ہمارا دفتر سیدو ہسپتال کے سامنے تھا، دو کمروں پر مشتمل تھا۔ ہمارے کمرے میں ہمارا افسر اور اس کا تمام عملہ کام کرتا تھا۔ دوسرا کمرہ "P.W.D" کے روڈ سیکشن کے عملے کے استعمال میں تھا۔ اس کے سربراہ حبیب اللہ تھے، جو ریاستِ سوات کے چیف سیکرٹری عطاء اللہ کے بھائی تھے۔
ہمارے باس ’’دستخط مستری‘‘ اور ’’ناخود کپتان صاحب‘‘ کے بعد "P.W.D" کی سربراہی کرنے والے بہترین افسر تھے۔ ریاست کے کونے کونے میں قائم سیکڑوں سکول، ہسپتال، کالونیاں، عدالتیں اور خوب صورت کالج مسجد، ودودیہ ہال، مٹہ اور ڈگر کالج سبھی ان کی فطانت و مہارت کی غماز ہیں۔ ان کا ماتحت عملہ ایک ماڈل کے طور پر ان کی پیروی کرتا۔ تعلیمی لحاظ سے وہ مڈل فیل تھے، لیکن تکنیکی طور پر وہ ایک بہترین انجینئر تھے۔ انھوں نے برطانوی حکومت کی دعوت پر لندن میں منعقدہ ’’کامن ویلتھ انجینئرنگ نمایش‘‘ میں ریاستِ سوات کی نمایندگی کرتے ہوئے، سرکاری طور پر شرکت کی۔
بہ ہرحال مَیں نے اپنی ڈیوٹی دوبارہ شروع کی اور اگلے ہی دن مجھے سربراہ اور چند عملے کے ارکان کے ساتھ شانگلہ کے ایک علاقے میں جاری کاموں کا دورہ کرنا تھا۔ میرا کوئی تین سال پہلے، بورڈ شانگلہ سے آلوچ تک ایک رشتہ دار کے ساتھ، جو آلوچ قلعہ میں صوبے دار تھا، پورن پیدل جانا ہوا تھا۔ لیکن اس بار میں اپنے ساتھیوں عبدالرشید اور عبدالرؤف اور سیدو شریف کے ایک ٹھیکے دار گل داد خان کے ساتھ پک اَپ کے پچھلے حصے میں محوِ سفر تھا۔ ہمارے باس نے زیرِ تعمیر ہائی سکول اور 10 بستروں کے ایک ہسپتال کا معائنہ کیا۔
ہم نے رات فخر الدین مستری کے ہاں گزاری۔ اگلے دن ہم واپس سیدو شریف کی طرف روانہ ہوئے۔ اس دن موسلا دھار بارش ہو رہی تھی اور سڑک کچی مٹی کی تھی۔ اچانک پک اَپ گاڑی پھسلنے لگی۔ ہم نے گھبرا کر پک اَپ سے چھلانگ لگائی، تاکہ گہری کھائیوں میں گرنے سے بچ سکیں۔ تیز بارش اور اندھیرے کی وجہ سے ہم نے آگے بڑھنے کی ناکام کوشش کے بعد سفر ترک کر دیا۔ چناں چہ ہم پک اَپ کو یخ تنگی ٹاپ سے کوئی ایک میل دور چھوڑ کر بڑی مشکل سے یخ تنگی ریسٹ ہاؤس پہنچ گئے۔ مقامی پولیس انچارج نے ہمیں بتایا کہ سیدو شریف سے بہت سی کالیں آئی تھیں کہ ہم کہاں ہیں، کیوں کہ ہمیں اسی شام سیدو واپس پہنچنا تھا۔ خیر، کسی بھی طرح ہمارے باس نے حکم ران کے اے ڈی سی سے بات کی، اسے ساری صورتِ حال اور اس غیر متوقع آفت کے بارے میں بتایا جس کا ہم سامنا کر رہے تھے۔ مختصر یہ کہ ہم نے وہ رات ریسٹ ہاؤس یخ تنگی میں گزاری اور اگلے دن الپورئی کا دورہ کرکے واپس آگئے۔ یہ بھی مقررہ شیڈیول سے انحراف تھا۔
والی صاحب کو مکمل تفصیل اور پک اَپ کی ناکامی کے بارے میں بتایا گیا۔ انھوں نے فوری طور پر ’’فور وہیل ڈرائیو پک اَپ‘‘ خریدنے کا آرڈر دیا، تو ہمیں ایک ہفتے کے اندر بالکل نئی پک اَپ مل گئی۔
سروس کے پہلے ہی دن سے، مَیں نے محسوس کیا کہ باس کے ساتھ میری کیمسٹری بن نہیں پا رہی ہے۔ میرا افسر بعض اوقات بہت مہربان ہوتا اور مجھے ریاست کے پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کے طریقۂ کار، تفصیلات اور اکاؤنٹس کو جلدی سیکھنے کا کہتا۔ لاگت کا تخمینہ کیسے تیار کیا جائے، کام کے مختلف آئٹمز کی مقدار کا تعین کیسے کیا جائے اور نرخوں کا شیڈول کیسے لاگو کیا جائے یا ان ٹھیکے داروں کے بل کیسے تیار کیے جائیں جن کے ساتھ یک مشت ادائی کا معاہدہ نہیں ہوتا تھا۔
اس نے مجھے ٹرینڈ کرنے کے لیے بہت محنت کی۔ یہی محنت اس نے دوسرے ( نئے یا پرانے) عملے کے ساتھ بھی کی تھی۔ اس کے لیے اور بہت سی دوسری چیزوں کے لیے مَیں اس کا مقروض و ممنون ہوں، لیکن کچھ کمی تھی۔ جلد ہی مَیں نے جان لیا کہ ایک درجن سے بھی کم اہل کاروں کا یہ دفتر دو کیمپوں میں بٹا ہوا تھا۔ دونوں گروپ ہر ممکن طریقے سے ایک دوسرے کو کم زور کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک کی قیادت ہمارا افسر کر رہا تھا، جب کہ دوسرے کی قیادت ایک با اثر، مضبوط اور دراز قد شخصیت، جو محکمہ کے سربراہ کا معاون تھا، کر رہا تھا۔ مَیں نے غیر جانب دار رہنے کی کوشش کی اور اس طرح دونوں نادیدہ تقسیموں کی سرپرستی کھو دی۔ (جاری ہے)
..........................................
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔