درولئی پُل پر ’’سیاست‘‘ بھونڈی حرکت ہے

Blogger Zubair Torwali

پتا نہیں ہر بات کو ہمارے ’’درولئی‘‘ (بحرین، سوات) کے بھائی کیوں پارٹی سیاست کا شکار بناتے ہیں؟
دراصل مَیں نے درولئی کے بڑوں سے 23 نومبر کو جرگے میں وعدہ کیا تھا کہ مَیں اس پل کے بارے میں اُن کو ایک ہفتے میں بتادوں گا۔ کیوں کہ جب مجھے پتا چلا کہ ’’ورلڈ بنک‘‘ خیبر پختون خوا میں ایسا کوئی منصوبہ کر رہا ہے، تو سیدھا اُن سے بات کی، بل کہ درخواست کی کہ مجھے اس بارے میں بتایا جائے کہ اس منصوبے میں کون کون سے پل اور سڑکیں شامل ہیں؟ ورلڈ بنک انتظامیہ نے میرا خط خیبر پختون خوا کے سی اینڈ ڈبلیو اور اپنے اس منصوبے کے "Project Implementation Unit” (PIU) بھیجا۔ وہاں سے مجھے مختلف خطوط بھیجے گئے کہ پشاور کے اُن افسروں نے کس طرح سوات میں ’’سی اینڈ ڈبلیو‘‘ کے حکام سے اس بارے میں خط و کتابت کی ہے۔ اُن میں سے ایک خط میں نے ہمارے معزز ایم پی اے کو بھی بھیجا کہ اس حوالے سے مزید کام کیا جائے۔ تاہم ایم پی اے صاحب نے مجھے جواب دینا بھی مناسب نہ سمجھا۔
چوں کہ مَیں اُن خطوط سے مطمئن نہیں تھا۔ لہٰذا مَیں نے کئی اور بار لکھا۔ جواب میں مختلف افسروں کے فون آئے۔ کسی کی بات پر کھل کر اعتبار نہیں کیا اور آخرِکار اسی "PIU” کے ایک ڈائریکٹر نے فون کیا اور مبارک باد دی کہ یہ پل دوبارہ منظور ہوئے ہیں۔
دو مہینوں سے جاری اس خط و کتابت کا احوال ’’درولئی‘‘ کے بڑوں کو اس جرگے میں بتایا اور درخواست کی کہ وہ ایک ہفتہ انتظار کریں کہ مذکورہ آفیسر مجھے تحریر میں کچھ دیں، تو آپ کو آگاہ کردوں گا۔
مجھ پر دباو تھا کہ ’’درولئی‘‘ کے مذکورہ بڑے باربار اس حوالے سے پوچھتے تھے۔ میری خوش قسمتی کہ 29 نومبر کو سہ پہر چار بجے مجھے پہلے افسر کی طرف سے وہ خط آیا جو سوشل میڈیا پر زیرِ گردش ہے۔
خط کو ’’درولئی‘‘ کے ساتھی نثار احمد توروالی کے ساتھ ’’شیئر‘‘ کیا، لیکن اس سے پہلے اس کو وٹس ایپ پر اپنے ان چند بڑوں کو بھیجا کہ میرے ذمے جو کام آپ نے لگایا تھا، اس کا نتیجہ ملاحظہ ہو۔
نثار احمد توروالی نے مذکورہ خط کے سکرین شارٹس فیس بک پر دیے۔ وہاں سے لوگوں نے ’’سیاست‘‘ کا آغاز کردیا۔
دراصل ’’درولئی‘‘ میں چند لوگ ہر بات کو سیاسی بناتے ہیں۔ لگتا ہے کہ ہمارے کچھ نمایندوں کے فیس بک پیجز کے ایڈمن بھی یہاں سے کوئی لوگ ہیں، بل کہ ہر گاؤں سے ہوں گے کہ یہی سیاست میں ہوتا ہے۔
اس تمام تر صورتِ حال میں میری گزارش ہے کہ اس کو بہ راہِ کرم اپنی ’’سیاست‘‘ کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ مَیں اور کچھ نہیں کرتا، صرف جہاں ضرورت ہو، وہاں سوال اُٹھاتا ہوں اور پوچھتا ہوں۔ مَیں کوئی سیاسی بندہ نہیں ہوں اور نہ سیاست سے کوئی غرض ہی ہے۔ ملکی سیاست کے بارے میں اپنی رائے ضرور رکھتا ہوں جو کہ بدلتی رہتی ہے۔ مجھے اس گند کے ڈھیر میں نہ گھسیٹا جائے۔ حقائق تلخ ہوتے ہیں، ان سے پردہ اٹھائیں گے، تو مشکلات بڑھ جائیں گی۔
جب کئی سال پہلے یہ افواہ پھیلائی گئی کہ درولئی تک سڑک بن رہی تھی، اُس کو زبیر توروالی (راقم) نے روک دیا۔ تو اس پر اُس وقت کے ایم پی اے نے بھی یقین کرلیا۔ مَیں وضاحتیں دیتا رہا۔ کئی سادہ لوح کارکنوں نے بھی اس بات پر یقین کرلیا۔ تاہم مجھے اعلا سطح پر بھی بتایا گیا کہ فُلاں افسر نے ایسا کہا ہے، مگر اس افسر کا کوئی نام نہیں دیا گیا۔
اب ایک اجلاس کی کارروائی کے ریکارڈ کو نوٹیفکیشن بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ مذکورہ آفیسر نے جو مجھے فون پر اُن پلوں بارے اجلاس کا بتایا تھا، اُس کا تحریری ثبوت مَیں نے مانگا تھا اور جس کا وعدہ اپنے بڑوں سے کیا تھا۔ یہی وہ کارروائی ہے۔ اب اس پر کوئی سیاست کرے، تو کرے…… تاہم ’’درولئی‘‘ اور ’’آئین‘‘ کے لوگوں نے مذکورہ پلوں کو بنوانا ہے۔ اُن کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ حکومت کا سالانہ فنڈ ’’درولئی‘‘ اور ’’آئین‘‘ کے پلوں کو نہیں مل سکا، تاہم اُن پلوں کے ساتھ ایک اورپل پر شروع ہونے والا کام نہیں رُکا۔
بہ راہِ کرم، اس سیاست کو رہنے دیں۔ اس مسئلے کو ’’بازیچۂ اطفال‘‘ نہ بنائیں۔ مجھے میرے کئی پڑھے لکھے ساتھی طعنہ دیتے ہیں کہ ’’آپ درولئی گاؤں کے بارے میں بے حس ہیں۔‘‘
یہاں ہر کام کو ’’سیاست‘‘ یا ’’این جی اُو‘‘ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ لہٰذا بندہ مجبور ہوتا ہے کہ اس سے دور رہا جائے، تاہم جہاں ضرورت ہو، وہاں خاموشی سے اپنا کام کرنا پڑتا ہے۔
مَیں اس پورے خط و کتابت کا احوال اپنے اُن بڑوں کو بتانا بھی نہیں چاہتا تھا کہ میرے نزدیک یہ کوئی بڑا کام نہیں۔ مجھے ان سے مدین ہائیڈرو پاؤر پراجیکٹ کے بارے میں بات کرنا تھی۔ اس لیے اُن کے اس پل کے بارے میں احساسات کو محسوس کرکے ایسا کہنا پڑا۔
ساتھ ایک اور اہم مسئلے کی بو سونگھ رہا ہوں، اس لیے ایک لحاظ سے ایسا مزید کسی کشیدگی سے لوگوں کو بچانے کے لیے کرنا پڑا!
 ……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے