ڈاکٹر صاحب نے مینگورہ کے دو نامی گرامی لوگوں کو کام سونپا تھا۔ ایک دفعہ پتا چلا کہ ہسپتال کو جعلی ادویہ سپلائی ہوئی ہیں، یا سپلائی میں کچھ بے ضابطگی کا عمل دخل ہوا ہے۔
نتیجتاً والی صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو بلایا اور کہا کہ ’’تمھارے ساتھ کام کرنے والے فُلاں فُلاں شخص نے یہ کام کیا ہے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب حیرت اور افسوس سے دیکھ رہے تھے۔ جواباً کہا: ’’یہ اُن کا نہیں، میرا کام ہے۔‘‘ والی صاحب نے اُنھیں ٹوکتے ہوئے کہا: ’’بے وقوف نہ بنو۔ یہ اُن لوگوں کا کام ہے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب بہ ضد رہے کہ ’’جب نام میرا ہے، فرم اور ذمے داری میری ہے، تو کسی کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ مجھے ہی سزا دی جائے۔ ‘‘
اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے والی صاحب کے ساتھ ملنا چھوڑ دیا، بل کہ تنہائی میں چلے گئے۔ اُن کے اس عمل کو والی صاحب نے بہت برا محسوس کیا اور طرح طرح کی بدگمانیاں پیدا ہوئیں۔ اس حد تک کہ اُن کو سوات چھوڑنا پڑا اور مردان جاکر رہایش اختیار کرنا پڑی۔ ایک طرح سے جَلا وطن ہوئے۔
اس دوران میں والی صاحب کی نفرت اتنی بڑھی کہ سرکاری ریکارڈ میں اُن کو ’’پختون‘‘ کی جگہ ’’پراچہ‘‘ لکھنا شروع کر دیا۔ اُنھیں یاد کرتے ہوئے بھی ’’پراچہ‘‘ کہتے۔
ڈاکٹر صاحب، مردان میں ’’ہوتی‘‘ کے نوابوں کے پڑوسی بنے۔ وہاں اُن کی بہت عزت تھی ۔ ایک دفعہ نواب صاحب نے اُنھیں کہا کہ ’’ڈاکٹر صاحب! آپ کو یہ جگہ کم پڑ رہی ہے۔ ہمارے حجرے کو بھی وسعت کی ضرورت ہے۔ اگر مَیں ایسا کروں کہ اس کے بدلے آپ کو وسیع رقبہ دے دوں تو کیسا رہے گا؟‘‘
ڈاکٹر صاحب نے جواباً کہا: ’’نواب صاحب! آپ کی مرضی ہے۔‘‘
نواب صاحب نے شیرگڑھ کے پاس روڈ کے اوپر وسیع زمین ڈاکٹر صاحب کو دی، جو زرعی اور رہایشی دونوں حوالوں سے اہم تھی۔ زمین باقاعدہ ڈاکٹر صاحب کے نام کرنے لگے تھے۔ اتنے میں سوات سے شکایت آئی کہ چوں کہ مذکورہ خاندان پراچہ ہے، اس لیے ان کو خوانین یا نوابوں کی حیثیت کی زمین نہیں دی جاسکتی۔ یہ کیس اُلجھ گیا اور ملاکنڈ کے پولی ٹیکل ایجنٹ کو تفتیش کے لیے بجھوایا گیا۔
پولی ٹیکل ایجنٹ نے بونیر میں تحقیقات کیں اور حکومت کو رپورٹ دی کہ یہ گوگا، چملہ کے دوتری پختون ہیں اور نواب آف سوات (والیِ سوات کے ریکارڈز) میں غلط طور پر ’’کسب گر‘‘ یا ’’پراچہ‘‘ درج ہوئے ہیں، بل کہ بعد میں تبدیل ہوئے ہیں۔ یوں وہ زمین قانونی طور پر ڈاکٹر صاحب کے نام ٹرانسفر ہوئی۔
ریاست کے ادغام کے بعد ڈاکٹر صاحب مستقل طور پر سوات آئے۔ اس میں ولی عہد میانگل اورنگزیب صاحب کی بھی کاوشیں تھیں۔ ولی عہد صاحب کی بیگم خدا ترس خاتون تھیں۔
ایک دفعہ لبنان کے ٹور پر اُنھوں نے فلسطین کے مہاجرین کے کیمپوں کا دورہ کیا، تو اس دورے نے اُن پر بہت اثر کیا۔ سوات واپس آکر انھیں بہت فکر رہی۔ پھر انھوں نے سوات میں ایسے رفاہی خدمات کا آغاز کرنا چاہا، تو محترمہ بیگم ڈاکٹر پیرداد خان، جو اُس وقت اعلا تعلیم یافتہ اور اُن کی دوست تھی، نے اُن کے ساتھ مل کر ’’مسکن‘‘ (غریب، یتم بچیوں کا آشیانہ) بنانے کی بنیاد رکھی۔
اپنی زندگی کے آخری دن تک ولی عہد صاحب کی بیگم صاحبہ خود مسکن کے معاملات دیکھتی رہیں اور وہاں رہنے والی بچیوں کو اپنی بچیاں کہتیں۔
آج ڈاکٹر پیرداد صاحب ڈیرئی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔ والی صاحب، ولی عہد صاحب، اُن کی بیگم کیا ریاست بھی تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہیں…… مگر سوات مینگورہ میں اتنے بڑے لوگ تبھی جنم لیتے تھے، تہذیب کا اعلا معیار تھا اور اصول مقدم تھے۔
ڈاکٹر پیر داد صاحب کو آبائی مینگروال اچھی طرح یاد رکھے ہوئے ہوں گے۔ بنجاریان محلہ، چینہ مارکیٹ لار اور غمے لار میں اُن کے خاندان کے لوگ آباد تھے۔ یہ بھی یاد ہوگا۔ اب بیش تر اجرنگ گل کدہ چلے گئے ہیں۔
دوسری طرف مینگورہ شہر کا برا حال ہے۔ یہ بہت بے ترتیبی سے بڑھ گیا ہے۔ شہر کیا ایک طرح کا کنکریٹ کا جنگل ہے۔ نفسانفسی ہے۔ پرانے چہرے گم ہوگئے ہیں۔ نئے چہرے پہچان کے قابل نہیں۔ پرانی یادیں مٹ گئی ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔