والی سوات اور سمندر خان سمندرؔ

Blogger Riaz Masood

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے ، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
سمندر خان سمندرؔ پشتو کے ایک معروف اور ہمہ جہت شاعر تھے۔ ان کی پیدایش جنوری 1901ء میں نوشہرہ کے گاؤں بدرشی میں ہوئی۔ ان کے کارناموں میں ’’دَ قرآن ژڑا‘‘ نامی کتاب بھی شامل ہے۔ یہ کتاب سوات کے والی، میانگل عبد الحق جہانزیب کے مالی تعاون سے شائع ہوئی تھی۔
سمندر خان سمندرؔ کی والیِ سوات کے دربار تک رسائی ایک دل چسپ کہانی ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کے اس واقعے کا ذکر ایک کتابچہ میں ’’پت‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ’’پت‘‘ پشتو زبان کا ایک کئی معنی رکھنے والا لفظ ہے۔ یہ پشتو کی سماجی زندگی کی تقریباً تمام اعلا خصوصیات کو بیان کرتا ہے، جن میں دوستی، ثابت قدمی، قربانی، عزت، محبت، احترام اور اعلا وفاداری شامل ہیں۔
سمندر خان سمندرؔ مذکورہ کتابچہ میں بیان کرتے ہیں کہ جب ’’سرخ پوش تحریک‘‘ کے دوران میں حکام نے انھیں گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا، تو وہ اپنی جان بچانے کے لیے چھپتے پھر رہے تھے۔ ایک دن وہ پشاور کی اسلامیہ کالج کے قریب سے گزر رہے تھے، تو انھوں نے کچھ طلبہ کو کالج کے میدان میں ٹینس کھیلتے دیکھا اور ایک نوجوان لڑکے نے ان کی توجہ حاصل کی۔ ایک شام، چارسدہ کا ایک ’’خان‘‘ ان کے پاس آیا، جو سمندرؔ کا دوست تھا، اور انھیں باتوں باتوں میں بتایا کہ ٹینس کا وہ کھلاڑی سوات کا ایک شہزادہ ہے اور وہ سوات کا اگلا حکم ران بننے والا ہے۔ اس نے مزید بتایا کہ یہ طالب علم یعنی جہانزیب اس کا دوست ہے اور وہ ہر سال گرمیوں میں اس کے ساتھ سوات جاتا ہے۔ اس نے سمندرؔ سے وعدہ کیا کہ وہ اگلی گرمیوں میں سمندرؔ کو سوات لے جائے گا۔
مختصر یہ کہ خان، سمندرؔ کو سوات لائے اور انھیں نوجوان شہزادے جہانزیب سے متعارف کرایا۔ انھیں شاہی دربار میں خوش آمدید کہا گیا۔ ان گرمیوں وہ شہزادہ جہانزیب کے ساتھ رہے۔ انھیں اگلے سال بھی مدعو کیا گیا اور اس طرح ان کا سوات میں سال بہ سال قیام جاری رہا۔ وہ والی صاحب کو رات کے کھانے کے بعد اپنی نظمیں سناتے۔
سمندر خان سمندرؔ نے سوات کا ریاستی ترانہ بھی لکھا، جس کی والی صاحب نے بڑی تعریف کی۔ ان کی کتابیں بعد میں ریاست کی مالی مدد سے شائع ہوئیں اور سوات میں مفت بھی تقسیم کی گئیں۔ والی صاحب نے انھیں ’’ستارۂ آسمانِ ادب‘‘ کا خطاب عطا کیا۔
سمندر خان سمندرؔ نے اپنی کتاب ’’پت‘‘ میں والیِ سوات کے ساتھ اپنے تعلقات کے اُتار چڑھاو کا ذکر کیا۔ مَیں نے یہ کتاب تقریباً ساٹھ سال پہلے پڑھی تھی، جب میں ایک طالب علم تھا اور القموت خان عرف ’’اکو‘‘ کے ہجرے میں گیا تھا۔ یہ کتاب اب مارکیٹ میں دست یاب نہیں، لیکن ممکن ہے کہ یہ پشتو اکیڈمی، پشاور کے آرکائیوز میں موجود ہو۔
نوٹ:۔ ’’پت‘‘ کے عنوان سے دو مضامین اُردو اخبار روزنامہ آزادی میں 12 دسمبر 2012ء اور 20 جنوری 2013ء کو شائع ہوئے تھے۔ ان کالموں کا حوالہ لیا جاسکتا ہے، تاکہ والی صاحب اور سمندر خان سمندرؔ کے درمیان قریبی تعلقات کی مزید تفصیلات معلوم ہوسکیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے