(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
’’سوات‘‘ ہمیشہ سے تاریخ دانوں، سیاحوں، ماہرینِ بشریات (Social Anthroplogists) اور عُمرانیات کے ماہرین کی دل چسپی کا موضوع رہا ہے۔ اس کے ہمسایہ ریاستِ دیر کی بہ نسبت، سوات ہمیشہ ہر قسم کے حملوں کے لیے کھلا رہا۔ مختلف نسلوں کے لوگ یہاں آ کر بسے اور پھر دوسرے حملہ آوروں کی طرف سے یہاں سے نکالے گئے، لیکن ہر ایک حملہ آور نے اس سرزمین پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ سوات نے وقتاً فوقتاً شدید تباہ کن قوتوں کا بھی سامنا کیا ہے، لیکن ان میں سے کسی نے بھی طویل عرصے تک یہاں رہنے کی کوشش نہیں کی۔ یہاں تک کہ برطانوی افواج نے بھی وادی کے پورے علاقے میں مارچ کیا اور ’’ونسٹن چرچل‘‘ کے مطابق، بازار کوٹ تک پہنچ گئے۔ انھوں نے مینگورہ اور اپنے راستے میں آنے والے دیگر گھروں کو لوٹا۔ چرچل اپنی کتاب ’’ملاکنڈ فیلڈ فورس کی کہانی‘‘ میں لکھتا ہے کہ مقامی لوگوں نے مارچ کرتی فوج کی جانب پیٹھ کرلی اور کھیتوں میں کام کرتے رہے۔ چوں کہ برطانویوں کی سوات پر مستقل قبضے میں کوئی دل چسپی نہیں تھی، اس لیے انھوں نے یہاں کوئی قلعہ یا بیرکس قائم نہیں کیے، جیسا کہ انھوں نے ملاکنڈ اور دیر میں کیا۔
یہی وجہ ہے کہ سوات پر کئی زبانوں میں کتابیں موجود ہیں، لیکن ہمسایہ ریاستِ دیر میں محققین کو دیر کی حالات پر مبنی کتابیں تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ دیر میں 1905ء تک ’’خانیت‘‘ تھی۔ یہاں پر حکم رانی کرنے والے خاندان کا تعلق نہاگ درہ کے ایک صوفی اور عالم بزرگ، اخون الیاس سے تھا۔ جب جندول کے عمرا خان نے دیر پر قبضہ کیا، تو اس وقت کے خان، محمد شریف خان نے مینگورہ، سوات میں پناہ لی۔ برطانوی حکومت نے عمرا خان کے اس طرح اُبھرنے کو اپنی طاقت کے لیے خطرہ سمجھا، لہٰذا انھوں نے شریف خان کی مدد کی، تاکہ وہ اپنی خانیت کو دوبارہ حاصل کرسکے۔ اس طرح عمرا خان کو شکست دی گئی اور شریف خان کو دیر کا پہلا نواب مقرر کیا گیا۔ ان کی وفات کے بعد، نواب اورنگزیب خان المعروف ’’چاڑا نواب‘‘ (ہکلا نواب) نے دیر پر حکم رانی کی۔ ان کی حکم رانی نئی ابھرتی ہوئی ہمسایہ ریاستِ سوات کے ساتھ تنازعات سے مسلسل متاثر رہی۔
لیکن دیر کی تاریخ میں سب سے طاقت ور اور مضبوط نواب، نواب سر شاہ جہاں خان تھے۔ انھوں نے دیر کو بیرونی دنیا سے الگ تھلگ رکھا۔ انھوں نے ایران اور افغانستان کے بادشاہوں کے ساتھ ذاتی تعلقات قائم کیے۔ ان کی حکم رانی 1960ء کی دہائی میں اچانک ختم ہوگئی، جب پاکستانی حکام نے انھیں معزول کرکے لاہور منتقل کیا، جہاں وہ جَلاوطنی میں فوت ہوئے۔ انھوں نے اپنے لوگوں کو تعلیم اور صحت کی سہولیات سے دور رکھا۔ ان کے ہٹنے کے بعد، دیر نے حکومتِ پاکستان کی مدد سے ترقی کا سفر شروع کیا۔
دیر پر کچھ کتابیں دست یاب ہیں، جیسے ’’داستانِ دیر‘‘ ریاض الحسن کی لکھی ہوئی اور ’’گمنام ریاست‘‘ سلیمان شاہد کی۔ ان دو کتابوں کے علاوہ، مَیں ذاتی طور پر دیر کے بارے میں دیگر ریکارڈ سے آگاہ نہیں ہوں۔ ایک ایرانی سیاح محمود دانشور نے شاہ جہاں کے مظالم کے بارے میں کچھ تفصیلات دی ہیں، لیکن یہ کہانیاں زیادہ تر ڈراؤنی فلموں (Horror Movies) کی طرح لگتی ہیں، بہ جائے اس کے کہ کوئی قیمتی تاریخی مواد ہو۔
دیر کے بارے میں لکھنا ایک غیر دریافت شدہ میدان ہے اور اس میں علم والے لوگوں کے لیے مناسب مواد اور مواقع موجود ہیں۔ ہمارے پاس دیر میں اچھے لکھاری ہیں، جو جوان ہیں اور تحقیق کے لیے تمام موافق حالات رکھتے ہیں۔ ہم ان سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ آگے آئیں اور پوشیدہ حقائق کو روشنی میں لائیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔