ایک وقت تھا (90ء کی دہائی) جب مینگورہ شہر کی ندی کا پانی صاف ہوا کرتا تھا، مجھے یاد ہے اس کے پانی سے اہلِ مینگورہ وضو کیا کرتے تھے۔ خواتین کپڑے دھونے جب کہ لڑکے بالے نہانے آیا کرتے۔ ندی کے دونوں طرف گلِ نرگس (جنھیں ہم پشتو میں اُس وقت گُلِ گنگس پکارا کرتے) بہار کی آمد کی نشانی ہوا کرتے۔ ان پھولوں کو توڑ کر ہم گھر لے جاتے اور آدھے گلاس تازہ پانی میں رکھ کر کمرے یا گھر کی زینت بناتے۔ ہر چوبیس گھنٹے بعد پانی تبدیل کرتے۔یوں پھول دو تین دن تازہ ہی رہتے۔
میری والدہ محترمہ فرماتی ہیں کہ مینگورہ کے قبرستان گلِ نرگس سے اٹے پڑے رہتے۔ ’’کانڑا بابا (کانا بابا) روڈ پر دریائے سوات سے نکالی جانے والی نہر پر ہم کپڑے دھونے جایا کرتے تھے۔ تاج چوک سے باغ محلہ کی گلی سے ہوتے ہوئے ہم پیدل تیس پینتیس منٹ میں کانڑا بابا روڈ پہنچ جاتے۔ وہاں بیش تر لڑکیاں اپنی ماؤں یا گھر کی دیگر بڑی بوڑھیوں کے ساتھ نہر کنارے بیٹھ کر کپڑے دھوتیں اور دھوپ کے مزے لوٹتیں۔ نہر کا کنارا گل نرگس سے بھرا رہتا۔ اس کی خوش بو مشامِ جاں کو معطر کرنے کا ذریعہ بنتی۔‘‘
مینگورہ شہر کی ندی اب گندے پانی کے ایک بڑے نالے کا منظر پیش کرتی ہے۔ کانڑا بابا روڈ کی نہر کا پانی بھی استعمال کے قابل نہیں رہا۔۔ اس کے علاوہ ابابیلوں کی طرح اب سوات سے گلِ نرگس بھی روٹھ گیا ہے۔ کہیں کسی گاؤں یا درے میں ہو، تو ہو…… اللہ بس، باقی حوس!
عشق اورنگ آبادی کے اس شعر کے ساتھ آج کی تصویر کہانی کو حتمی شکل دیں گے کہ
اُس کی آنکھوں کے اگر وصف رقم کیجیے گا
شاخِ نرگس کو قلم کر کے ، قلم کیجیے گا
(اگر یہ تصویر اچھے ریزولوشن میں درکار ہو، تو ہمارے ایڈیٹر سے ان کے ای میل پتے amjadalisahaab@gmail.com پر رابطہ فرمائیں، شکریہ)