کبھی خواب نہ دیکھنا (تیئس ویں قسط)

Blogger Riaz Masood

جب مَیں نے اپنی سوانح عمری لکھنی شروع کی، تو میرے اکثر قارئین نے اصرار کیا کہ مجھے کچھ نہیں چھپانا چاہیے، لیکن سوچتا ہوں کہ مَیں اپنی زندگی کے انتہائی تاریک گوشوں کے بارے میں، اپنی بری عادات اور اپنی ناکامیوں کی وجوہات کے بارے میں کیسے بات کروں، جب کہ میرے پاس بہترین کامیابیوں کے تمام تر مواقع موجود تھے۔ وہ مواقع، جو مَیں نے کھو دیے تھے۔
جیسا کہ مَیں پہلے ہی اعتراف کرچکا ہوں کہ مَیں واقعی میں اپنے سوا کسی سے محبت نہیں کرتا تھا۔ پس جس نے مجھے خوش کیا، مَیں نے اسے پسند کیا۔ مجھے 1960ء میں ایک شخص سے محبت ہوگئی تھی اور اس کے لیے نظموں کے پلندے لکھے تھے۔
جب مَیں چکیسر میں تھا، تو مجھے اس کی بہت یاد آتی تھی اور راتوں کو اس کی یاد میں تھوڑا سا ہی سو سکتا، ورنہ وہاں قیام کے دوران میں میرا اچھا وقت گزر رہا تھا، جس کا کریڈٹ خان القموت خان اور ان کے بیٹوں حیات الحق اور شیر خان کو جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی مجھے ایسا لگتا جیسے مَیں نے کوئی بہت قیمتی چیز کھو دی ہو۔
چکیسر میں اپنے پہلے چند دنوں کے قیام کے بعد واپس آنے پر، مَیں نے معمول کے مطابق دفتر جانا شروع کر دیا۔ میرا افسر اب بہ ظاہر میرے ساتھ بہت مہربان تھا۔ اسی دوران میں والی صاحب نے ایک نئے سٹاف ممبر کو تعینات کیا۔ اس کا تعلق ایک بہت ہی طاقت ور خاندان سے تھا اور ہمارے باس کو فطری طور پر نئے سٹاف ممبر نے کافی حد تک خوف زدہ کر دیا، حالاں کہ باس تب بھی وہ ہی تھا۔
والی صاحب نے پی ڈبلیو ڈی کو دوبارہ منظم کیا۔ ہمارے سربراہ محمد کریم کو سینئر ایس ڈی اُو اور ہم میں سے پانچ کو اوورسیئر مقرر کر دیا۔ پاکستان سے ایک دوست نے والی صاحب کو تجویز پیش کی کہ محمد کریم کو چیف کے طور پر دوبارہ نام زد کیا جائے، کیوں کہ وہ محکمہ کے سب سے سینئر اسٹاف آفیسر ہیں۔ والی صاحب نے جواب دیا کہ یہ ان (والی صاحب) کا اپنا محکمہ ہے اور وہ بہ ذاتِ خود چیف ہیں۔ ریاست کے دیگر محکموں کے اپنے سربراہ تھے، جیسے وزیرِ مال، نائب سالار وغیرہ۔ اب ہم افسر آباد میں نئے تعمیر شدہ کشادہ دفتر میں شفٹ ہوگئے تھے، جو ہمارے اپنے گھر کے بالکل نیچے واقع تھا۔
ایک شام مجھے ڈپٹی انچارج نے کالج کالونی میں اپنی رہایش گاہ پر کھانے پر بلایا۔ میں مغرب کی نماز کے بعد وہاں چلا گیا۔ میرا خیال تھا کہ اور لوگ بھی مدعو ہوں گے، لیکن میں ہی واحد مہمان تھا۔ جب ہم کھانے کی میز پر بیٹھے، تو نوکر نے میز پر دو گلاس، برف کے کیوبز سے بھری ہوئی ایک طشتری جس میں چاندی سے بنا ایک شان دار چمٹا اور شیواس ریگل کی بوتل رکھی۔
میزبان کا خیال تھا کہ شاید مَیں ان باتوں سے ناواقف ہوں لیکن مَیں نے درجنوں انگریزی کتابیں پڑھی تھیں، اس لیے اس قبیل کے آدابِ محفل خوب سے واقف تھا۔ اس نے میرے گلاس میں کچھ کیوبز ڈالے اور شاید تکلفاً مجھ سے پوچھا، ’’برف کے ساتھ ناں؟‘‘(?On the rocks) مَیں نے جواب دیا ’’ہاں!‘‘ چناں چہ اس نے کیوبز پر وہسکی کی تھوڑی سی مقدار انڈیلی۔ اپنے لیے اس نے سوڈا واٹر ملایا۔ ہم نے آہستگی سے گھونٹ بھرنے شروع کیے اور کئی موضوعات پر گفت گو کی۔ رات کے کھانے کے بعد، اُس نے مجھے خود اپنی گاڑی میں بٹھایا اور مجھے میرے گھر کے قریب چھوڑ دیا۔ یہ ہارڈ ڈرنکس سے میرا پہلا تعارف تھا۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے