تحریر: ارینا ماکسی مینکو
(راقم ’’ماسکو ریڈیو‘‘ اور ’’ریڈیو صدائے روس‘‘ کے شعبۂ اُردو کی سابق مترجم اور سابق سربراہ ہیں)

’’سوشلسٹ انقلاب‘‘ کی صد سالہ سال گرہ ہے پر بحث کی شدت خاص طور پر بڑھ گئی تھی کہ دراصل یہ کیا تھا؟ ایک ’’عظیم انقلاب‘‘، ’’کودیتا‘‘ یا ’’بغاوت؟‘‘
ایک اور سوال ہے کہ وہ کیوں ’’اکتوبر انقلاب‘‘ کہا جاتا ہے، جب کہ سال گرہ نومبر میں منائی جاتی ہے؟ اس سوال کا جواب دینا مشکل ہرگز نہیں۔ بات یہ ہے کہ زارشاہی کے زمانے میں روس میں ’’جولین‘‘ کیلنڈر رائج تھا، جب کہ دنیا کے زیادہ تر ملکوں میں ’’گریگورین‘‘ کیلنڈر مانا جاتا ہے، تو جولین کیلنڈر اور گریگورین کیلنڈر میں فرق 14 دنوں کا ہے۔ ’’انقلاب‘‘ یا ’’بغاوت‘‘ یا جو بھی ہو، 25 اکتوبر کو ہوا۔ سنہ 1918ء میں نئے روس کی حکومت نے ملک میں گریگورین کیلنڈر رائج کیا، جس کے مطابق 25 اکتوبر کی تاریخ 7 نومبر بن گئی۔ اس طرح ہوا یہ کہ اکتوبر کی سال گرہ نومبر میں منائی جاتی ہے۔
خیر، یہ تو سیدھی سادھی سی بات ہے، لیکن ہوا کیا تھا 25 اکتوبر یعنی 7 نومبر سنہ 1917ء کو؟ اس پر بہت مختلف، بل کہ متضاد آرا پائی جاتی ہیں…… لیکن میرے خیال میں ضرور ماننا ہوگا کہ یہ 20ویں صدی کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے اور اس نے ساری عالمی تاریخ کی روش کو اثر انداز کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں نوآبادیوں میں اور انڈیا میں بھی، جو برطانوی نوآبادی تھی، قومی تحریکِ آزادی اُبھر آئی۔ اس کے نتیجے میں سرمایہ دار مغربی ممالک کی حکومتوں نے ڈر کے (خوف زدہ ہوکر) اپنے اپنے ہاں کچھ سماجی اصلاحات کیں، عوام کے حالاتِ زندگی کچھ بہتر بنانے کے لیے ، لیکن خود روس میں کیا ہوا، اوں کیوں؟
واضح رہے کہ اُس وقت دنیا میں پہلی عالمی جنگ ہو رہی تھی جس میں روس بھی ملوث تھا۔ اُس جنگ کی وجہ کیا تھی؟ بنیادی وجہ یہ تھی کہ بعض سرمایہ دار ملکوں خاص طور پر جرمنی اور برطانیہ کے معاشی مفادات تضاد میں آئے۔ کچھ ملکوں نے جرمنی کا ساتھ دیا اور دوسروں نے، جن میں روس بھی شامل تھا، برطانیہ کا۔ روس کی فوج زیادہ تر کسانوں پر مشتمل تھی اور وہ نہیں سمجھتے تھے کہ وہ کیوں اور کسی بات کی خاطر لڑنے اور کام آنے پر مجبور ہیں؟ دشمن نے ان کی سرزمین پر نہ تو قبضہ کیا تھا، نہ مداخلت ہی کی تھی۔ وہ اپنا اپنا گھر لوٹنا اور کھیتی باڑی کے کام میں پھر سے مصروف ہو جانا چاہتے تھے۔ ایک اور بات یہ ہے کہ فوج کو بارود اور سامان کی سپلائی بے حد بری تھی، یہاں تک کہ نہ صرف خوراک، بل کہ گولیوں کی بھی سخت کمی تھی، جو کرپشن کا نتیجہ تھا۔ فوج میں سپاہیوں کی مایوسی اور ناراضی بڑھ رہی تھی، یہاں تک کہ اُنھیں غصہ بھی آنے لگا۔
دوسری طرف، ملک میں زار اور اُن کا خاندان زیادہ مقبول نہیں تھے۔ زار کی چار بیٹیاں تھیں اور ایک بیٹا…… لیکن یہ لڑکا بیمار تھا اور واحد انسان جو اُس کی مدد کرسکتا تھا، وہ راسپوتین تھا، جس کا نام آپ لوگوں نے شاید سنا ہوگا۔ تو یہ آدمی زار اور زارینا، اُن کے سارے خاندان کے بہت قریبی دوست بن گئے، جس سے نہ صرف عوام، بل کہ دانش ور لوگ اور شرفا بھی سخت ناراض تھے۔ خود زار، ملک کے مسائل کو حل کرنے کی بہ جائے، زیادہ سے زیادہ توجہ اپنے گھر کے مسائل پر دے رہے تھے۔ کسی حد تک اُن کی یہ بے پروائی اور وزیروں کا کرپشن ایسے حالات پیدا کرچکے تھے، جو انقلاب، کودیتا اور بغاوت کے لیے بہت مناسب اور سازگار تھے، اور پہلی عالمی جنگ نے بے شک اسے تقویت پہنچا دی۔
اس بات کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے کہ اس سے 12 برس قبل سنہ 1905ء میں روس میں پہلا انقلاب ہوا تھا، جو کچل دیا گیا تھا بڑی بے رحمی کے ساتھ۔ لوگوں نے، جن میں بہت زیادہ دانش ور بھی تھے، شہری آزادیوں اور آئین کا مطالبہ کیا تھا۔ وہ آئین کی منظوری اور پارلیمنٹ کی تشکیل کا نعرہ لگا رہے تھے۔ زرعی مسئلہ بھی حل طلب تھا۔ کسان چاہتے تھے کہ اُنھیں زمین کی اراضیاں دے دی جائیں، پھر وہ زمین داروں کے تسلط سے آزاد ہوسکیں اور مزدور، جو زیادہ تر گاؤں سے آئے ہوئے پہلے خود بھی کسان تھے، بڑے شہروں میں درحقیقت بے گھر تھے اور روزانہ 12 تا 14 گھنٹے کام کرنے پر مجبور تھے۔ وہ بھی اپنے حالات میں کچھ نہ کچھ بہتری کے منتظر تھے، لیکن یہ مطالبے پورے نہیں کیے گئے۔ انقلاب کو کچل دیا گیا۔ حالات درحقیقت نہیں بدلے…… اور اگر کوئی تبدیلی لائی گئی، تو وہ بھی برائے نام تھی۔ اس طرح، پارلیمنٹ کی آخرِکار تشکیل ہوئی، جو ’’ریاستی دوما‘‘ کہلاتی تھی، لیکن یہ کٹھ پتلی تھی۔
فروری سنہ 1917ء میں اُس نے پھر بھی زار کو اقتدار سے انکار کرنے پر مجبور کر دیا۔ یہ زار اور اُن کے خاندان کے، ملک میں بے حد نامقبول ہونے، اور معاشرے میں بڑھنے والی مایوسی، تھکاوٹ اور ناراضی کے نتیجے میں ہوا۔ پھر عارضی بورژوا حکومت تشکیل دی گئی، لیکن اُس نے کسی بھی مسئلہ کو حل نہیں کیا اور پوری طرح بے بس ثابت ہو گئی۔
ان حالات میں بالشیویکوں کی پارٹی نے زیادہ تر عرام کے سہارے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور حالاں کہ اُس وقت یہ پارٹی زیادہ بڑی نہیں تھی، شاید وہ سب سے زیادہ منظم شدہ تھی اور پھر صحیح نعرے لگائے جن پر عوام میں بہت مثبت ردِعمل ہوا۔ نعرے اس طرح کے تھے : ’’کارخانے مزدوروں کو دو‘‘، ’’زمین کسانوں کو دو‘‘، ’’جنگ ختم کر دو‘‘ اور ’’عوام کو امن چاہیے۔‘‘
عوام اپنا اقتدار قائم کرنے کے غرض مند تھے اور بالشویکوں کی پارٹی نے اُن کی یہ خواہش پوری کرنے کی آمادگی ظاہر کر دی۔ اگر بہ حیثیت مجموعی کہا جائے، تو ’’اکتوبر انقلاب‘‘ انسانی اقدار اور جمہوریت کو رائج کیے جانے کے نعروں تلے ہوا تھا، لیکن پھر خانہ جنگی چھڑ گئی۔ کیوں کہ جیساکہ عام طور پر ہوتا ہے، کچھ لوگوں نے انقلاب کی تائید کی، لیکن مخالفین بھی تھے۔ یوں تشدد کی زبردست لہر دوڑ گئی۔ خون خرابہ ہوا اور ڈھیر سارے لوگ اس میں شہید ہو گئے۔
تو آخرِکار روس کے عوام کو انقلاب نے کیا دیا؟ ناخواندگی پوری طرح ختم کر دی گئی۔ لازمی ثانوی تعلیم کا نظام رائج ہوا اور اعلا تعلیم حاصل کرنے کے مساوی حقوق سب کو ملے۔ روس، جو پہلے ایک ناخواندہ ملک تھا، قطعی بدل گیا۔ ملک بہت مضبوط اور صنعت یافتہ بن گیا کافی جلد۔ حالاں کہ اس سے پہلے روس ایک زرعی ملک تھا، جس کی زیادہ تر آبادی کھیتی کام میں لگی ہوئی تھی۔ سائنس نے نمایاں فروغ پایا اور بے روزگاری نہیں رہی۔ یہ سب خوش گوار اور مثبت نتائج تھے۔
لیکن اس کا دوسرا پہلو بھی قابلِ ذکر ہے۔ انقلاب کے مقاصد تھے کہ زیادہ منصفانہ معاشرے کی تشکیل کی جائے، ایک انسان سے دوسروں کا استحصال ختم ہو، لوگوں کے حقوق اور ذمے داروں کی مساوات قائم کی جائے، مگر تقریر و تحریر اور ضمیر کی آزادیوں کا اگرچہ اعلان کیا گیا اور آئینی ضمانت بھی دے دی گئی، لیکن درحقیقت وہ بہت ہی محدود رہیں۔ زمین داری کا خیر قطعی خاتمہ کر دیا گیا، لیکن کسانوں کے خواب کی تعبیر نہیں ہوئی۔ اُن کو اپنی اپنی اراضی نہیں ملی، بل کہ اُنھیں اجتماعی فارموں میں متحد کیا گیا۔ بہت سارے دانش ور لوگوں، فلسفہ دانوں، شاعروں اور ادیبوں نے تبدیلیوں کو نہیں مانا۔ وہ وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور تارکینِ وطن بن گئے۔ خاص طور پر یہ کہ اسٹالین کے زمانے میں بہت سارے بے گناہ لوگوں کو نظر بند کیمپوں میں بھیج کر رکھا گیا، جہاں وہ غلاموں کی طرح کام کرنے پر مجبور تھے یا اُنھیں گولیوں کا نشانہ بنا کے مارا جاتا تھا۔
بہ حیثیت مجموعی، اگر مختصر کہا جائے، جو ہوا سو ہوا۔ اکتوبر انقلاب (’’بغاوت‘‘ اسے کہیے یا ’’کودیتا‘‘) کے نتیجے میں ساری دنیا کی کایا پلٹی۔ وہ بہت زیادہ خوبیاں لایا، لیکن اس کے ناگوار اثرات بھی تھے۔ کہیں بہتر ہوتا کہ وقت پر لازمی اصلاحات کی جاتیں، معیشت اور معاشرے کی زندگی میں بھی۔ جن کے ہاتھوں میں اقتدار کے بھاگ دوڑ ہیں، انھیں اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے بروقت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
تو آخرکار یہ کیا ہوا تھا روس میں سنہ 1917ء کے اکتوبر کے اُن دنوں میں؟ یہ کیا تھا…… ’’کودیتا‘‘، ’’انقلاب‘‘ یا ’’بغاوت؟‘‘ شاید اپنے اپنے حوالے سے تینوں ہوئے، انقلاب بھی ہوا، کودیتا بھی اور بغاوت بھی۔ لیکن اگر زیادہ تر عوام نے اس کی حمایت نہ کی ہوتی، تو وہ کام یاب نہ ہو سکتا۔ اس لیے میرے خیال میں اسے انقلاب ہی کہنا سب سے زیادہ صحیح ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔