خبر یہ ہے کہ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی جناب بلاول بھٹو زرداری حکومت سے سخت ناراض ہوگئے ہیں۔ اُن کی ناراضی کی وجہ مبینہ طور پر حکومت کی وعدہ خلافی ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کی جانب سے جوڈیشل کمیٹی میں مساوی نمایندگی کے وعدے کو پورا نہ کرنے پر احتجاجاً گذشتہ ہفتے جوڈیشل کمیشن سے اپنا نام واپس لے لیا تھا۔ حکومت کی اہم اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اہم معاملات پر وعدہ خلافی اور مشاورت سے راہِ فرار اختیار کرنے کا الزم عائد کرتے ہوئے ناراضی کا اظہار کردیا۔
ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ حکومت نے جوڈیشل کمیٹی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی مساوی نمایندگی کے وعدے کو پورا نہیں کیا۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ حکومت کے ساتھ پی پی پی کے مستقبل کا فیصلہ اَب پاکستان پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کرے گی۔ بلاول بھٹو زرداری جو اس وقت بہ غرضِ علاج وطن سے باہر ہیں، وطن واپسی پر سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بلائیں گے، جس میں اہم فیصلے ہوں گے۔
واقفانِ حال جانتے ہیں کہ میثاقِ جمہوریت (2007ء) کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے درمیان متعدد نورا کشتیاں ہوچکی ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں یہ نورا کشتیاں مذکورہ دونوں پارٹیوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئیں، وہیں پر ملک کے لیے بھی یہ نیک شگون لے کر آئیں اور عوام بھی سکون سے رہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار آئی، تو یہ میثاقِ جمہوریت ہی کا ثمر تھا کہ اس نے انتقامی سیاست کو دفن کر دیا اور ماضی کی سیاہ رات کو بھلا کر نئے عزم سے آغازِ سحر کی بنیاد رکھ دی۔ 2008ء سے 2013ء کا دور سیاسی لحاظ سے سنہری دور تھا۔ پورے پانچ سال میں کوئی ایک سیاسی مقدمہ بنا، نہ کوئی سیاسی قیدی جیل ہی گیا۔ گو پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ اس کا کریڈٹ مسلم لیگ (ن) کو بھی جاتا ہے کہ میاں نواز شریف پانچ سال تک فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے سنتے رہے، مگر انھوں نے صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور ہر قسم کے ایڈونچر سے اجتناب کیا۔ دراصل آصف زرداری اور نواز شریف منجھے ہوئے سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت سوچ سمجھ کر سیاست کی بساط پر چالیں چلتے ہیں۔ دونوں نے ماضی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ سمجھ گئے ہیں کہ آپس کی لڑائی نے ہمیشہ ان دونوں (پارٹیوں) کا نقصان کیا ہے اور ان کی چپقلش سے ہر دفعہ تیسری قوت کو موقع ملا ہے۔ تاہم اپنے ورکرز کو مطمئن رکھنے کے لیے اختلاف اور مخالفت کے متعدد ڈرامے بھی رچائے جاتے رہے ہیں۔
2013ء میں نواز شریف برسرِ اقتدار آئے، تو آصف زرداری نے بھی اپنا طے شدہ کردار بہ خوبی نبھایا، جو تیسری قوت کو پسند نہیں آیا۔ ملک سیاسی اور معاشی استحکام کی جانب چل پڑا تھا۔ دونوں پارٹیوں کی لیڈر شپ نے صوبوں کو زیادہ بااختیار بنا دیا تھا۔ طالع آزماؤں کو اپنا کردار محدود ہوتے ہوتے ختم ہونے کی فکر پڑگئی تھی، چناں چہ عمران خان کی صورت میں نیا سیاسی مہرہ آگے بڑھایا گیا اور ملک کو تیزی سے تنزلی کے راستے کی طرف گام زن کر دیا گیا۔ وہ تو عمران خان کی سیمابی طبیعت نے انھیں نچلا نہ بیٹھنے دیا اور وہ اپنے لانے والوں ہی سے ٹکرا گئے، جس کے نتیجے میں آج کل پابندِ سلاسل ہیں۔ ورنہ تو 1973ء کا آئین ردی کی ٹوکری میں پھینک کر 2035ء تک حکومت کرنے کی منصوبہ بندی کرلی گئی تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے موقع سے فائدہ اُٹھایا اور تحریکِ عدم اعتماد کو کام یاب کروا کر اپنے سیاسی مستقبل کو بچالیا۔ گو دونوں پارٹیوں ہی نے بہت بڑا رسک لیا تھا۔ معیشت کی راہ میں بچھی ہوئی بارودی سرنگوں کا انہیں اندازہ تو تھا، مگر سنگینی اور خطرناکی کا پتا نہ تھا۔ یہ سرنگیں صاف کرنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
انتخابات 2024ء کی انتخابی مہم کے دوران میں لڑی گئی نورا کشتی میں بلاول بھٹو زرداری نے کام یاب اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے اپنی توپوں کا رُخ عمران خان کی طرف سے ہٹا کر میاں نواز شریف کی طرف کیے رکھا۔ دونوں پارٹیوں کے درمیان یہ معاہدہ ہو چکا تھا کہ دونوں پارٹیوں میں سے مرکز میں زیادہ سیٹیں لینے والی پارٹی کو وزارتِ عظمیٰ اور دوسری پوزیشن حاصل کرنے والی پارٹی کو ملک کی صدارت ملے گی۔ یہ طے تھا کہ حکومت میں دونوں پارٹیاں اتحادی ہوں گی۔ جناب بلاول زرداری کی انتخابی مہم سیاسی مخالفت سے زیادہ سیاسی دشمنی لگ رہی تھی۔ انھوں نے نواز شریف پر ذاتی حملے بھی شروع کر رکھے تھے۔ ہم نے تب بھی عرض کیا تھا کہ یہ اختلاف صرف 8 فروری 2024ء کی شام تک ہے۔ اور ایسا ہی ہوا۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ گذشتہ سال انھی دنوں میں جناب بلاول بھٹو وزیرِ خارجہ ہوتے ہوئے بھی پی ڈی ایم کی حکومت کے خلاف ہوگئے تھے اور انھوں نے میاں شہباز شریف کی حکومت کو دھمکی دی تھی کہ وہ قومی اسمبلی سے سالانہ بجٹ پاس نہیں ہونے دیں گے۔ پھر جب سیلاب متاثرین کی بہ حالی کے لیے سندھ حکومت کو وفاقی حکومت سے 20 ارب روپے جاری ہوگئے، تو بلاول زرداری اپنے وزیرِ اعظم کا دایاں بازو بن گئے۔
گذشتہ جون میں بجٹ پاس ہونے کے موقع پر ایک مرتبہ پھر بلاول ناراض ہوگئے تھے۔ بہ ظاہر ان کا موقف یہ تھا کہ انھیں بجٹ کی تیاری کے موقع پر اعتماد میں نہیں لیا گیا، لیکن اصل وجہ یہ تھی کہ وہ پنجاب میں پاؤر شیئرنگ چاہتے تھے۔ تب حکومت نے انھیں پنجاب میں حصہ دینے کا وعدہ کرکے منالیا تھا، لیکن حقیقت میں ایسا نہ ہوسکا۔ وزیرِ اعلا پنجاب مریم نواز شریف اَڑ گئیں اور یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اَب بھی جوڈیشل کمیٹی اصل مسئلہ نہیں۔ بلاول پنجاب میں نئی صف بندی کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے انھیں مسلم لیگ (ن) سے پاور شیئرنگ چاہیے۔
جواب میں مسلم لیگ (ن) سندھ میں وہی شیئرنگ چاہتی ہے، جسے ماننے میں بلاول تذبذب کا شکار ہیں۔ دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے!
یہ تو طے ہے کہ بلاول حکومت سے نکلنے کی غلطی کبھی نہیں کریں گے۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد حکومت کی مشکلات میں بہت کمی ہوگئی ہے۔ آپ سمجھ تو گئے ہوں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔