ہماری بچپن کی عیاشیوں میں سے ایک سہ پہر کی چائے کے ساتھ ’’پنجہ‘‘ یا ’’کریم رول‘‘ تناول فرمانا تھا۔ عموماً سہ پہر کی چائے کے ساتھ سوکھی روٹی کھانے کو ملتی تھی۔ چائے بھی صبح تیار کی گئی چائے سے بچ بچا کر ہمیں سہ پہر کو پلائی جاتی تھی، جس کا رنگ استعمال شدہ ’’ڈیزل‘‘ سے ملتا جلتا تھا۔ ہم اپنی والدہ کو چھیڑنے کے لیے اکثر کہا کرتے: ’’مور دَ ٹوپکو تیل را!‘‘ جواباً وہ ہمارے کاندھے پر دو سٹار (دو عدد گالیاں) لگاتے ہوئے ہماری اچھی خاصی ترقی (عزت افزائی) فرماتیں، ساتھ پیالی تھماتیں اور ہم انھیں مزید چھیڑنے کی غرض سے سامنے والے دانت نکال کے بغل میں سوکھی روٹی دابے ایک کونے میں بیٹھ کر پیٹ کی آگ بجھاتے اور وقفے وقفے سے ایک اور سٹار (گالی) حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔
پچھلے سال ایک چائے خانے میں عرصہ بعد چائے کے ساتھ ’’پنجہ‘‘ کھانے کو نصیب ہوا، تو ہم دمِ دیرینہ فضل خالق صاحب نے کہا کہ کراچی میں ہم اسے ’’باقر خانی‘‘ کہا کرتے تھے ۔ گوکہ اُردو ادب میں یہ لفظ بار بار پڑھنے کو ملا تھا، مگر یہ بالکل پتا نہیں تھا کہ ہمارے ’’پنجہ کیک‘‘ کا اصل نام ’’باقر خانی‘‘ ہے۔
اس کا ہمارے ہاں ’’پنجہ‘‘ نام شاید اس لیے پڑا ہوگا کہ اس کی شکل اُردو کے عدد پانچ (۵) کی سی ہے۔ باقی اس پر بڑے بوڑھے یا اہلِ علم ہی اچھی روشنی ڈال سکتے ہیں۔
’’باقر خانی‘‘ کے حوالے سے ’’علینہ عرفان سخی‘‘ کی ایک تحریر آج کل ٹرینڈ میں ہے، جس میں اس کی تاریخ بڑے منفرد انداز میں بیان کی گئی ہے، ملاحظہ ہو:
’’کسی زمانے میں لکھنؤ میں ایک حسین و جمیل طوائف تھی، جس کا نام خانی بیگم تھا۔ نہ صرف خوب صورتی، بل کہ اپنی نشست و برخاست کے حوالے سے بھی وہ لکھنؤ میں بڑی جانی مانی ہستی سمجھی جاتی تھی۔ اُس دور میں نام ور طوائف جسم فروشی نہیں کرتی تھیں، صرف رقص و سرود کی محافل ہی منعقد کی جاتی تھیں۔ امرا اور نوابین اپنے بچوں کو ان طوائفوں کے یہاں آداب سکھانے بھیجتے تھے۔
خانی بیگم کے کئی چاہنے والے تھے جو نہ صرف ان کی خوب صورتی کے اسیر تھے، بل کہ اُن سے شادی کے خواہش مند بھی تھے۔ کئی نوابین بھی انھیں اپنے حرم میں جگہ دیناچاہتے تھے۔ اُنھی میں ایک باقر علی خان تھے، جو خانی بیگم سے شدید محبت کا دعوا کرتے تھے، جب کہ اُنھی کے ہم عصر نواب جمن خان بھی خانی بیگم کے اسیر تھے۔ دونوں نواب چاہتے تھے کہ خانی بیگم اُن کے حق میں فیصلہ دیں۔ خانی بیگم بھی جانتی تھیں کہ اتنے چاہنے والوں میں مذکورہ دونوں نواب ہی اُن کے اصل طلب گار ہیں، لیکن اس سے پہلے کہ وہ کسی ایک کے حق میں فیصلہ کرتیں، کسی نے رات کی تاریکی میں اُنھیں اُن کے کوٹھے ہی میں قتل کردیا۔ قتل کی تفتیش یہ کَہ کر ہی جلد ہی بند کردی گئی کہ اُن کے کسی ناکام عاشق نے یہ حرکت کی اور فرار ہوگیا۔ نواب جمن اور نواب باقر علی خان کی تو مانو دنیا ہی اُجڑ گئی۔
نواب جمن نے تو پھر بھی جلد ہی خود کو دوسری مصروفیات میں اُلجھا لیا، لیکن نواب باقر علی خان صرف اپنی حویلی تک محدود ہو کر رہ گئے۔ نہ کہیں آتے تھے نہ ہی کسی سے ملتے تھے۔ سارا سارا دن صرف خانی بیگم کی یاد میں گھلتے رہتے ہیں۔ بالآخر ایک روز اُن کے ایک منھ چڑھے دوست اُن سے ملنے حویلی آئے اور اُن کی یہ حالت دیکھ کر انتہائی برہم ہوئے اور اُنھیں اپنی دوستی کا واسطہ دے کر اودھ کے بازار لے کر آئے۔
اودھ کے اُس سنہرے دور میں جہاں نوابین کے دیگر مشغلوں کے رواجوں اور فرمایشوں کا خیال رکھا جاتا تھا، وہیں آئے دن کھانے کی بھی کوئی نہ کوئی نئی ڈِش ضرور بنائی جاتی تھی۔ اگر تو وہ ڈش نوابوں کو پسند آ جاتی، تو پھر اُسے ہر باورچی ہی بنانے لگتا اور اگر پسند نہ آتی، تو اُسے فوراً ہی ترک کردیا جاتا۔ الغرض، نواب باقر علی خان کے دوست اُنھیں اودھ کے مشہور نانبائی کے یہاں لے آئے اور اُسے کچھ خاص لانے کی فرمایش کی۔ نانبائی بھی شاید جانتا تھا کہ نواب باقر علی خان کو کوئی عام ذائقہ کہاں بھائے گا، چناں چہ اُس نے جلد ہی اپنی سب سے نئی تخلیق اُن کے سامنے پیش کردی۔ باقر علی خان نے بڑی بے دلی سے ایک لقمہ توڑا اور منھ میں رکھا۔ ایک لحظہ کے لیے اُنھیں ایسا لگا، مانو منھ میں ذائقوں کی بہار اُتر آئی ہو. اُنھوں نے فوراً ہی اُسے بنانے والے نانبائی کو طلب کیا۔ نانبائی بے چارہ یہ سمجھا کہ آج اُس کا سر قلم کرہی دیا جائے گا کہ وہ روٹی جو اُس نے خود بھی پہلی بار ہی بنائی تھی، اُس کا ذائقہ خود اُسے بھی پتا نہیں تھا کہ کیسا تھا؟ وہ ڈرتے ڈرتے باقر علی خان کے سامنے گیا، تو اُنھوں نے اُس سے پوچھا کہ یہ روٹی تم نے بنائی ہے؟ نانبائی نے اثبات میں جواب دیا۔ باقر علی خان نے پوچھا کہ اس (روٹی) کا نام کیا ہے؟ اب تو نانبائی اور گھبرایا کہ ضرور روٹی میں کوئی نقص تھا، جبھی اس کا نام پوچھ رہے ہیں۔ اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے بتایا کہ اس نے یہ روٹی کچھ نئے طریقے سے بنائی ہے اور ابھی اس کا نام کچھ سوچا نہیں تھا کہ حضور کے سامنے پیش کردی۔ اگر حضور کہیں گے، تو وہ آیندہ کبھی اسے نہیں بنائے گا۔
تب باقر علی نے نانبائی کو بتایا کہ اُنھیں یہ روٹی اتنی پسند آئی تھی کہ وہ اس کا نام جاننا چاہتے تھے۔ نانبائی یہ سن کر اتنا خوش ہوا کہ اس نے نواب صاحب ہی سے اس روٹی کو کوئی نام دینے کی درخواست کی۔ تب نواب باقر علی خان نے اپنے دوست اور اُس شاہی نانبائی سے کہا کہ ہم جن سے محبت کرتے تھے، اُن کا نام خانی تھا اور ہمارا باقر ہے۔ زندگی میں تو ہم مل نہ سکے، تو کیوں نہ اس روٹی کا نام ہی ’’باقر خانی‘‘ رکھ دیں۔ دنیا میں جب بھی اور جہاں جہاں بھی یہ روٹی کھائی جائے گی، لوگ ہمارا نام ایک ساتھ لیں گے۔
نواب باقر علی خان کے منھ سے نکلی بات فوراً ہی قبول کرلی گئی۔ یوں اِس طریقے سے بنائی جانے والی روٹی اب بھی کئی تغیر اور مختلف اشکال کے ساتھ آج بھی پاک و ہند میں کھائی جاتی ہے اور لامحالہ باقر اور خانی کا نام ایک ساتھ مربوط ہے۔
نوٹ:۔ زیرِ نظر تحریر کے ساتھ دی جانے والی تصویر 27 اکتوبر 2023ء کو مینگورہ شہر کے مشہور چائے خانے ’’آرزومند ہوٹل‘‘ میں لی گئی ہے۔
(اگر یہ تصویر اچھے ریزولوشن میں درکار ہو، تو ہمارے ایڈیٹر سے ان کے ای میل پتے amjadalisahaab@gmail.comپر رابطہ فرمائیں، شکریہ)
