بالآخر سال، دو سال کے بعد میں اپنا صنم تراشنے میں کام یاب ہوگیا۔ مَیں نے اُسے اچانک پا لیا اور پھر میرے جمالیاتی حواس کام کرنے لگے۔ مَیں نے اتنی برق رفتاری سے شاعری لکھی کہ مَیں نے خود بھی حیران رِہ گیا کہ مَیں نے یہ کیسے کیا؟ تب میرے پاس سیکڑوں صفحات کا مجموعہ تیار ہو گیا تھا: غزلیں، نظمیں، آزاد نظمیں(اگر اسے کَہ سکیں۔)
اَب مَیں جلد از جلد اپنی کتابیں شائع کرنا چاہتا تھا، لیکن کچھ نہیں کرسکا۔ مَیں اس قدر مایوس ہوا کہ مَیں نے ڈائریوں کا وہ بنڈل ایک کپڑے میں لپیٹ کر اُس کے ساتھ ایک بھاری پتھر باندھ کر دریائے سوات میں پھینک دیا۔
زندگی بہت تیز تھی۔ اس سے پہلے کہ مَیں تبدیلی محسوس کر پاتا، ہم اپنے انٹرمیڈیٹ امتحان سے ایک ہفتہ دور تھے۔ فرسٹ ایئر کے پچھلے امتحان میں میرا ریکارڈ سب کے لیے قابلِ رشک تھا۔ مَیں نے تاریخ اور شہریت میں کلاس میں ٹاپ کیا اور انگریزی میں 300 پلس (سائنس اور ہیومینٹیز) کی پوری کلاس میں ٹاپ کیا۔ سالانہ تقریب کے لیے کالج کے مرکزی ہال میں تیاریاں کی گئیں۔ ریاستِ سوات کے ولی عہد میانگل اورنگ زیب مہمانِ خصوصی تھے۔
معینہ تاریخ پر، وہ بالکل مقررہ وقت پر پہنچے۔ پرنسپل اور تعلیمی عملے نے پورچ میں اُن کا استقبال کیا۔ وہ زبردست تالیوں کی گونج میں ہال میں داخل ہوئے اور سٹیج پر بیٹھ گئے۔ تلاوتِ کلامِ پاک اور پرنسپل کی سالانہ رپورٹ کے بعد انعامات کی تقسیم کا آغاز ہوا۔ زیادہ تر طلبہ کے والدین بھی موجود تھے۔
مجھے مذکورہ بالا تین مضامین میں پہلی پوزیشن پر انعام کے لیے بلایا گیا۔ مَیں سٹیج پر انعام وصول کرنے تین بار گیا۔ میری تیسری کال پر، اُس نے نرم مسکراہٹ کے ساتھ کہا، کسی اور کو بھی موقع دینا تھا۔
مجھے دو کتابیں، چارلس ڈکن کی ’’پک وِک پیپرز‘‘، تھامس ہارڈی کی ’’دی ووڈ لینڈرز‘‘، ایک قلم، کچھ سیوینیر اور سرٹیفکیٹ بہ طورِ انعام ملیں۔
ولی عہد نے اپنی اختتامی تقریر کی اور پھر ہم سب کالج کے لان میں ’’ریفریشمنٹ‘‘ کے لیے گئے۔ یہ واحد موقع تھا، جب مَیں نے اپنے والد کو حقیقی خوشی دی۔ دوسری صورت میں، مَیں یہ اعتراف کرنے کے لیے شرمندہ ہوں کہ مَیں نے ہمیشہ اُسے مصیبت میں ڈالے رکھا۔ مَیں خاندان میں ایک بگڑا ہوا بچہ تھا۔ بابا مجھے معاف کر دیں……!
امتحان سے صرف دو دن پہلے میں شدید بیمار پڑگیا۔ سیدو ہسپتال میرے گھر سے پانچ منٹ کے فاصلے پر تھا۔ مجھے وہاں لے جایا گیا۔ ڈاکٹر نجیب اُس وقت انچارج تھے۔ اُس نے مجھے فوری طور پر جنرل وارڈ میں شفٹ کر دیا اور میرا علاج شروع کر دیا گیا۔ ’’ایڈوانس ڈائیگناسٹک سسٹم‘‘ ابھی ایجاد نہیں ہوا تھا، مگر دست یاب ٹیسٹ کرائے گئے، جس سے معلوم ہوا کہ میں ’’فوڈ پوائزننگ‘‘ میں مبتلا ہوں۔ مجھے دو دن تک مسلسل دست رہے اور سب نے سوچا کہ مَیں بچنے والا نہیں۔
امتحان کے دن، مَیں نے کالج کے ہال میں جانے کا اصرار کیا۔ مجھے یقین تھا کہ مَیں پیپر دے سکتا ہوں، بہ شرط یہ کہ ایک گھنٹا بغیر کسی رکاوٹ کے گزار سکوں۔ میری مسلسل التجا پر مجھے ٹانگے میں لے جایا گیا۔ سپرنٹنڈنٹ نے، از راہِ کرم، مجھے جب چاہا ہال چھوڑنے کی اجازت دی۔ چناں چہ ایک گھنٹے کے بعد مَیں نے پیپر اُس کے حوالے کیا اور ہسپتال میں اپنے بستر پر واپس چلا گیا۔
اس طرح مَیں نے اپنا سالانہ امتحان دیا۔ تقریباً پندرہ دن کے بعد، مَیں ہسپتال چھوڑنے کے قابل ہوگیا۔ جب نتیجے کا اعلان ہوا، تو مجھے بہ مشکل پاسنگ نمبر ملے۔
میرے سی ایس پی افسر، پروفیسر یا حکم ران کا پرائیویٹ سیکرٹری بننے کے تمام خواب چکنا چور ہوگئے۔ مَیں اپنی جان لینا چاہتا تھا، لیکن مجھے موت سے بھی ڈر لگتا تھا۔
میرے والد نے مجھے اسے دل پر نہ لینے کی نصیحت کی، لیکن مَیں جانتا تھا کہ وہ اپنی مایوسی کو مجھ سے چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔ مَیں نے اُنھیں، اُن کی خواہشات، اُمیدوں اور مجھے سب سے اوپر دیکھنے کی آرزوؤں کو ناکام بنا دیا تھا۔ میرے دوست اور پڑوسی اسفندیار نے ایک سال پہلے یونیورسٹی میں ٹاپ کیا تھا اور یہی مقصد تھا جو میرے والد نے میرے لیے مقرر کیا تھا۔ لیکن افسوس……! سب کچھ راکھ ہو گیا۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔