آج کے دور میں بے حیائی اور بے شرمی معمول اور رواج بنتی جا رہی ہیں۔ ہمارا معاشرہ بدکرداری، اخلاقی انحطاط اور جنسی بے راہ روی کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ حیا، جو ایک اعلا وصف اور ہمارے معاشرے کی پہچان تھی، اب ختم ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اخلاقی اقدار، جو کسی بھی معاشرے کی بنیاد ہوتی ہیں، زوال پذیر ہیں۔ نوجوان نسل تیزی سے بدکرداری اور بے راہ روی کی دلدل میں پھنس رہی ہے اور والدین اور تعلیمی و مذہبی ادارے اپنی ذمے داریوں سے غفلت برت رہے ہیں۔
ایک وقت تھا جب معاشرے میں اخلاقی زوال کی سب سے بڑی وجہ دین سے دوری اور جدیدیت کے نام پر مغربی ثقافت کی اندھی تقلید کو سمجھا جاتا تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ اب صرف مغربی تہذیب اور ثقافت کی تقلید تک محدود نہیں رہا، بل کہ دیگر عوامل بھی اس میں شامل ہوچکے ہیں۔
جدید ذرائع ابلاغ اس اخلاقی زوال میں ایک بڑا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر بے حیائی کا دائرہ صرف یورپی تہذیب یا جدت تک محدود ہوتا، تو ہمارا پشتون معاشرہ اس سے محفوظ رہتا۔ کیوں کہ یہاں مغربی ثقافت کی تقلید بہت کم ہے۔ اس کے باوجود نوجوان نسل تیزی سے بے راہ روی کا شکار ہو رہی ہے۔ حیا جو خصوصاً ہماری پشتون تہذیب کا بنیادی عنصر تھی، آج تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ ہم وہ کچھ دیکھ اور سن رہے ہیں جس کا ماضیِ قریب میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔
میرے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ سوشل میڈیا کا بے دریغ اور غلط استعمال ہے۔ سوشل میڈیا نے نوجوانوں کی اخلاقی اقدار کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوان نسل وقت گزاری، غیر ضروری مشاغل اور غیر مہذب مواد میں مگن ہوگئی ہے۔ سوشل میڈیا سے جڑے ایسے بے شمار ’’ایپس‘‘ ہیں، جو نوجوان نسل کو بے حیائی کی طرف راغب کررہے ہیں۔ نوجوانوں نسل کا آدھا سے زیادہ وقت ان نام و نہاد ’’سوشل ایپس‘‘ میں گزرجاتا ہے۔
سوشل میڈیا ایپس کے ذریعے جو خرافات ہمارے معاشرے میں سرایت کر رہی ہیں، ان میں سب سے خطرناک رجحان ’’ویڈیوز لیک‘‘ کا ہے۔ اس عمل میں بعض بے حیا اور اخلاق سے عاری نام نہاد ’’ٹک ٹاکرز‘‘ یا ’’سلیبریٹیز‘‘ اپنی فحش ویڈیوز دانستہ یا غیر دانستہ طور پر لیک کر دیتے ہیں۔
یہ ویڈیوز عام طور پر نازیبا، گھٹیا اور غیر فطری جنسی حرکات پر مشتمل ہوتی ہیں، جو دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل ہوجاتی ہیں اور ’’ٹرینڈ‘‘ بن جاتی ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان یہ ہے کہ یہ مواد نہ صرف بالغ افراد، بل کہ کم عمر بچوں تک بھی باآسانی پہنچ جاتا ہے، جو اُن کے معصوم ذہنوں پر منفی اثرات ڈال کر انھیں اخلاقی پستی کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ یہ رجحان ہماری معاشرتی اقدار، خاندانی نظام اور نوجوان نسل کے اخلاقی معیار کو تباہ کر رہا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ جن افراد کی یہ ویڈیوز لیک ہوتی ہیں، میڈیا اُن بدکردار شخصیات کو ہم دردی کا مستحق سمجھتے ہوئے انٹرویوز کے لیے مدعو کرتا ہے۔ جہاں ایسے افراد کو لعنت ملامت کا سامنا ہونا چاہیے، وہاں انھیں بے جا توجہ دی جاتی ہے، اور یہ عمل ہمارے معاشرتی اور اخلاقی زوال کا بڑا سبب بن رہا ہے۔
پہلے ویڈیوز لیکس سے زیادہ تر پنجاب اور دیگر قوموں سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں متاثر ہوتی تھیں، لیکن حالیہ دنوں میں یہ رجحان خیبر پختونخوا میں بھی شدت اختیار کرچکا ہے۔ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ صرف پچھلے ایک مہینے میں درجن سے زیادہ ویڈیوز لیک ہوچکی ہیں، جن میں سے نصف سے زیادہ خیبر پختونخوا کی نام نہاد ’’ٹک ٹاکرز‘‘ کی ہیں۔
یہ ویڈیوز نہ صرف نوجوان نسل کی اخلاقیات کو تباہ کر رہی ہیں، بل کہ ان کے نفسیات پر بھی گہرے منفی اثرات ڈال رہی ہیں۔ ان میں شامل نازیبا حرکات نوجوانوں کو غیر فطری جنسی ترغیب دے رہی ہیں۔ یہ گھٹیا اور منفی رجحان نہ صرف انفرادی اخلاقیات کے لیے تباہ کن ہے، بل کہ اچھے بھلے عزت دار خاندانوں کی عزت اور وقار کا جنازہ بھی نکال رہا ہے۔ کیوں کہ ’’سوشل ایپس‘‘ کے ذریعے ہر روز کسی نہ کسی خاندان کی عزت داو پر لگتی ہے اور اس کے اثرات پورے معاشرے کی برکت اور سکون کو ختم کر رہے ہیں۔
مزید برآں، یہ ویڈیوز صرف دیکھنے تک محدود نہیں رہتیں، بل کہ ایک کاروبار کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ ابتدائی طور پر یہ ویڈیوز جن افراد کے ہاتھ لگتی ہیں، وہ انھیں فروخت کرنے لگتے ہیں اور اس گھناؤنے عمل سے مالی فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ یہ عمل اخلاقی زوال کو مزید بڑھاوا دے رہا ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے نہ تو حکومت عملی اقدامات کر رہی ہے، نہ علمائے کرام ہی اس پر آواز بلند کر رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ ملوث افراد کو قانون کے مطابق سزا دیں۔ ان کے خلاف حدود آرڈیننس کا اطلاق ہونا چاہیے، کیوں کہ ایسی غیر اخلاقی وڈیوز میں ان کی جنسی حرکات پوشیدہ نہیں رہتیں، ایسی صورت میں ان پر سزا کا اطلاق ہوتا ہے۔
کیوں کہ اگر یہ زنا بالرضا کے زمرے میں بھی آتا ہے، تو ان پر حدود آرڈیننس کے تحت حد کی سزا لازم ہے۔ اگر حد کی سزا ممکن نہ ہو، تو کم از کم تعزیری سزا ضرور دی جانی چاہیے۔ تعزیری سزا کے تحت رجم (سنگ ساری)، قید اور جرمانے کی سزائیں شامل ہیں۔ ایسے سنگین برائیوں کے خاتمے کے لیے ان قوانین کا نفاذ ناگزیر ہے۔
اس کے علاوہ حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام سوشل میڈیا ایپس کے لیے موثر قانون سازی کرے اور فحش مواد کی ترسیل کو روکنے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کرے۔ ایسے قوانین بنائے جائیں جو غیر اخلاقی اور نازیبا مواد کو فوری طور پر بلاک کرنے کے لیے واضح اور سخت اصول کے حامل ہوں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی نگرانی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیا جائے اور ایسے مواد کو ’’اَپ لوڈ‘‘ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
اگر ہم نے فوری طور پر اس گھناؤنے عمل کو روکنے کے لیے عملی اقدامات نہ کیے، تو ہمارے معاشرے سے اخلاقیات کا جنازہ نکل جائے گا۔ حیا نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی اور جنسی بے راہ روی عروج پر پہنچ جائے گی۔ نوجوان نسل کے لیے جنسی تسکین ایک معمول کا مشغلہ بن جائے گی اور جنسی استحصال عام ہوجائے گا۔
آخر میں، مَیں اس تحریر کے ذریعے ان لڑکیوں کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں، جو خود کو نمود و نمایش کا ذریعہ بناکر نہ صرف اپنی زندگی برباد کررہی ہیں، بل کہ معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کو بھی کھوکھلا کر رہی ہیں۔ وہ شاید اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ اللہ نے عورت کو ایک پاکیزہ اور باعزت مخلوق بنایا ہے۔ اس کی اصل خوب صورتی اس کی حیا، نزاکت اور شایستگی میں پوشیدہ رکھی ہے۔ اگر عورت باپردہ، باحیا اور باوقار ہو، تو نہ صرف وہ ایک مضبوط خاندان کی بنیاد رکھتی ہے، بل کہ اس کی اپنی زندگی میں سکون اور اس کے خاندان میں برکت اور خوش حالی کی فضا بھی قائم ہو جاتی ہے۔
اگر عورت اسلامی اقدار کے تحت زندگی بسر کرے، تو وہ ایک منفرد مقام حاصل کرتی ہے اور اس کی نسلیں بھی پاکیزہ اور اعلا اقدار کی حامل ہوتی ہیں۔ اس طرح ایک ایسا معاشرہ پروان چڑھتا ہے، جس کی بنیادیں مضبوط اور مستحکم ہوتی ہیں۔
اسلام عورت کے لیے ایک اعلا اور بہترین طرزِ حیات پیش کرتا ہے۔اسلامی طرزِ زندگی نہ صرف معاشرتی استحکام کا ضامن ہے، بل کہ جدید اور جامع اقدار کا حامل بھی ہے۔ مغربی طرزِ حیات کے برعکس، اسلام عورت کو عزت و احترام کا بلند مقام دیتا ہے اور اسے ہر قسم کے استحصال سے محفوظ رکھتا ہے۔
اگر عورت ان اقدار سے کنارہ کشی اختیار کر لے، حیا اور شرم کے دائرے سے باہر نکل جائے، اور پرائے مردوں کے سامنے زیب و زینت کے ساتھ سوشل میڈیا کی چکاچوند میں اپنی حیا اور اقدار کا سودا کرلے، تو اس کا انجام ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ نحوست اس کا مقدر بن جاتی ہے اور مرد اسے صرف جنسی استحصال کا کھلونا سمجھنے لگتے ہیں۔ ایسی عورت اپنی اصل عظمت کھو بیٹھتی ہے اور معاشرے میں اس کی وقعت باقی نہیں رہتی۔ عورت کی عزت، وقار اور خاندانی و معاشرتی مقام اسی وقت محفوظ رہ سکتے ہیں، جب وہ اپنی فطری نزاکت، حیا اور اسلامی اقدار کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی زندگی بسر کرے۔ یہی طرزِ حیات اسے دنیا اور آخرت میں کام یابی سے بھی ہم کنار کرسکتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔