بدقسمتی سے پاکستانی جمہوریت اور سیاست، ذاتی مفادات کا کھلونا بن چکی ہے۔ جہاں ہر پارٹی اور لیڈر خود کو درست، محب وطن اور دوسرے کو غلط، بل کہ غدار کہتا پھرتا ہے۔
طویل عرصے سے جاری اس سیاسی کش مہ کش، اقتدار کی جنگ اور سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کے ایک دوسرے پر الزامات اور ملکی اداروں کے درمیان تناوکی صورتِ حال نے معاشرے کا سکون تباہ و برباد کر کے رکھ دیاہے۔ 1988ء سے لے کرآج تک ملک میں اقتدار کے حصول کے لیے جو محلاتی سازشیں ہوتی رہی ہیں اور سیاست دان اپنے سیاسی مخالفین کو نشانِ عبرت بنانے کے لیے جس طرح مقتدر حلقوں کے ہاتھ مضبوط کرتے رہے ہیں، وہ بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک الم ناک باب ہے۔ 1988ء سے 1999ء تک ملک میں جو کچھ ہوتا رہا، وہ آج بھی قوم کی آنکھوں میں محفوظ ہے۔ اس کے بعد کے حالات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ 2013ء کے انتخابات سے قبل احتساب، انصاف کے نام پر دھرنا سیاست کا جو ڈراما رچایا گیا اور اُن انتخابات کے بعد ’’عمران، باجوہ ہائبرڈ نظام‘‘ لایا گیا اور جو بھی اس نظام سے فیض یاب ہوتارہا اور ملک کو جس طرح دنیا بھر میں تماشا بنا کر رکھ دیا گیا، وہ بھی ماضیِ قریب کی ایک سیاہ تاریخ ہے۔ خود بانیِ پی ٹی آئی نے اپنے دورِ اقتدار میں ملکی معیشت کو تباہی کے اُس مقام پر پہنچا دیا تھا کہ جہاں سے واپسی کی کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی تھی۔ ہمارے سیاست دان بہ شمول بانیِ پی ٹی آئی ہی تو ہیں، جنھوں نے ہمیشہ سے طاقت وروں کے ساتھ مل کر ایک دوسرے کے خلاف محلاتی سازشوں کے نتیجے میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتوں کا تیا پانچہ کیا او ر ذاتی و بین الاقوامی مفادات، سازشوں کے عوض ملنے والے اقتدار کے مزے لوٹے۔
مارچ 2022ء میں بانیِ پی ٹی آئی کا تو یہ بھی کہناتھا کہ اگر اُن کو اقتدار سے ہٹایا گیا، تو ملک تباہ و برباد ہو جائے گا۔ کیا آج بانی اپنے اُسی قول کو عملی جامہ پہنانے میں کوشاں ہیں۔ بانیِ پی ٹی آئی اپنے مفادات کے حصول اور جھوٹی انا کی تسکین کو ملکی مفادات پر مقدم سمجھتے ہیں۔اُن کی سیاسی زندگی میں کوئی ایک کارنامہ یا کام ایسا نہیں، جس پر کوئی محب وطن پاکستانی فخر کرسکے۔ اُنھوں نے بھارت کی خواہش پر کشمیر کا سودا کیا ، ایک مغربی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: ’’مَیں مکمل طور پر نیوکلیئر پروگرام کے خلاف ہوں، جیسے ہی مسئلہ کشمیر حل ہوگا، ہمیں ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت نہیں ہوگی ۔‘‘
ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے کے لیے سی پیک اور پی آئی اے بند کروا دیے۔ آئی ایم ایف سے قرضہ نہ لینے کا دعوا کرنے والے نے اسٹیٹ بینک سمیت تمام معاشی ڈھانچا ہی اُس کے حوالے کردیا اور جب 2014ء میں چین کے صدر سی پیک کا معاہدہ کرنے آرہے تھے، تو 126 دنوں کے طویل دھرنے نے یہ کوشش ناکام بنا دی اور اس بار بیلاروس کے صدر سرکاری اور کاروباری وفود کے ہم راہ پاکستان آئے، تو پھر اسلام آباد پر یلغار کردی اور قومی نقصان کا اندازہ کیے بغیر پاکستان کے امن کے خلاف ’’اعلانِ جنگ‘‘ کردیا اور ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر کے سکون کی نیند سو گئے۔
اب پی ٹی آئی کی تقریباً پوری قیادت حیران ہے کہ جیل میں قید اُن کے رہ نما نے اب یہ کیا اعلان کر دیا ہے؟ بغیر کسی سے مشاورت کیے عمران خان نے ’’سول نافرمانی‘‘ کا اعلان سوشل میٖڈیا کے ذریعے کر دیا۔ پہلے مرحلے میں اگر اُن کے مطالبات نہ مانے گئے، تو وہ بیرونِ ملک پاکستانیوں سے اپیل کریں گے کہ وہ پاکستان پیسے بھیجنا یعنی ’’ترسیلاتِ زر‘‘ کو محدود کر دیں اور بائیکاٹ مہم چلائیں۔ یہ سب پر عیاں ہے کہ ایسے حالات میں جب معاشی حالت بہتری کی جانب بڑھنا شروع ہوئی ہے اور ملک دشمن طاقتوں کی جانب سے دہشت گردی کی نہایت سنگین وارداتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں، جن میں فرقہ واریت کی نئی لہر بھی شامل ہے۔ ان حالات میں عمران خان کی کال پر سول نافرمانی تحریک سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اعصاب کی یہ جنگ بری طرح ہار چکے ہیں۔ اُن کے پاس احتجاجی و انتشاری سیاست کے سوا کوئی ایجنڈا موجود نہیں کہ جسے بروئے کار لاکرخود اور پارٹی رہ نماؤں کو مشکلات اور سنگین مقدمات سے نجات دلا سکیں۔
اس سے قبل 2014 ء کے دھرنے کے دوران میں بھی عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے بجلی گیس کے بِل جلائے اور عوام سے مطالبہ کیا کہ اس تحریک میں بھرپور حصہ ڈالیں، لیکن بنی گالہ کے اپنے گھر کے بل بروقت جمع کرا دیے تھے۔
آج عوام کے ایک مخصوص طبقے میں یہ تاثر قائم ہے کہ عمران خان ملک دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور اُن کے مذموم ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ اُن کا پہلا ایجنڈا پاکستان کی معیشت کی کمر توڑنا ہے۔ موجودہ حالات کو اگر وطنِ عزیز کو ترقی کی طرف لے جانے اور فساد پھیلانے والوں کے درمیان معرکہ آرائی کہا جائے، تو بے جا نہ ہوگا۔ سیاست میں اختلافات کے تصفیے کے لیے ہمیشہ مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری ملکوں میں سیاسی عناصر میں شدید اختلافات کے باوجود قومی سطح پر انتشار اور افراتفری کی کیفیت کبھی پیدا نہیں ہوتی، تاہم پی ٹی آئی قیادت اپنے دورِ اقتدار میں بھی سیاسی مفاہمت سے انکارکرتی رہی اور حکومت سے نکالے جانے کے بعد بھی کسی سیاسی ڈائیلاگ پر یقین نہیں رکھتی۔ حالاں کہ ملکی سلامتی، معیشت کی بہ حالی اور سیکورٹی ایسے معاملات ہیں، جنھیں سیاست سے بالا تر ہو کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔
ضروری تو یہ ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈر اجتماعی دانش کو موقع دیتے ہوئے ملک کو بے یقینی سے نکالنے اور استحکام پیدا کرنے کے لیے سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرتے آگے بڑھیں۔ مزاحمت کی بہ جائے مفاہمت کو فروغ دیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔