نفسیاتی طور پر ’’میں کرسکتا ہوں‘‘ کی سوچ اتنی طاقت رکھتی ہے کہ یہ ناممکنات کو ممکن بھی بنا دیتی ہے۔ کسی کو یہ باور کرانے کا عمل کہ ’’آپ کرسکتے ہیں‘‘ اُس شخص کو کامیابی کی جانب پہلا قدم بڑھانے میں مدد دیتا ہے۔ اکثر بچے جب ہوم ورک کرنے پر اسکول ٹیچر سے ہاتھ یا چہرے پر’’ اسٹار‘‘ بنوانے میں کامیاب ہوتے ہیں، تو وہ آئندہ کے لئے اسٹار پانے کے لئے پہلے سے زیادہ محنت کرتے ہیں۔ یہ اسٹار بچے کی خود اعتمادی کو بڑھاوا دیتا ہے۔ یہ انہیں بتاتا ہے کہ آپ کرسکتے ہیں۔
تعریف سے انسان کو ایک نیا جذبہ ملتا ہے لیکن شومئی قسمت کہ ہم تعریف سنتے نہیں تھکتے، تعریف کرنے میں البتہ جھجک کا اظہار ضرور کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں جذبۂ اعتراف رکھنے والے گنتی کی تعداد میں موجود ہیں۔ باقی لوگ ان کے آسرے پر ہوتے ہیں۔ اگر انہیں کہیں سے ’’شاباشی‘‘ مل جائے، تو ٹھیک۔ ورنہ یہ مایوسی کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔
ہمارے پولیس ادارے کی ہی مثال لے لیجیے۔ پولیس روزانہ چھوٹے بڑے مسائل کا بیڑا اٹھائے انہیں حل کرنے میں مصروف ہوتی ہے۔ ہاں! اب یہ بھی سچ ہے کہ مذکورہ ادارے میں خوبیوں کے ساتھ خامیاں بھی موجود ہیں، لیکن چند منفی چیزوں کو جواز بنا کر ان کے کردار کو کیسے جھٹلایا جاسکتا ہے؟ کیا باقی ماندہ ادارے دودھ کے دھلے ہیں؟ کیا باقی اداروں میں کرپشن نہیں ہوتی یا ان میں صرف فرشتہ صفت انسان ہی بھرتی ہوتے ہیں؟ پانچوں انگلیاں کہاں برابر ہوتی ہیں؟ فرق صرف یہ ہے کہ پولیس کے ساتھ ہمارا تقریباً روزانہ کی بنیاد پر واسطہ پڑتا ہے جبکہ دیگر اداروں کے ساتھ واسطہ پڑنے کی نوبت کم ہی پیش آتی ہے۔ خدا گواہ ہے کہ دیگر اداروں کے ساتھ ’’ٹھیک واسطہ‘‘ پڑنے کے بعد کسی بھی بندۂ خدا نے ان کے بارے میں اپنی رائے بدلتے دیر نہیں لگائی۔
موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ کہیں پر آپریشن ہو تو انتظامیہ پولیس کو بلاتی ہے(یہاں فیض آباد دھرنے کی بات بالکل بھی نہیں کی جا رہی)۔ پولیس بے چاری اپنے محدود وسائل کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتی ہے لیکن پھر اچانک حکم آجاتا ہے کہ پولیس واپس چلی جائے، کیوں کہ یہ کام پولیس کے بس کا نہیں ہے۔ اس حکم کا مطلب ہوتا ہے کہ ہماری پولیس کام چور، کرپٹ، نکمی اور کسی کام کی نہیں ہے۔ اس لئے ہم مزید وقت برباد نہیں کرسکتے۔ پولیس اپنے خستہ حال ڈنڈوں، شہید اور زخمی ساتھیوں کو اٹھاکر کسی ہارے ہوئے کھلاڑی کی طرح واپس چلی جاتی ہے۔ پھر دیگر سیکورٹی اداروں کے اہلکار آتے ہیں اور داد و تحسین کی اچھی خاصی مقدار سمیٹ کر واپس چلے جاتے ہیں۔ پولیس نے کیا کردار ادا کیا، کیسے کیا، کتنا نقصان اٹھایا؟ یہ بحث جائے بھاڑ میں! کسی نے آج تک یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی کہ جس پولیس اہلکاروں کے حوالہ سے ہم نے ’’ناکام، ناکام‘‘ کی رٹ لگائی، انہیں ہم یہ یقین دلاچکے ہیں کہ واقعی آپ ’’ناکام‘‘ہیں۔ کیا کسی نے کبھی سوچا ہے کہ بے چارے محکمہ پولیس کے وسائل کتنے ہیں، انہیں بجٹ کتنا ملتا ہے؟
پشاور کے حالیہ واقعہ میں پختونخوا پولیس نے جس طرح کی شاندار کارکردگی دکھائی، وہ واقعی قابلِ تعریف ہے۔ یہ کسی معجزہ سے کم نہیں ہے۔ کیوں کہ جس ادارے کو ہم اتنا نظر انداز کرچکے ہیں کہ جس کی تعریف کرتے وقت ہم ’’شاباش‘‘ بولنا تک بھول جاتے ہیں۔ جس طرح پولیس نے کمال خود اعتمادی کے ساتھ ماہرانہ انداز میں ایک حساس آپریشن کو سر انجام دیا، یہ اس بات کی گواہی ہے کہ ہماری پولیس نااہل نہیں ہے۔ انہیں پیٹھ پر ہلکی سی تھپکی کی ضرورت ہے۔ ہماری پولیس اندرونی معاملات سے نمٹنا خوب بہتر جانتی ہے۔ جو کام جس کے ذمہ ہے، اسی کو کرنے دیا جائے، تو ہمیں اچھے نتائج مل سکتے ہیں۔ اب ہمیں چاہئے کہ اپنی پولیس کو سپورٹ کریں۔اس کو یتیم نہ سمجھیں۔ مل بیٹھ کر پہلے اس کی بات غور سے سنیں، پھر اپنی سنائیں۔اسے شاباشی دیں اور حوصلہ بڑھائیں کہ ’’ہاں! آپ کرسکتے ہیں۔‘‘ پختونخوا پولیس کی حالیہ کارکردگی دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ پولیس کا اعتماد بڑھانے کے لئے انہیں مزید بااختیار بنانا چاہئے۔ صوبہ کی تمام چیک پوسٹس پر فورسز کے جوانوں کی بجائے پولیس اہلکاروں کو تعینات کرنا چاہئے۔ سوات اور اس طرح پختونخوا کے تمام علاقوں سے سیکورٹی فورسز کو واپس بلا کر پولیس کو کنٹرول دیا جائے۔ اس سے ہماری فورسز کے کاندھوں پرموجود اضافی بوجھ بھی کم ہوجائے گا۔ کیوں کہ ہم نے پہلے سے اپنی فورسز کے ذمہ ہر چھوٹا بڑا کام ڈالا ہوا ہے۔
ہمیں اب اپنی پولیس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پولیس کے چہرے پر بھی اسٹار بنانے کی ضرورت ہے۔ نتیجتاً پولیس آئندہ اس سے بہتر کارکردگی دکھائے گی۔ میرے خیال سے یہ ایک اچھا موقعہ ہے۔ چیک پوسٹس پر پولیس کی تعیناتی اور مختلف علاقوں میں پولیس کو واپس کنٹرول دینے سے ہم اپنی پولیس کے چہرے پر ’’اسٹار‘‘ بناپائیں گے۔ اسطرح یہ ایک خوشگوار تبدیلی ثابت ہوگی۔
……………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔