دوست گواہ ہیں کہ اُنھیں نہ صرف یاسر جواد صاحب کی آپ بیتی پڑھنے کو کہا، بل کہ مختلف بہانوں سے اُن کی پوسٹوں کی شکرین شاٹ بھی واٹس اپ پر شیئر کرتا رہا، تاکہ دوست اُن کے ساتھ جڑ جائیں اور اُن سے سیکھ سکیں۔
پنجاب یونیورسٹی میں مذہبی اور قوم پرست تنظیموں کے مقابلے میں پورے پاکستان کے طلبہ و طالبات کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور اُن میں کتب بینی کو پروان چڑھانے کے لیے دوستوں کے ساتھ جو سوسائٹی بنائی ہے، اُس میں بھی اُنھیں دو بار مدعو کیا اور دوسری بار مجھے اُن کی ایک پوسٹ سے اندازہ ہوا کہ اُنھیں اگر کسی ایلیٹ اور پرائیوٹ یونیورسٹی سے دعوت ملتی، تو ضرور آتے، اس لیے یہ خواہش ترک کر دی۔
یہ ساری باتیں اس لیے کر رہا ہوں کہ ہم لوگ بڑے بھولے بھالے ہیں۔ کوئی دو میٹھے بول، بول دے، تو خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور اُس کو دل میں بٹھا لیتے ہیں۔ نظریاتی اختلافات اگر اپنی ذات تک ہوں، تو کوئی مسئلہ نہیں۔ کوئی گالی بھی دے، تو مجھے کیا…… لیکن جب کوئی انتہائی سنجیدہ مسائل کو لے کر اُٹھی ایک عوامی تحریک کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کرے، تو میرا خیال ہے وہاں خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ یاد رہے کہ مَیں تنقید کی بات نہیں کر رہا، ’’بے بنیاد پروپیگنڈے‘‘ کی بات کر رہا ہوں۔
یاسر جواد صاحب لبرلز پر تنقید شوق سے کرتے ہیں، لیکن مَیں نے کچھ حوالوں سے لبرلز اور اُن کے رویوں میں کوئی فرق محسوس نہیں کیا۔ آج کل اکثر لبرلز خیبر جرگے کو مکمل نظر انداز کرکے فقط ذاکر نائیک پر تنقید کرتے رہے ہیں، لیکن اُن کا چوں کہ بنیادی موضوع ہی مذہب رہا ہے، اس لیے یہ کوئی خاص اور نئی بات نہیں۔ ہاں، البتہ روبینہ شاہین صاحبہ نے غلط ترجمے کے ساتھ منظور پشتین کے ایک پرانے کلپ کو جرگے کا کلپ قرار دے کر اس میں قوم پرستی کا پہلو نکال کر ضرور شیئر کیا اور اس کلپ کی غلط تشریح کرکے جرگے پر تنقید کرنا چاہا۔ بعد میں پرانا کلپ شیئر کرنے پر ایسی معذرت کی جو معذرت سے زیادہ دھمکی ہے۔
یاسر جواد صاحب نے بھی پہلے پورے جرگے کے اعداد و شمار اور مطالبات میں سے صرف دو مطالبات کا انتخاب کرکے اس کی غلط تشریح کرکے جرگے اور پی ٹی ایم کی کئی سالوں پر محیط جدوجہد کا مذاق اُڑانا چاہا۔ ڈیورنڈ لائن پر کھلی دو طرفہ تجارت کو ’’سمگلنگ‘‘ قرار دے کر پنجاب کے لیے بھی یہ سہولت مانگی اور بجلی کے بل والے قضیے کے سیاق و سباق کو سمجھنے کی کوشش کیے بغیر، جیسے ہمارے اکثر پنجابی دوست کرتے ہیں، پنجاب کی گندم کا سوال اُٹھایا کہ پنجاب کو بھی کم قیمت پر گندم ملنی چاہیے۔
پھر جب اس پر تنقید ہوئی، تو اُنھوں نے کہا کہ ’’یہ مَیں نہیں ریاست ایسا کہتی ہے۔‘‘ روبینہ شاہین کی طرح یاسر جواد نے بھی پختونوں سے معذرت کرلی اور جو معذرت کی ہے، یہ اپنی نوعیت کی شاید پہلی معذرت ہو، کیوں کہ اس پوسٹ میں محض اپنے اور پنجاب کے دفاع اور پختونوں پر الزامات کے سوا کچھ نہیں۔
مَیں یہاں کوئی پختون پنجابی لڑائی لڑنے یہ سب نہیں لکھ رہا۔ کوئی بڑا ہی بے وقوف ایسا کرے گا۔ جو مجھے جانتے، پڑھتے اور سنتے ہیں، اُنھیں پتا ہے کہ میرے نزدیک قوم پرستی کی حیثیت محض ایک ’’سماجی متھ‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ سب اس لیے لکھ رہا ہوں کہ یہ نہ سمجھا جائے کہ کسی کی لکھی گئی ایک ایک بات کو نوٹ نہیں کیا جارہا۔ کون کتنا روشن خیال اور انسان دوست ہے، چند ایک پوسٹس اور کومنٹس اس کا پورا پورا پتا دے دیتے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ اپنے گریباں میں جھانکا جائے اور اپنے قول و فعل میں موجود تضاد کی اصلاح کی جائے۔
بے شمار پختون نوجوان یاسر جواد جیسے دانش وروں کو پُر امید نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ کم از کم یہ ضرور روایتی تعصبات سے ہٹ کر اُن کے مسائل کا کوئی مناسب حل پیش کریں گے اور اپنے لوگوں کے درمیان اُن کی نمایندگی کریں گے، لیکن اگر ایسے دانش ور نمایندگی تو بہت دور کی بات، اُلٹا اُن کی مزاحمت پر پانی پھیرنے پر تلے ہوئے ہوں، تو یہ افسوس ناک ہے۔ عام لوگوں سے کوئی بھی توقع نہیں رکھتا، لیکن ایک دانش ور سے توقع بھی کی جاتی ہے اور توقع پر پورا نہ اترنے پر تنقید بھی۔ اگر پنجاب کا دانش ور طبقہ بھی روایتی تعصبات کا شکار ہو، تو پھر اُسے تو کم از کم یہ شکوہ نہیں کرنا چاہیے کہ پختون اور بلوچ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی بہ جائے ’’پنجابی اسٹیبلشمنٹ‘‘ کا لفظ کیوں استعمال کرتے ہیں؟ جن پختون اور بلوچ قوم پرستوں پر یہ تنقید کرتے نہیں تھکتے، یہ کبھی خود کو اُن سے مختلف بھی تو ثابت کریں!
یاسر جواد صاحب کی تحریر آپ اُن کی فیس بُک وال (Yasir Javvad) پر دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں میں صرف اُن کے جواب میں اپنے کومنٹس شیئر کر رہا ہوں اور اس کو میرا شکوہ سمجھا جائے:
’’اس کو آپ سمگلنگ کس بنیاد پر کَہ سکتے ہیں؟ مطالبہ تو بغیر روک تھام کے دو طرفہ تجارت کا ہوا ہے!
کیا آپ کو پتا ہے کہ اسلام آباد کو بجلی کی مد میں پختون خوا کا کتنا قرضہ رہتا ہے اور آئین کے رو سے پختون خوا والوں کو پختون خوا کی بجلی کی کتنی قیمت ادا کرنی چاہیے؟
جب بھی پختون خوا اور بلوچستان کے وسائل کے استحصال کی بات ہوتی ہے، تو اور تو اور…… آپ جیسے دانش وروں کو بھی پنجاب کی گندم یاد آجاتی ہے۔ ایک تو پختون خوا کوئی صحرا نہیں۔ میرا گھر ایک خالص پہاڑی علاقے شانگلہ میں ہے، لیکن وہاں بھی گھر کے چاروں طرف گندم کے کھیت ہیں۔ میدانی علاقوں کی تو بات ہی اور ہے۔ یعنی ایسا نہیں کہ پختون خوا مکمل طور پر پنجاب پر منحصر ہے۔ جرگے میں تو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پختون خوا کو اگر اس کے حصے کا پانی مل جائے اور اس کا صحیح استعمال کیا جائے، تو پنجاب سے خریدی جانے والی رہی سہی گندم کی ضرورت بھی ختم ہو جائے گی۔
پنجاب کی گندم کی جو بھی قیمت مقامی کسان مقرر کرتے ہیں، ضرور مقرر کریں، اور باقیوں کو جتنی ضرورت ہوگی، اُسی قیمت پر خریدتے رہیں گے۔‘‘
’’سر! آپ نے کب سے ریاست کی نمایندگی شروع کی ہے ؟ آپ خود اپنا کیپشن پڑھ کر سوچیں، اس سے محض یہی مطلب اخذ ہوتا ہے کہ آپ اپنی بات کر رہے ہیں۔
مجھے کسی سے یہ توقع نہیں کہ وہ پختونوں کا اس طرح احساس کریں گے، جیسے اپنے کچھ راہ نماؤں کو ہے، کیوں کہ احساس اُنھیں ہوسکتا ہے جن پر کچھ بیتی ہو، لیکن آپ کو پڑھتے رہے ہیں، ایک اُنسیت ہے اور ڈھیر سارے حوالوں سے نظریاتی ہم خیال سمجھتے ہیں، کم از کم آپ سے یہ توقع تو رکھی جاسکتی ہے کہ سہ روزہ جرگے میں زیرِ بحث لائے گئے دل دہلا دینے والے قسم قسم کے مسائل میں سے سیاق و سباق سے ہٹ کر ایک ٹکڑا منتخب کرکے اس کی غلط تشریح نہیں کریں گے!
ممکن ہے آپ لوگوں کے لیے جرگے کے اعداد و شمار محض چند ہندسے ہوں، لیکن میرے جیسے لوگ، جن کے اپنے خاندان کے قریبی رشتے دار ریاست کے ہاتھوں انتہائی درد ناک قتل ہوئے ہیں، ہمارے لیے اس کی حیثیت مختلف ہے۔ شہادت کے ریاستی خرافات سے مجھے بھی کوئی اتفاق نہیں اور اس کے بارے میں بارہا لکھ چکا ہوں۔
باقی، جیسے آپ کو مناسب لگے !
خوش رہیں!‘‘
’’واہ سر، کیا خوب معذرت کر لی!
یہ معذرت نہیں، پختونوں پر مزید تنقید ہے ! آپ کے مطابق پنجاب نے جو پی ٹی آئی کو منتخب کیا تھا، اُس کے قصور وار پختون ہیں۔ کیوں کہ پنجاب سے پہلے پختون خوا نے اسے منتخب کرکے پنجاب پر منفی اثرات ڈالے۔ سبحان اللہ!
سائنس اور فلسفے کے ایک طالب علم کے طور پر مَیں بھی قوم پرست نہیں ہوں اور اپنی فیس بُک پروفائل پر پن کی گئی وڈیو میں اس پر تفصیلی بحث کرچکا ہوں، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آپ کی قوم کے 80 ہزار سے زائد لوگ قتل کیے جائیں، ہزاروں اِغوا کیے جائیں، وسائل سے محروم رکھا جائے، آپ کی دھرتی پر مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا جائے…… اور آپ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔ کیوں کہ اگر آپ اپنی قوم کے لیے آواز اُٹھائیں گے، تو دوسرے آپ کو قوم پرست قرار دیں گے۔
قوم پرستی اور کیا ہوتی ہے؟ دوسروں کی بربادی پر خاموش رہنا اور جب وہ آخرِکار مزاحمت شروع کریں، تو اس کے خلاف پروپیگنڈا شروع کرنا، یہ قوم پرستی نہیں تو اور کیا ہے ؟
اگر آپ کو لگتا ہے کہ ہمیں یہ باتیں سمجھ نہیں آتیں کہ کلچر کو تبدیل ہوتے رہنا چاہیے، یا رجعت پسندی بری چیز ہے، تو یہ آپ جیسوں کی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔
ایسی باتوں سے آپ لوگ محض دوسروں کو بے وقوف ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، چاہے دوسروں کا ان باتوں سے دور دور تک کوئی تعلق نہ بھی ہو۔ ہوں گے کچھ نالائق، جن کو یہ باتیں سمجھ نہیں آتی ہوں گی، لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ منظور پشتین جیسے راہ نماؤں یا ہمارے جیسے آواز اٹھانے والوں کو یہ باتیں سمجھ نہیں آتیں، تو یہ آپ کی بھول ہے اور مجھے اس پر نہایت افسوس ہے۔
دوسروں کی مزاحمتی تحریک کا مذاق بنانا ایک نو آبادیاتی ہتھکنڈا ہے، جو اور قوموں کے خلاف بھی استعمال ہوتا رہا ہے اور آپ بھی ابھی یہی ہتھکنڈا استعمال کر رہے ہیں۔
پنجابی قوم پرست نہیں اور یہ اس لیے کہ جغرافیہ میدانی ہے، یہ دعوا آپ یوں کر رہے ہیں؟ جیسے یہ ریاضی کا کوئی اصول ہو۔ قوم پرستی کا جغرافیے کے ساتھ اس طرح بہ راہِ راست کوئی تعلق نہیں۔ جرنیل چاہے پختون ہوں، مہاجر ہوں یا پنجابی…… اس سے کوئی غرض نہیں ہونا چاہیے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ اُنھوں نے کس کو فائدہ اور کس کو نقصان پہنچایا!
یاسر جواد صاحب! آپ سے اس قدر سطحیت کی توقع نہیں تھی!‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔