دنیا میں طاقت کے کھیل کی نوعیت ہمیشہ ایک جیسی رہی ہے، کبھی زمین کی خاطر جنگیں لڑی گئیں، کبھی وسائل کے لیے اور کبھی اقتدار کی ہوس میں قوموں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا۔
یوکرین جنگ بھی انھی بنیادی محرکات کی ایک کڑی ہے، مگر اس بار معاملہ صرف زمین یا سیاسی اثر و رسوخ تک محدود نہیں، بل کہ زمین کے نیچے چھپے وہ خزانے بھی اس جنگ کے ایندھن میں شامل ہوچکے ہیں، جن کی قیمت کھربوں ڈالر میں ہے۔
سوال صرف یہ نہیں کہ اس جنگ کا فاتح کون ہوگا، بل کہ یہ بھی ہے کہ یوکرین کے ان نایاب معدنی وسائل کا اصل مالک کون بنے گا؟ دنیا کے اس پیچیدہ کھیل میں امریکہ ایک بار پھر مرکزی کھلاڑی کے طور پر سامنے آیا ہے، مگر کیا یہ محض ایک اتحادی ہے، یا پھر وہ سوداگر، جو اپنے مفادات کی قیمت پر نئی شراکتیں قائم کر رہا ہے؟
یوکرین اور امریکہ کے درمیان سخت مذاکرات جاری رہے، جن کا مقصد امریکی کمپنیوں کو یوکرین کی نایاب معدنیات تک رسائی دینا اور بدلے میں تعمیرِ نو کے منصوبوں میں امریکی شمولیت کو یقینی بنانا تھا۔ بالآخر یہ طے پایا کہ یوکرین اپنے قدرتی وسائل کے منافع میں امریکہ کو شراکت دار بنائے گا، جہاں آمدن کا نصف حصہ یوکرین کو حاصل ہوگا، باقی امریکہ کو۔
ابتدا میں واشنگٹن نے 500 ارب ڈالر کے معدنی حقوق مانگے، مگر یوکرین کے سخت موقف کے باعث یہ مطالبہ گھٹ کر 90 ارب ڈالر تک آگیا۔ اس معاہدے کو یوکرین کی اقتصادی بقا کے لیے ایک امید کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، مگر اس میں ایک بنیادی کمی یہ ہے کہ اس میں سیکورٹی گارنٹی یا دفاعی مدد کی کوئی شق شامل نہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب یوکرین کو نہ صرف مالی، بل کہ عسکری مدد کی بھی اشد ضرورت ہے، اس معاہدے کو صرف معاشی مفادات کا سودا قرار دیا جا رہا ہے۔ یورپی یونین کے کچھ رہ نماؤں نے اس پر تنقید کی ہے کہ کسی بھی ملک کی امداد کو اس کے قدرتی وسائل کے استحصال سے جوڑنا ایک نیا نوآبادیاتی ماڈل بنانے کے مترادف ہے، جس میں طاقت ور ممالک معاشی بحران میں گھری ریاستوں کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
دوسری طرف روس، جو پہلے ہی یوکرین کے کئی علاقوں پر قابض ہوچکا ہے، نے ایک حیران کن چال چلتے ہوئے امریکی کمپنیوں کو بہ راہِ راست ایک اور پیش کش کر دی۔ روس نے کہا کہ اگر امریکہ پابندیاں نرم کرے، تو وہ ڈونیٹسک، لوہانسک اور دیگر مقبوضہ علاقوں میں موجود نایاب معدنی وسائل تک امریکی کمپنیوں کو رسائی دے سکتا ہے۔
اس معاہدے کی اصل اہمیت صرف معاشی نہیں، بل کہ سفارتی ہے۔ کیوں کہ اگر امریکہ اس پیش کش کو قبول کرتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ یوکرین کے مقبوضہ علاقوں پر روسی تسلط کو تسلیم کر رہا ہے۔ روس کے زیرِ قبضہ علاقوں میں کوئلے، مینگنیز اور دیگر قیمتی دھاتوں کے ذخائر کی مالیت 350 ارب ڈالر سے زائد بتائی جاتی ہے۔ یہ وسائل امریکہ اور یورپ کے لیے اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل ہیں۔ روس کے اس اقدام کو مغربی اتحاد میں دراڑ ڈالنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ کیوں کہ اس سے یوکرین کے معاہدے کی کشش کم ہوسکتی ہے اور امریکہ کو فوری فوائد کی ایک ایسی پیش کش مل رہی ہے، جو اسے یوکرین کے ساتھ طویل مدتی معاہدے سے زیادہ پُرکشش محسوس ہوسکتی ہے۔
جنگ کے میدان سے ہٹ کر ایک اور جنگ سفارتی محاذ پر بھی جاری ہے، جہاں امریکہ کی قیادت میں یوکرین اور روس کے درمیان جنگ بندی کے لیے دباو بڑھایا جا رہا ہے۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ فوری جنگ بندی کے حق میں ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ایسٹر سے پہلے، یعنی 20 اپریل تک، یوکرین فوجی پسپائی اختیار کرے اور کچھ علاقوں میں روسی کنٹرول کو تسلیم کرلے۔
امریکی وزیر دفاع نے تو یہاں تک کَہ دیا کہ 2014ء سے پہلے کی یوکرینی سرحدیں اب غیر حقیقی تصور ہیں، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ امریکہ سفارتی لحاظ سے یوکرین کے کچھ علاقوں پر روسی کنٹرول کو تسلیم کرنے کی راہ ہم وار کر رہا ہے، مگر یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ جب تک اُنھیں سیکورٹی گارنٹی نہیں ملتی، وہ کسی بھی معاہدے کا حصہ نہیں بنیں گے۔
یوکرین میں داخلی سیاست بھی ایک نیا رخ اختیار کرچکی ہے، جہاں ٹرمپ اور روس دونوں اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ چوں کہ زیلنسکی کی آئینی مدت ختم ہوچکی ہے، اس لیے فوری انتخابات کرائے جائیں۔ ٹرمپ نے تو یہاں تک کَہ دیا کہ زیلنسکی ایک ڈکٹیٹر بن چکے ہیں اور وہ جمہوری عمل کو روک رہے ہیں، جب کہ روس بھی یہی بیانیہ آگے بڑھا رہا ہے، تاکہ یوکرین کی حکومت کو کم زور ثابت کیا جاسکے، لیکن عوامی سروے کچھ اور کہانی سنا رہے ہیں۔ ’’کیو انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے مطابق 57 فی صد یوکرینی عوام اب بھی زیلنسکی پر اعتماد کرتے ہیں، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے خلاف جاری پروپیگنڈا حقیقت سے زیادہ سیاسی چال ہے۔
یہ صورتِ حال امریکہ کے لیے ایک پیچیدہ انتخاب بن چکی ہے۔ ایک طرف یوکرین ہے، جو ایک ایسا معاہدہ پیش کر رہا ہے، جو طویل المدتی معاشی فوائد تو رکھتا ہے، مگر فوری نوعیت کی سیاسی کام یابی کے لیے اتنا پُرکشش نہیں۔ دوسری طرف روس ہے، جو فوری وسائل تک رسائی کی پیش کش کر رہا ہے، مگر اس کے بدلے میں امریکہ کو یوکرین کی خودمختاری کے اصول سے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ اگر امریکہ یوکرین کے ساتھ کھڑا رہتا ہے، تو وہ اپنی عالمی ساکھ اور مغربی اتحاد کو برقرار رکھ سکتا ہے، مگر اس کا مطلب ہوگا کہ وہ فوری معاشی فوائد کو قربان کر دے۔ اگر وہ روس کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے، تو اسے قیمتی وسائل تک رسائی مل سکتی ہے، مگر اس کے نتیجے میں نیٹو اور یورپ کے ساتھ اس کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔
یہ فیصلہ نہ صرف یوکرین اور روس کے درمیان توازن کا تعین کرے گا، بل کہ امریکہ کی مستقبل کی خارجہ پالیسی کے لیے بھی ایک مثال قائم کرے گا۔ کیا امریکہ عالمی قیادت کا دعوا برقرار رکھے گا، یا پھر فوری معاشی مفاد کے لیے ایک ایسا راستہ اختیار کرے گا، جو اس کی اصولی سیاست پر سوالیہ نشان لگا دے؟ آنے والے دنوں میں یہ واضح ہو جائے گا کہ دنیا کا سب سے طاقت ور ملک کس سمت میں اپنا قدم بڑھاتا ہے، مگر ایک بات طے ہے، جو بھی فیصلہ ہوگا، وہ صرف یوکرین یا روس کے لیے نہیں، بل کہ پوری عالمی سیاست کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوگا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
