دوسری جنگِ عظیم کے دوران میں دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی:
ایک طرف یورپی سامراجی طاقتیں، روس اور امریکہ تھیں۔
دوسری طرف جرمنی، جاپان اور اٹلی جیسی طاقتیں تھیں۔
پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد مختلف وجوہات نے 20 سال کے عرصے تک دوسری جنگ عظیم کا راستہ ہم وار کیا۔ ’’ٹریٹی آف ورسائلز‘‘ (Treaty of Versailles) سے لے کے کالونیز پر اختلافات، 1969ء کا معاشی بحران، جرمن نازی ازم، اٹلی کا فاشزم وہ محرکات تھے جنھوں نے دنیا کو ایک بار پھر ایک عالمی جنگ کے دہانے پہ لاکھڑا کیا۔
جاپان اور جرمنی کا اتحاد 1936ء کے "Anti Comintern Pact” سے ہوا۔ یہ اتحاد کمیونسٹ انٹرنیشنل کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔
اس اتحاد کے بعد روم، برلن، ٹوکیو "Axis” عملی طور پر سامنے آگیا۔ روم میسولینی کی قیادت میں اٹلی کی سلطنت کے خواب دیکھ رہا تھا۔
ٹوکیو، ہیروہیٹو کے زیرِ سایہ ایک ایمپائر بننے کے کی کوشش کر رہا تھا اور ایک حد تک کام یاب بھی ہوا تھا۔
نازی جرمنی، پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد کی حزیمت کا بدلہ اور یورپ کو ’’کالونائز‘‘ کرنا چاہتا تھا۔
جاپان اور جرمنی کے اتحاد کے بعد مشرق "Indo Pacific” جاپان کے حصے میں اور مغرب جرمنی کے حصے میں آگیا۔ جنگ جیتنے کی صورت میں آدھی دنیا پر جاپان کی حکم رانی ہوتی اور آدھی پر جرمنی کی۔ دونوں سامراجی طاقتوں کے بیچ یہ بٹوارا 15ویں صدی کی پرتگال اور سپین کے بیچ کالونیوں کی تقسیم کی طرح تھا۔ دونوں طاقتوں کے عزائم ایک جیسے تھے، لیکن دونوں کی فوج کی سوچ مختلف تھی۔
جہاں جرمنی "Treaty of Versailles” کے نتیجے میں ہونے والی جرمن قوم کی تحقیر کا بدلہ اور آریائی قوم کی برتری کا پرچار کر رہا تھا۔ وہاں پہ جاپان نے اس سے پہلے روس کو 1905ء میں شکست سے دوچار کیا تھا۔ 1933ء میں چین کے علاقے مینچوریہ پہ قبضے کے بعد جاپان کی پوزیشن مستحکم ہوچکی تھی۔
دونوں فوجوں کی مختلف سوچ کے پیچھے کئی وجوہات تھیں۔ جاپان کی فوج جارحانہ کارروائی اور تیز رفتار حرکت کے ساتھ حملہ آور ہوتی تھی، جب کہ جرمن فوج "Blitzkrieg” کے اُصول پر عمل پیرا تھی، جس میں فضائی حملہ، آرمرڈ، انفنٹری اور آرٹیلری کا استعمال ہوتا تھا۔ دونوں افواج کی یہ سوچ صرف یہاں مختلف نہیں تھی، بل کہ وطن اور ملک کے لیے جذبات بھی یک ساں نہیں تھے۔
جاپانی فوجیوں کو بغیر کسی سوال کے احکامات کی تعمیل کرنے کی تربیت دی گئی تھی۔ وطن کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا بھی جاپانیوں کو سکھایا گیا تھا۔ "Kamikazis” جو یک طرفہ مشن کے لیے جاتے اور راستے میں مرجاتے تھے، بھی جاپانیوں کا ہی خاصا تھا۔ لگ بھگ 3800 ’’کامی کازی‘‘ پائلٹوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ جن کے حملوں کے نتیجے میں 7000 مخالف فوج کی جانیں گئیں۔
جاپانیوں کے ہاں ’’ہیروہیٹو‘‘ (Hirohito) کی حکم کی تعمیل لازمی تھی اور جاپانیوں کی نظم و ضبط کی وجہ بھی تھی۔ جاپان کی فوج جنگ میں قیدیوں کو پکڑ کر یا تو مارتی تھی، یا تب تک ان سے کام لیا جاتا، جب تک وہ مر نہ جاتے تھے۔ قیدیوں کے ساتھ ان کا رویہ انتہائی خوف ناک ہوتا تھا۔
جرمن فوج بدلے کی آگ کے ساتھ مشرق اور مغرب کو تہذیب یافتہ بنانے کے تگ و دو میں تھی۔ ان کا یہ رویہ جرمن قوم کو تہذیب یافتہ اور باقی اقوام کو غیر تہذیب یافتہ تصور کرنا تھا۔ آریائی جرمن قوم کے لیے زمین کا حصول بھی مقصود تھا، جو باقی ممالک پر قبضے کے بعد آنا تھی، اس پالیسی کو "Lebansraum” کہا جاتا تھا۔ قیدیوں کے ساتھ جرمن فوج کا رویہ جاپانی فوج کے بہ نسبت زیادہ سخت نہیں ہوتا تھا، لیکن نسل پرستی میں نازی جرمنی (فوج) سب سے آگے تھی۔
یہودیوں اور رومانیہ کے ’’جپسیز‘‘ (Gypsies) خاص طور پہ نازیوں کا نشانہ بنے۔
جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی، تو جاپانی اور جرمن فوجیوں نے اپنے اہلِ خانہ کو خطوط بھیجے۔ یہ خطوط اُن دونوں افواج کی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ جنگ کے آغاز پر ایک جاپانی کامی کازی (Teruo) ایک "Suicide Mission” پر جانے سے پہلے اپنے والد کو لکھتا ہے کہ زندگی یا نام کی پروا کیے بغیر ایک سمورائی اپنے وطن کا دفاع کرے گا۔
اسی طرح فلائنگ آفیسر "Isao Matsuo” اپنے آخری خط میں لکھتا ہے کہ پیارے والدین! مجھے مبارک باد دیں۔ مجھے مرنے کا ایک شان دار موقع مل گیا۔
"Ensign Okabe” جس کی عمر 22 سال تھی, اپنی آخری پرواز سے پہلے لکھتا ہے کہ مَیں اور موت انتظار کررہے ہیں۔ آج ڈیوٹی کیا ہے؟ لڑنا ہے۔ کل کی ڈیوٹی کیا ہے؟ جیتنا ہے۔ روزانہ کی ڈیوٹی کیا ہے؟ مرنا ہے۔
دوسری جانب جرمن فوجیوں کے خطوط سے نا اُمیدی جھلکتی ہے۔ بیورو آف آرمی انفارمیشن کے مطابق صرف 2 فی صد فوجی اپنی قیادت سے مطمئن تھے۔ جرمن فوج کا ایک سپاہی اپنی بیوی کو ایک خط میں لکھتا ہے: آگستہ، مَیں بُزدل نہیں ہوں، صرف اس بات کا دُکھ ہے کہ مَیں اس فضول مقصد کے لیے مرنے سے زیادہ اپنی ہمت کا ثبوت نہیں دے سکتا۔
اسی طرح ایک اور سپاہی لکھتا ہے کہ جو سپاہی مرتے ہیں وہ "Deutschland” یا "Heil Hitler” نہیں کہتے، بل کہ آخری لفظ ماں، اپنا کوئی محبوب یا مدد کی پکار ہوتی ہے۔
اس طرح ایک فوجی اپنے باپ سے فریاد میں لکھتا ہے کہ یہاں جیت کہیں نہیں ہے، صرف جھنڈے اور انسان گِر رہے ہیں۔ سٹالن گراڈ صرف ایک سیاسی جوا ہے، جو ہم کھیل رہے ہیں۔ مَیں پچھلے تین دن سے رو رہا ہوں۔ کیوں کہ مَیں ایک روسی ٹینک ڈرائیور کا قاتل ہوں۔
جرمن فوج کی نا اُمیدی اپنے وطن سے نہیں، بل کہ اُس قیادت سے تھی، جس نے اُن کو ایک بے مقصد جنگ میں دھکیلا…… جہاں ایک قوم دوسروں کو محکوم کرکے قوم بنے گی۔
اسی طرح کے عزائم جاپانی بھی رکھتے تھے، لیکن وطن پر مر مٹنا ہیرو ہیٹو کے کہنے سے نہیں تھا۔ جاپانی بہادر پیدا ہوتے ہیں۔ وگرنہ صرف 22 سال کا "Ensign Okabe” کیوں اپنے ملک کے لیے جان نچھاور کرتا؟ اس طرح”Isao Matsuo” کیوں موت کا انتظار کرتا؟
حب الوطنی دراصل وطن سے محبت ہے، نہ کہ شخصیت سے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جرمن فوجی ’’ہٹلر‘‘ کے لیے مرنے کو تیار بالکل نہیں تھے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
