ہماری بچپن کی عیاشیوں میں سے ایک سہ پہر کی چائے کے ساتھ "پنجہ” یا "کریم رول” تناول فرمانا تھا۔ عموماً سہ پہر کی چائے کے ساتھ سوکھی روٹی کھانے کو ملتی تھی۔ چائے بھی صبح تیار کی گئی چائے سے بچ بچا کر ہمیں سہ پہر کو پلائی جاتی تھی، جس کا رنگ جلے ہوئے "ڈیزل” سے ملتا جلتا تھا۔ ہم اپنی والدہ کو چھیڑنے کے لیے اکثر کہا کرتے: "مور دَ ٹوپکو تیل را!” جواباً وہ ہمارے کاندھے پر دو سٹار (دو عدد گالیاں) لگاتے ہوئے ہماری اچھی خاصی عزت افزائی فرماتیں، ساتھ پیالی تھماتیں اور ہم انھیں مزید چھیڑنے کی غرض سے سامنے والے دانت نکال کے بغل میں سوکھی روٹی دابے ایک کونے میں بیٹھ کر پیٹ کی آگ بجھاتے اور وقفے وقفے سے ایک اور سٹار (گالی) حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔
پچھلے سال ایک چائے خانے میں عرصہ بعد چائے کے ساتھ "پنجہ” کھانے کو نصیب ہوا، تو ہم دم دیرینہ فضل خالق صاحب نے کہا کہ کراچی میں ہم اسے "باقر خانی” کہا کرتے تھے۔ گوکہ اُردو ادب میں یہ لفظ بار بار پڑھنے کو ملا تھا، مگر یہ بالکل پتا نہیں تھا کہ ہمارے "پنجے” کا اصل نام "باقر خانی” ہے۔
اس کا ہمارے ہاں پنجہ نام شاید اس لیے پڑا ہوگا کہ اس کی شکل اُردو کے عدد پانچ (۵) کی سی ہے۔ باقی اس پر بڑے ہی اچھی روشنی ڈال سکتے ہیں۔
نوٹ:۔ یہ تصویر 27 اکتوبر 2023 کو لی گئی ہے۔
(اگر یہ تصویر اچھے ریزولوشن میں درکار ہو، تو ہمارے ایڈیٹر سے ان کے ای میل پتے amjadalisahaab@gmail.com پر رابطہ فرمائیں، شکریہ)