تحریر: معظم علی
ہائیکو (Haiku) کو سمجھنے کے لیے پہلے نیچے دی گئی تفصیل کو بہ غور پڑھیں۔ مَیں اُمید کرتا ہوں کہ سمجھنے کے ساتھ معلومات میں اضافہ بھی ہوگا۔ اس کے بعد تعریف اور مثالیں بھی درج ہیں۔
اتفاق سے اُردو کی اپنی کوئی صنفِ سخن نہیں۔ سبھی اصناف باہر سے آئی ہیں…… مگر عجیب بات ہے کہ اس کشادہ دامنی کے باوجود ہماری شاعری اپنے گرد و پیش حتی کہ اپنے پاس پڑوس سے بھی بیگانہ رہی۔ علاقائی زبانوں کی وہ اصناف جو سہیلیوں کی طرح بچپن سے جوانی تک اُردو کے ساتھ رہیں، اس کی زندگی کی رفیق نہیں بن سکیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ان سے ہمارا تعلق رسمی رہا۔ ہم انھیں پوری طرح جان نہ سکے۔
اُردو کو جو محبت فارسی سے رہی ہے، مذہبی زبان ہونے کے باوجود عربی سے بھی نہیں رہی۔ ’’عربی الفاظ‘‘ بھی فارسی کی معرفت ہماری زبان کا حصہ بنے۔ اس کا سبب بھی شاید یہ ہو کہ ’’فارسی حکم ران‘‘ زبان تھی۔ چناں چہ جب فارسی کی جگہ انگریزی نے لی، تو ہم اس کی طرف متوجہ ہوگئے اور پھر کئی شعری اصناف مثلاً: ’’فری ورس‘‘ (آزاد نظم)، ’’بلینک ورس‘‘(نظم معریٰ)، ’’سانٹ‘‘ حتیٰ کہ ’’پروز پرئم‘‘(نثری نظم) تک ہماری شاعری میں در آئی۔ مغرب کی لگن میں ہم نے ’’لمرک‘‘ اور ’’ترائلیے‘‘ کو بھی اپنانے کی کوشش کی، مگر موضوع اور ہیئت کی پابندی کی بنا پر ان سے رشتہ استوار نہ ہوسکا۔
اب مَیں ’’ہائیکو‘‘ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ یہ جاپانی صنفِ سخن ہے۔ جاپان ہم پر ’’حکم ران‘‘ تو نہیں، مگر صنعتی اور معاشی لحاظ سے دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس لیے اس سے متاثر ہونا ہماری نفسیات کا تقاضا ہے۔
ہائیکو سے بھی ہم انگریزی کے ذریعے متعارف ہوئے ہیں، مگر جاپانی کونسلیٹ کی حوصلہ افزائی سے کچھ لسانی حجابات بھی اُٹھے اور کچھ جان پہچان مزید بڑھی۔ اب اسے قدرت کی ستم ظریفی کہیے کہ ایک ایسی صنف ’’ماہیا‘‘ کے نام سے پنجابی میں بھی ہے۔ یہ اور بات کہ برسوں کی شناسائی کے باوجود پنجاب کے اُردو شعرا نے بھی اس کی طرف توجہ نہیں دی تھی۔ ہائیکو کے آئینے میں جب ماہیا کا چہرہ جھلکا، تو ہماری’’قومی غیرت‘‘ جوش میں آئی اور ہم اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔
ماہیا کو چوں کہ ’’سرکار کی سرپرستی‘‘ حاصل نہیں۔ اس لیے ابھی کم لکھی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ اس کی مستند مثالیں بھی زیادہ نہیں۔ برسوں پہلے چراغ حسن حسرتؔ نے موسیقار برکت علی خاں کی فرمایش پر دو ایک ماہیے اُردو میں لکھ دیے تھے۔ بس اُسی پر مشق ہو رہی ہے۔
اب حیدر قریشی جیسے صاحبِ علم شعرا نے اس کی ہیئت پر روشنی ڈالی اور حسرتؔ صاحب کے ’’ماہیا‘‘ کو غلط ٹھہرایا اور جب یہ بتایا کہ صنفِ سخن سہ مصرعی نہیں، بل کہ ڈیڑھ مصرعی ہے، تو لوگ چونکے کہ یہ تو مختصر ترین پیمانۂ شعر ہے۔ غزل کے شعر سے بھی مختصر۔
ہائیکو کے بارے میں بھی ہم برسوں لاعلم رہے۔ جب کہ اسے اُردو میں متعارف ہوئے نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ ماہنامہ’’ساقی‘‘ (دہلی) کا ’’جاپانی ادب نمبر‘‘ جنوری 1936ء میں شائع ہوا تھا اور بہ حوالہ مرزا حامد بیگ (اُردو میں ہائیکو نگاری مطبوعہ ’’فنون‘‘ مئی اکتوبر 1994ء) حمید نظامی (بانیِ روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘) جو بہ طور شاعر معروف نہیں، مگر پہلی بار ان کے ترجمہ شدہ سات عدد ہائیکو’’ہمایوں‘‘ (لاہور) کے اکتوبر 1938ء کے شمارے میں شائع ہوئے اور پھر وقفے سے ان کے متعدد ترجمہ شدہ ہائیکو ’’ہمایوں‘‘ میں 1940ء تک چھپتے رہے۔ اسی دور میں میرا جیؔ کا بھی ایک ترجمہ شدہ ہائیکو ملتا ہے، جسے یاد گار کے طور پر نوٹ کرلیا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
ہرکارہ سیاں لایا
جوہی کے پھولوں کی ڈالی
اور سندیسہ بھول گیا
مگر یہ تمام تراجم ’’ہائیکو‘‘ کی ہیئت کے مطابق نہیں تھے۔ اس کے بعد بھی قاضی سلیم (تحریک جولائی 1966ء)، تصدق حسین خالد (مکاں لامکاں، مطبوعہ 1976ء)، عبدالعزیز خالد (غبارِ شبنم، مطبوعہ 1978ء) تک کسی نے بھی ’’ہائیکو‘‘ کی تکنیک کے مطابق نہیں لکھا۔ گویا کوئی اس سے واقف ہی نہیں تھا۔ آج سے 15 یا 17 سال پہلے 1983ء میں جاپان کونسلیٹ نے کراچی میں ’’ہائیکو‘‘ مشاعروں کا آغاز کیا، تو اُس وقت تک (مجھ سمیت) کوئی شاعر اس کی ہیئت کو نہیں جانتا تھا۔ چناں چہ مَیں نے مشاعرے میں اپنی ’’ثلاثیاں‘‘ پڑھ دیں۔
پروفیسر احمد علی نے ’’ہائیکو‘‘ کے بارے میں جو مضمون پڑھا۔ کراچی کے شعرا کسی حد تک اس صنف کے بارے میں واقف ہوئے۔
کچھ شعرا البتہ ایسے ہیں، جنھوں نے ’’ہائیکو‘‘ کی خاطر جاپانی زبان سیکھی، جن میں محمد امین، رئیس علوی اور وضاحت نسیم شامل ہیں…… مگر آخر الذکر دونوں (شاعر اور شاعرہ) کو ’’ہائیکو‘‘ کے نام پر بھی اعتراض ہے، وہ اسے ’’ہائیک‘‘ کہتے ہیں۔
جہاں تک میرا تعلق ہے میں بھی ’’ہائیکو‘‘ اور ’’ماہیا‘‘ کے بارے میں یہی کہوں گا کہ
زبانِ یارِ من ترکی، و من ترکی نمی دانم
مَیں مختلف مضامین کی روشنی میں یہ سمجھ سکا ہوں کہ ’’ہائیکو دو حرفی اصوات میں تین معرا مصرعوں کے اشتراک کا نام ہے اور اس کا مخصوص موضوع مناظرِ فطرت کی عکاسی اور معنی آفرینی ہے۔
اردو ادب کی بدنصیبی کہ ’’ہائیکو‘‘ پر لکھنے والے ’’نقاد‘‘ بھی جاپانی زبان نہیں جانتے۔ بیش تر لاعلم شعرا اپنی ’’غلطی‘‘ کو ’’جدت‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں، یا اسے ’’اُردو ہائیکو‘‘ کا نام دے کر خوش ہولیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ رسالوں سے کتابوں تک غلط تحریروں کا انبار لگ گیا ہے اور جاپانی سفارت خانہ خوش ہے کہ اُردو میں ہائیکو رواج پاچکی ہے۔ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ طالب علموں کے لیے لکھی ہوئی کتابوں میں بھی ان (ملکی اور غیر ملکی) اصنافِ سخن کی تعریف صحیح نہیں لکھی جاتی۔
دوسری زبانوں سے استفادہ اچھی بات ہے، بہ شرط یہ کہ ہماری معلومات درست ہوں۔ ان کی زبانوں کی اصنافِ سخن ہمارے پاس ’’امانت‘‘ ہوتی ہیں۔ اس ترمیم و تنسیخ کا ہمیں کوئی حق نہیں۔ ایسی کوشش ہماری لاعلمی یا خیانت کے مترادف ہوگی۔
ملکی اور غیر ملکی اصنافِ سخن میں فارسی کی اصناف کے علاوہ صرف ’’فری و رس‘‘ (آزاد نظم) اُردو شاعری کا حصہ بن سکی۔ باقی تمام اصناف ابھی تک نامانوس ہیں، یا ہماری کم علمی کے نتیجے میں غلط لکھی جا رہی ہیں۔ ’’ہائیکو‘‘ کے بارے میں دلاور فگار نے اپنے انداز میں ایک پتے کی بات کہہ دی تھی:
ہمیں شعور کہاں ہے کہ ’’ہائیکو‘‘ لکھیں
خود اپنی ’’کو‘‘ نہیں آتی، پرائی ’’کو‘‘ لکھیں
اب آتے ہیں ہائیکو کی تعریف اور مطلب کی طرف۔ کیوں کہ ہائیکو کی تعریف کے لیے آپ سب نے برداشت سے کام لیا۔ اب مَیں نہیں چاہتا کہ آپ کو ایک بحث میں الجھائے رکھوں۔
٭ ہائیکو کی تعریف:۔ یہ ایک قدیم جاپانی صنف ہے۔ اس صنف کو اُردو اور انگریزی سے اپنایا گیا ہے۔ اس میں صرف 3 مصرعے ہوتے ہیں، مگر شرط یہ ہے کہ ان تینوں مصرعوں کے جملہ ارکان 17 ہوں۔
٭ مزید وضاحت:۔ ’’ہائیکو‘‘ (Haiku) جاپانی صنفِ شاعری ہے۔ ہائیکو، اُردو اصنافِ نظم میں شاید اس وقت سب سے آخری وارد (Lastest Entry) ہے۔
ہائیکو، تین مصرعوں کی ایک نظم ہوتی ہے، جس میں 17 مقطعات ہوتے ہیں اور اس کا آہنگ پانچ سات پانچ ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی خصوصیت اختصار ہے۔ مناظرِ فطرت میں انسانی رشتوں اور جذبوں کی دریافت ہائیکو کا موضوعی حسن ہے۔
ہائیکو، اُردو میں تازہ وارد ہے۔ بعض نقادوں نے ’’ثلاثی‘‘، بعض نے ’’پنجابی ماہیا‘‘ اور ’’ڈھولا‘‘ اور بعض نے ’’مختصر نظم‘‘ اور ’’قطعے‘‘ سے ہائیکو کا رشتہ جوڑا ہے۔
ڈاکٹر محمد امین کے خیال میں ہائیکو کے لیے ’’بحرِ خفیف مسدس‘‘ موزوں ترین ہے۔ ’’ہائیکو‘‘ کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
بیکل کھڑا دوار پر
پھونک کے اپنے گھر کو خود ہی
جرم دھرے سنسار پر
اب اپنے قانون میں
چور، شاہ سب ایک ہیں جیسے
بن مطلب مضمون میں
فلسفے کی کتاب کھولی تو
سارتر کے حروف پر تتلی
اپنی ہستی کی سوچ میں گم تھی
(پروفیسر انور جمال کی تصنیف ادبی اصطلاحات مطبوعہ نیشنل بُک فاؤنڈیشن ، صفحہ نمبر 179 سے انتخاب)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
