رانجو بابا

Photo of Journalist Comrade Amjad Ali Sahaab
زما پری سپینہ خُلہ توریگی 
د رنجو خال پہ زنہ مہ گدہ غل بہ شمہ 
سُرمہ جسے پشتو میں ’’رانجہ‘‘ کہتے ہیں، پشتو شاعری کی مشہور صنف ’’ٹپہ‘‘ میں اس کے حوالے سے اچھا خاصا کام ہوچکا ہے۔ یہ پشتون معاشرے میں خواتین کی زیبایش کا اہم عنصر مانا جاتا ہے۔
تصویر میں دکھائی دینے والے بابا کے بہ قول عرصہ 30، 35 سال سے وہ سرمہ بیچنے کا کام کرتے ہیں۔کہتے ہیں: ’’پہلے پہل یہ ایک فائدہ مند کام تھا، اَب جب کہ وہ کوئی اور کام نہیں کرسکتے، اس لیے یہ کام ایک طرح سے وقت گزاری کی خاطر برقرار رکھے ہوئے ہیں۔‘‘ 
مجھے یاد ہے 90ء کی دہائی میں اپنی دادی کی انگلی پکڑ کر سیدو بابا، پیر بابا، حصار بابا اور دیگر اولیائے کرام کی زیارت پر حاضری دیتے ، تو سُرمہ بہ طورِ خاص خریدا جاتا۔
سُرمے کے ساتھ میری ایک تلخ یاد یہ بھی وابستہ ہے۔ ایک دفعہ کھتیڑا بازار میں ایک سُرمے والا پوری ایک بالشت جتنی لمبی سلائی لے کر سرمے کا سٹال لگائے کھڑا تھا۔ وہ دعوا کر رہا تھا کہ اُس کے ساتھ ایسا سُرمہ ہے، جو آنکھ کا سارا گند نکال کر لمحوں میں کھوپڑی کا بوجھ ہلکا کرتا ہے۔ دو تین بابوں کی طرح ہم بھی اُن کے پھیلائے ہوئے دام میں پھنس گئے۔ پاس ہی پڑے سفید رنگ کے سرمے میں وہ ’’دو سر والی‘‘بالشت بھر لمبی سلائی ڈالتا اور جیسے ہی آنکھ میں پھیرتا، تو بندے کے چودہ طبق روشن ہوجاتے اور آنسوؤں کی لڑیاں بندھ جاتیں۔مَیں ٹھہرا 10 سال کا ایک معصوم سا بچہ.... میری باری آئی، تو جیسے ہی دائیں آنکھ میں سلائی پِھری، تو ایسا لگا جیسے کسی نے دائیں گال پہ زناٹے دار تھپڑ رسید کیا ہو، ابھی دماغ تکلیف کی شدت جانچ ہی نہیں پایا تھا کہ سلائی بائیں آنکھ میں پِھری۔نتیجتاً منھ سے چیخ نکلی اور.........
پھر اُس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
بہ خدا! اب تک وہ ترازو ایجاد ہی نہیں ہوا، جو میرے اُس وقت کی تکلیف کو تول پائے۔
یہ تصویر ستمبر 2023ء کو جمعہ بازار (گوڈو بازار، کانجو روڈ) میں لی گئی ہے۔ 
 (اگر یہ تصویر اچھے ریزولوشن میں درکار ہو، تو ہمارے ایڈیٹر سے ان کے ای میل پتے amjadalisahaab@gmail.com پر رابطہ فرمائیں، شکریہ) 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے