سانحۂ جعفر ایکسپریس

Blogger Advocate Muhammad Riaz

سانحۂ جعفر ایکسپریس ہائی جیکنگ واقعہ جتنا دل خراش تھا، وہیں پر یہ اَن مٹ تکلیف دہ نقوش بھی چھوڑ گیا۔
ایک طرف وفاقی اور بلوچستان حکومتیں پاکستانی مسلح افواج کی وساطت سے تمام تر ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے دہشت گردوں کے ہاتھوں مغوی نہتے پاکستانی شہریوں کو بازیاب کروانے کے لیے آپریشن میں مصروفِ عمل دِکھائی دے رہی تھیں، تو دوسری طرف پاکستان کا ازلی دشمن بھارت کا میڈیا طوفانِ بدتمیزی بپا کیے ہوئے تھا۔ تیسری طرف ہم پاکستانیوں کی بدقسمتی یہ کہ ہمارے اپنے ہی لوگ بھارت اور دہشت گردوں کی من گھڑت خبروں کی تشہیر میں مصروفِ عمل دِکھائی دیے۔
حد تو یہ ہے کہ سرکاری خبر پر ٹرولنگ کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کو باآسانی دیکھا گیا۔ جیسے ہی سرکاری اداروں خصوصاً پاکستانی مسلح افواج کے تعلقاتِ عامہ کی جانب سے کوئی نئی اَپ ڈیٹ منظر عام پر آتی، ہمارے اپنے پاکستانی سوشل میڈیا پرٹرولنگ اور بے ہودہ قسم کے تبصرے کرتے دِکھائی دیے۔ جہاں ایک طرف پاکستانی قوم، قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص پاکستانی مسلح افواج، نہتے بے گناہ پاکستانی شہریوں کی بازیابی کے لیے دعا گو تھی، وہیں پر پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کے پیروکارحکومتی کوششوں کی ٹرولنگ اورمن گھڑت پروپیگنڈا کا حصہ بن چکے تھے۔
بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے بھارت، بدنامِ زمانہ دہشت گرد تنظیم ’’بلوچستان لبریشن آرمی‘‘ (بی ایل اے) اور مذکورہ سیاسی جماعت کے پیروکاروں کا مقصد ایک ہی ہے کہ کسی صورت مغویوں کی بازیابی نہ ہوسکے اور پاکستانی حکام ان دہشت گردوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں۔
کاش! ٹرولنگ کرنے والے ایک لمحے کے لیے یہ محسوس کرتے اور سوچ لیتے کہ اگر ان کا اپنا عزیز بھی اسی ٹرین میں یرغمال ہوچکا ہوتا، تو کیا پھر بھی ٹرولنگ کرتے؟
ہم بہ حیثیتِ پاکستانی مزید کتنی پستی میں جانا پسند کریں گے کہ سوشل میڈیا پر ’’بی ایل اے‘‘ کی جانب سے جاری کردہ من گھڑت خبروں اور پروپیگنڈوں کو اپنی ٹائم لائن پر نہ صرف شیئر کیا گیا، بل کہ پاکستانی حکام خصوصاً پاکستانی مسلح افواج کا مذاق اُڑا یا گیا۔ پاکستانی حکام اور اداروں کے خلاف ہر قسم کا اختلاف رائے رکھنا آئینی و قانونی طور پر جائز تصور ہوتا ہے، مگر اس کا ہر گز مقصد نہیں کہ کسی معاملے میں اختلاف کی صورت میں ریاستِ پاکستان کی آئینی و جغرافیاتی حدود کی خلاف ورزی کرنے والی دہشت گرد قوتوں، خصوصاً دشمن ملک کے پروپیگنڈے کا حصہ بن کر ان کا آلۂ کاربن جائیں۔
یاد رہے کہ ہمارے ازلی دشمن ممالک عرصۂ دراز سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ بلوچستان کو پاکستان سے علاحدہ کرنے کی تحریک کا باقاعدہ حصہ بن چکے ہیں۔ بھارت، یورپ اور کئی مغربی ممالک کی پارلیمنٹ اور دیگر فورموں پر بلوچستان عوام کے حقوق اور گم شدہ افراد کے نام پر باقاعدہ آزادی کی باتیں کی جاتی ہیں۔ رہی سہی کسر مملکتِ پاکستان میں مادر پدر آزاد ٹی وی چینلوں پر بلوچستان کے نام پر ریاستِ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے عناصر کو پرائم ٹائم میں جگہ دی جاتی ہے۔
’’بی ایل اے‘‘ کسی صورت بلوچوں کی نمایندہ جماعت نہیں ہوسکتی۔ کیوں کہ جس صوبے میں پاکستان کا عظیم دوست چین سب سے زیادہ سرمایہ کاری کررہا ہے اورسی پیک کی صورت میں بلوچستان ’’دبئی‘‘ جیسی ترقی کرسکتا ہے، اُسی ترقی کو روکنے کے لیے یہ دہشت گرد تنظیم بلوچوں کے حقوق کے نام پر بلوچستان میں امنِ عامہ کی صورتِ حال کو خراب کررہی ہے۔
یہ بات انتہائی قابلِ غور ہے کہ دہشت گرد تنظمیں صرف اور صرف ’’بلوچ پنجابی نفرت‘‘ کو اس قدر ہوا دے رہی ہیں، جس کی زندہ مثال یہ ہے کہ ایسے سانحات میں چُن چُن کر صوبہ پنجاب کے باسیوں کو قتل کیا جاتا ہے، جس کی تازہ ترین مثال جعفر ایکسپریس کے بازیاب ہونے والے ایک مغوی کی میڈیا ٹاک میں انکشاف ہوا کہ دہشت گردوں نے پنجابی اور سرائیکی بولنے والوں کو علاحدہ ہونے کا حکم دیا۔ پھر ان کو شہید کردیا گیا۔ اس سے پہلے بھی بسوں سے صرف پنجابی بولنے یا شناختی کارڈ پر پنجاب کا پتا لکھے جانے والے کئی افراد کو شہید کیا گیا ہے۔ ہمارے ازلی دشمن لسانیات اور صوبائیت کو نہ صرف ہوا دے رہے ہیں، بل کہ دہشت گردی کا مرکز بھی بنا رہے ہیں۔ یہ پروپیگنڈا کرنا کہ مسلح افواج کا تعلق صرف اور صرف صوبہ پنجاب سے ہے اور پاک فوج کو پنجابی فوج کہنا انتہائی من گھڑت ہے۔ کیوں کہ پاکستان کی مسلح افواج میں تمام صوبوں کو متناسب نمایندگی دی جاتی ہے۔ پاکستانی افواج کے کئی سربراہان کا تعلق پنجاب کی بہ جائے دیگر صوبوں سے رہا ہے۔
راقم سمیت آئین و قانون کی سربلندی کا خواب دیکھنے والا ہر پاکستانی، ماضی میں افواج کے غیر آئینی اقدامات کا ناقد رہا ہے، مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کی آئینی و جغرافیائی حدود کو پامال کرنے والے دشمن ممالک اور دہشت گردوں کا ساتھ دیا جائے۔ یاد رہے پاکستان ہے، تو ہم سب ہیں۔ پاکستان نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ بس بہت ہوگیا۔ وقت آگیا ہے کہ ریاستِ پاکستان کے تینوں ستون مملکت میں پائی جانے والی دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑنے کے لیے باہم متحد ہوکرسخت فیصلے کریں، جس کی بہ دولت دہشت گردی کو پروان چڑھانے والے تمام عناصر اور ان کی حمایت کرنے والی سیاسی و سماجی تنظیمیں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں چُھپی ہوئی کالی بھیڑوں سب کا قلع قمع کردیا جائے۔ جیسے ہم امریکہ اور دیگر ممالک کو مطلوب ان کے دہشت گرد حوالے کرتے ہیں، اسی طرز پر حکومتِ پاکستان کو یورپ اور دیگر ممالک میں بیٹھے دہشت گردوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے سنجیدہ کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان زندہ بادہ، پاکستانی عوام پایندہ باد!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے