’’ڈزدانے‘‘ (کالا/ سیاہ املوک)

Journalist Comrade Amjad Ali Sahaab

یہ چھوٹا سا کالا/ سیاہ املوک جسے مَیں نے ماضیِ قریب میں ضلع سوات کی تحصیل مٹہ کے ایک خوب صورت گاؤں گوالیرئی میں وافر مقدار میں پیدا ہوتے دیکھا ہے، اسے وہاں ’’تور املوک‘‘ (کالا/ سیاہ املوک) کے ساتھ ازراہِ تفنن ’’ڈزدانے‘‘ نام سے بھی پکارا جاتا۔
’’ڈزدانے‘‘ کی وجۂ تسمیہ کی طرف آخر میں آتے ہیں کہ تجسس برقرار رہے ۔ سرِ دست اس پھل کا تھوڑا سا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ پھل کَنچے (بچوں کے کھیلنے کی کانچ کی گولی، جسے ہم پشتو میں ’’بلوری‘‘ یا ’’ٹکان‘‘) کے سائز کا ہوتا ہے۔ عموماً اس کے کھانے کے دو اوقات ہوتے ہیں۔ پہلا، جب یہ درخت میں پَک کر گرنے یا اُتارے جانے کے قریب ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اسے تازہ بہ تازہ درخت سے اُتار کر کھانے کو ترجیح دیتے ہیں، جب کہ کچھ لوگ میری طرح اس پھل کو سٹور کرکے باقاعدہ طور پر سُکھا کر کھانا پسند کرتے ہیں۔
ڈسٹرکٹ ڈائریکٹر ایگریکلچر ایکسٹنشن لور سوات افتخار احمد اپنی تحقیق کی روشنی میں کہتے ہیں: ’’کالے / سیاہ املوک کو ’وائلڈ پرسمن‘ (Wild Persimmon) کہتے ہیں۔ اس کا حیاتیاتی نام ’ڈایو سپائرس لوٹس‘ (Diospyros Lotus) ہے۔ یہ دراصل ’جاپانی پھل‘(Red Persimmon) کا مورثِ اعلا (Ancestor) ہے۔ باقاعدہ جینیاتی تبدیلی (Genetical Modification) کے بعد یہ ’جاپانی پھل‘ کا روپ دھار گیا ہے۔‘‘
افتخار احمد آگے کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں جو جاپانی پھل پایا جاتا ہے، یہ بغیر بیج کے (Seedless) ہے۔ ’’اور جس پھل میں بیج پایا جاتا ہے، وہ ایک اور ورائٹی ہے۔ وہ بھی کالے/ سیاہ املوک سے باقاعدہ طور پر ارتقائی عمل سے گزر کر موجودہ شکل اختیار کرچکا ہے۔‘‘
اپنی گفت گو کو حتمی شکل دیتے ہوئے افتخار احمد کہتے ہیں: ’’کالا/ سیاہ املوک جنگلی ہے، جو قدرتی طور پر اُگتا ہے۔ قلم کاری (Grafting) کے بعد یہ پودا جاپانی پھل دینا شروع کرتا ہے۔‘‘
اب آتے ہیں ’’ڈزدانے‘‘ کی وجۂ تسمیہ کی طرف:
’’ڈزدانہ‘‘ (واحد) یا ’’ڈزدانے‘‘ (جمع) دراصل دو الفاظ ’’ڈز‘‘ پشتو میں گولی چلنے کی آواز (Fire) اور ’’دانہ‘‘ فارسی الاصل لفظ ہے، جو پشتو میں بھی ان معنوں میں مستعمل ہے۔ چوں کہ اس پھل کا زیادہ مقدار میں کھانا پیٹ کی گیس کا سبب بنتا ہے۔ اس لیے چھوٹی عمر کے لڑکے جب دن کے وقت اسے زیادہ مقدار میں کھالیتے، تو مائیں رات کو اُنھیں اپنے ساتھ سُلاتے وقت کوستی رہتیں۔ کیوں کہ لحاف کے اندر وقتاً فوقتاً دھماکا خیز مواد پھٹتا رہتا، جس کے نتیجے میں وہ ناگوار بُو ہوتی کہ بے چاری ماؤں کے چودہ طبق روشن ہوجاتے۔ ایسے موقعوں پر ماؤں کے لیے سردی میں لحاف کے اندر منھ چھپانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا۔
جس بچے کو پیٹ کی گیس کا عارضہ لاحق ہوتا، ماں اُس کے ہاتھ میں ’’ڈزدانے‘‘ دیکھ کر برا مناتی کہ رات کو اُس کی نیند حرام ہونا لازم ہوتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے