معاشرے میں عزت اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں، تو ہمیں ہر سطح پر ایسے نازیبا رویوں کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
