15 صفحات پر مشتمل 26ویں آئینی ترمیم بِل گزٹ کاپی کے صفحہ نمبر 3 تا 14 کے بہ غور مطالعے سے اس نتیجے پر باآسانی پہنچا جاسکتا ہے کہ درحقیقت اس ترمیم کا مقصد آئینِ پاکستان کے ساتویں حصے یعنی آرٹیکل 175 تا 212 عدلیہ کے انتظامی ڈھانچے، افعال اور اختیارات میں رد و بدل کرنا ہے۔ سب سے نمایاں تبدیلیاں آرٹیکل 175-A یعنی ’’جوڈیشل کمیشن آف پاکستان‘‘ میں دیکھنے کو ملی ہیں۔
جوڈیشل کمیشن کی تشکیل میں نمایاں اور اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ ججوں کے علاوہ دو عدد ممبرانِ پارلیمنٹ اور ایک خاتون یا غیر مسلم فرد جوکہ پارلیمنٹ کا حصہ نہ ہو، ایسے فرد کی نام زدگی قومی اسمبلی کا اسپیکر کرے گا۔ یہ تین ممبران بھی کمیشن کا حصہ بن گئے ہیں۔
ترمیم کی بہ دولت چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی کا اختیار پارلیمنٹ کو سونپ دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کی بہ طور چیف جسٹس تعیناتی کی بہ جائے چیف جسٹس کا انتخاب پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کردیا گیا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد پارلیمانی کمیٹی نے جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ خان آفریدی میں سے آخر الذکرکا انتخاب کیا۔ جوڈیشل کمیشن کے دائرۂ اختیار میں وسعت دے دی گئی ہے، جس کی بہ دولت کمیشن نہ صرف سپریم کورٹ، فیڈرل شریعت کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججوں کی تعیناتی کی سفارش کرے گا، بل کہ ہائیکورٹ کے ججوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا اختیار بھی سونپ دیا گیا ہے۔
کمیشن ہائیکورٹس کے ججوں کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لے گا۔ اگر کمیشن کی نظر میں ہائیکورٹ کے جج کی کارکردگی غیر تسلی بخش قرار پاتی ہے، تو کمیشن اس جج کو مخصوص ٹائم فریم کے اندر کارکردگی بہتر بنانے کا خصوصی موقع فراہم کرے گا۔ مخصوص ٹائم فریم کے بعد بھی کمیشن اس جج کی کارکردگی غیر تسلی بخش پاتا ہے، تو کمیشن اس جج کی کارکردگی رپورٹ (ججوں کا احتساب کرنے والی) سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دے گا۔
جوڈیشل کمیشن اجلاس بلانے کا اختیار صرف چیف جسٹس کے پاس محفوظ تھا، مگر ترمیم کے بعد کمیشن کا اجلاس بلانے کے لیے ایک تہائی ممبرانِ کمیشن کی درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان، جو کمیشن کے چیئرمین ہوتے ہیں، 15 دن کے اندر اندر اجلاس طلب کرے گا۔ اگر چیئرمین مقررہ دنوں کے اندر اجلاس طلب کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو کمیشن کا سیکرٹری 7 دنوں کے اندر اجلاس طلب کرے گا۔ سپریم کورٹ، وفاقی شرعی عدالت اور ہائیکورٹ میں ججوں کی متوقع یا خالی اسامی کے لیے کمیشن کا کوئی بھی ممبر نام زدگی دے سکتا ہے۔
یاد رہے اس سے پہلے متوقع ججوں کی نام زدگیاں چیف جسٹس ہی دیا کرتے تھے۔ ترمیم کی بہ دولت کمیشن میں چیف جسٹس کی اجارہ داری کا خاتمہ کردیا گیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدہ کی میعاد 3 سال یا 65 سال عمرتک پہنچ قرار پائی ہے ۔
یاد رہے ترمیم سے پہلے چیف جسٹس کے عہدہ کی کوئی میعاد مقرر نہیں تھی، بل کہ 65 سال کی عمر ہوجانے پر ریٹائرمنٹ ہوجاتی تھی۔ موجودہ چیف جسٹس یحییٰ خان آفریدی کی تاریخِ پیدایش یکم جنوری 1965ء ہے۔ بہ طور چیف جسٹس عہدے کا چارج 26 اکتوبر 2024ء کو سنبھالا ہے اور وہ تین سالہ عہدہ کی میعاد 26 اکتوبر 2027ء کو پوری کرکے سبک دوش ہوجائیں گے۔ حالاں کہ یکم جنوری 2030ء کو 65 سال کی عمر کو پہنچیں گے۔
ماضی میں آرٹیکل 184(3) کا سہارا لے کر جس طرز پر افتخار چوہدری، بابا رحمتا ثاقب نثار ایسے ججوں نے سوموٹو کا بے دریغ استعمال کیا، جس کی بہ دولت ریاستِ پاکستان کو نہ صرف اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، بل کہ عدلیہ کی انتظامی اُمور میں سرِ عام مداخلت کی بہ دولت انتظامیہ کو مفلوج تک کردیا گیا۔ اس ترمیم کے بعد سوموٹو کا گلہ گھونٹ دیا گیا ہے۔
ترمیم کی سب سے اہم بات آئین میں دو نئے آرٹیکلز کا اضافہ کیا گیا ہے۔ آرٹیکل 191-A کے تحت سپریم کورٹ میں اور آرٹیکل 202-A کے تحت ہائیکورٹس میں آئینی بینچوں کا قیام وقوع پذیر ہوگا۔ سپریم کورٹ کا آئینی بینچ کم از کم 5 ججوں پر مشتمل ہوگا، جس میں تمام صوبوں کے ججوں کو مساوی نمایندگی دی جائے گی اورآرٹیکل 184, 185 اور 186 کے تابع ایسے مقدمات کی سماعت کا اختیار ہوگا، جس میں آئین و قانون کی تشریح کا معاملہ درپیش ہو۔
آرٹیکل 209 میں ترمیم کرکے سپریم جوڈیشل کونسل کو پابند کیا گیا ہے کہ جج کے خلاف موصول ہونے والی رپورٹ پر کونسل چھے ماہ کے اندر صدرِ مملکت کو سفارشات ارسال کرے گی۔
بلا شک و شبہ بہ ظاہر 26ویں آئینی ترمیم کا مقصد جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس کے عہدے پر براجمان ہونے سے روکنا تھا، جس میں موجودہ حکومت اور اتحادی جماعتیں کامیاب ہوگئی ہیں، مگر کیا عوام الناس کو حصولِ انصاف میں تیزی دیکھنے کو ملے گی؟ اس سوال کا سادہ سا جواب ہوگا کہ ’’نہیں!‘‘
کیوں کہ جب تک سپریم کور ٹ اور پاکستان کی تمام ہائیکورٹوں میں ججوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا جاتا اور اس کے ساتھ ساتھ خالی اسامیوں کو پُر نہیں کیا جاتا، تب تک پاکستانی عوام عدالتوں میں ایسے ہی دھکے کھاتے رہیں گے۔ کیوں کہ آئینی بنچوں پر عدالتوں کے موجودہ جج ہی براجمان ہوں گے، جو ایک وقت میں آئینی مقدمات سُن سکتے ہیں یا پھر عام مقدمات۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عدلیہ میں ججوں کی تعداد کو بڑھایا جائے اور پہلے سے موجود خالی اسامیوں کو پُر کیا جائے، جس کے لیے کسی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہوگی، تاکہ عوام الناس کے ٹیکس سے چلنے والے ریاسی نظام کے ذریعے عوام الناس کی دادرسی ممکن ہوسکے۔
..........................................
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔