وہ بھی کیا دن تھے، جب گرمی کے دنوں میں ہم مینگورہ خوڑ (ندی) میں نہا کر دوپہر کی تپتی دھوپ میں آلوچوں کے کسی باغ پر ہلہ بول دیتے۔ بندہ اگر 4، 5 عدد آلوچے باغ سے اُٹھا لیتا یا کسی درخت سے توڑ لیتا، تو باغ کی رکھوالی کرنے والا درگزر سے کام لیتا، مگر ہم جیسے ’’خدائی خدمت گاروں‘‘ کو تو پورے محلے کے لڑکوں، ’’لڑکیوں‘‘، بڑوں حتیٰ کہ بوڑھوں (صنفی امتیاز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے) تک کی فکر لاحق ہوتی۔ اس لیے جب کبھی لمبا ہاتھ مارنے کے بعد بدقسمتی سے چوکی دار کے ہتھے چڑھ جاتے، تو وہ بے بھاو کی پڑتی کہ الامان و الحفیظ۔
واردات کے لیے ہم جیسے ’’گرگِ باراں دیدہ‘‘ دوپہر کے دو یا ڈھائی بجنے کا انتظار فرماتے۔ اُس وقت تک باغ کی ایک سرے سے دوسرے تک رکھوالی کرتے کرتے چوکی دار کا بُرا حال ہوچکا ہوتا اور اکثر سستانے کی خاطر جیسے ہی ٹیک لگاتا، تو اگلے ہی لمحے پریوں کی دیس میں قدم رنجہ فرما دیتا۔ اُس کے بعد لڑکے بالے جو حشر باغ کا کرتے، اُسے دیکھ کر شیطان بھی کان کی لو کو ہاتھ لگاتا۔
آج جہاں بُت کڑہ (گل کدہ) کے آثارِ قدیمہ کے ساتھ بھانت بھانت کی کوٹھیاں اور بنگلے قائم ہیں، سنہ 90ء کی دہائی میں یہاں دو بڑے باغات ہوا کرتے تھے۔ ان کی چوڑائی رکھ چوڑیں اور لمبائی سے اندازہ لگائیں، جو لنڈیکس بنگلہ دیش کو سوات پریس کلب یا شریف آباد کی طرف سے جانے والی سڑک سے لے کر بُت کڑہ کی سڑک تک تھی۔ دونوں باغات کے درمیان ایک چوڑا راستہ پیدل چلنے والوں کے لیے راحت کا سامان بنتا۔ مذکورہ باغات کے دونوں سروں پر مٹکے اور مٹی سے بنے برتن پڑے ہوتے۔ باغوں کے درمیان گزرنے والے راستے پرپاپیادہ چلنے والے اکثر مذکورہ مٹکوں سے ٹھنڈا پانی بھر بھر کر غٹاغٹ پی جاتے اور کسی درخت کے نیچے بیٹھ کر قمیص کے بٹن کھولتے اور ماتھے کا پسینا پونچھ کر سکون کا سانس لیتے۔
اب مگر وہ 90ء کی دہائی رہی، نہ وہ باغات رہے اور نہ راحت کا سامان ہی رہا۔ بس
’’کنکریٹ کا جنگل ہے اور ہم ہیں دوستو!‘‘
برسبیلِ تذکرہ، ہمارے ناناجی ہیڈ ماسٹر (ر) غلام احد میرخیل نے ایک دفعہ بتایا تھا کہ ’’بُت کڑہ دراصل بُت کدہ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ ہم تو مسلمان بننے سے رہے، سو مختلف جگہوں کو مسلمان بنا کر (جیسے بُت کڑہ کو گُل کدہ میں تبدیل کیا گیا، مام ڈھیرئی کو طالبانائزیشن کے دور میں ایمان ڈھیرئی بنایا گیا) اپنی تشفی کا سامان کر رہے ہیں۔‘‘
اب مذکورہ باغات پر کوٹھیاں تعمیر کی گئی ہیں اور چوڑے راستے کے دونوں سروں پر گیٹ لگا کر اسے عام لوگوں کی نقل و حمل کے لیے بند کردیا گیا ہے۔
ماہرینِ آثار قدیمہ کے مطابق، آثارِ قدیمہ کی حدود میں (جو 200 فٹ پر محیط ہے) عام لوگ تعمیراتی کام نہیں کرسکتے۔ شنگردار سٹوپے کے حوالے سے مشہور ہے کہ اس کی حدود میں زمین ہتھیانے کی غرض سے اول اول خانۂ خدا تعمیر کیا گیا۔ اب ظاہر ہے مسجد پر کون اعتراض کرسکتا ہے؟ اس کے بعد بڑے دھڑلے سے ایک کے بعد ایک گھر تعمیر کیا گیا اور اب وہاں (ماشاء اللہ) پورا محلہ قائم ہے۔
اس سے ملتی جلتی صورتِ حال آثارِ قدیمہ ’’بت کڑہ ون‘‘ کی بھی ہے۔ یہاں بھی اول اول آثار کے احاطے میں ایک مسجد تعمیر کی گئی اور اُس کے بعد دھیرے دھیرے تعمیرات کا ایسا سلسلہ چل پڑا کہ اَب وہاں ایک اچھا خاصا محلہ آباد ہے۔
قارئین! مَیں نے سنا تھا کہ طالبانائزیشن (خاص کر 2007ء تا 2009ء) کے دوران میں کسی نے طالبان کے ’’ایریا کمانڈر‘‘ کو شکایتاً کہا تھا کہ لنڈیکس بنگلہ دیش کو بت کڑہ سے ملانے والے راستے کو ایک بڑے پتھر کی مدد سے بند کردیا گیا ہے، جس کی وجہ سے مخلوقِ خدا کو آنے جانے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ ’’ایریا کمانڈر‘‘ نے تصدیق کی غرض سے ایک 16، 17 سالہ لڑکے (طالب) کو ظہر کے وقت بھیجا۔ وہ لڑکا لنڈیکس بنگلہ دیش کی طرف سے شروع ہونے والے راستے میں پڑے اُس بڑے پتھر کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور راستہ بند کرنے والوں سے کہا کہ مجھے یہ پتھر رکھنے والے فریق میں سے کسی ’’مشر‘‘ (بڑے) سے ملوائیں۔ جب مذکورہ ’’مشر‘‘ آیا، تو اُس لڑکے (جس کی ابھی مسیں بھی پوری طرح نہیں بھیگی تھیں) نے چھوٹتے ہی کہا: ’’مشرہ، چی ماخام رازم او دا کمر دلتہ پروت اونہ وینم!‘‘ یعنی مَیں مغرب کے وقت اس جگہ کا جائزہ لینے آؤں گا۔ مجھے یہ پتھر یہاں پڑا دکھائی نہ دے۔
کہا جاتا ہے کہ سہ پہر سے پہلے پہلے وہ بھاری پتھر ایک ’’کرین‘‘ کے ذریعے ہٹایا گیا۔ نمازِ مغرب کے بعد جب شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے، وہ لڑکا آیا، اُس جگہ کا جائزہ لیا اور ’’واکی ٹاکی‘‘ کے ذریعے ’’ایریا کمانڈر‘‘ کو راستہ صاف ہونے کی اطلاع دی۔
’’دروغ برگردنِ راوی!‘‘
آج کی تصویر کہانی کی یہ تصویر 26 مارچ 2002ء کو لی گئی ہے۔
(اگر یہ تصویر اچھے ریزولوشن میں درکار ہو، تو ہمارے ایڈیٹر سے ان کے ای میل پتے amjadalisahaab@gmail.com پر رابطہ فرمائیں، شکریہ)
