ملک اس وقت انتہائی غیر یقینی صورتِ حال سے گزر ہا ہے۔ کل کیا ہو جائے گا کسی کو کوئی علم نہیں۔ افواہوں کا بازار گرم ہے اور ہر کوئی اپنی راگنی گا رہا ہے۔ انتخابی دھاندلی سے مسلط شدہ حکومت کے بس کی بات نہیں کہ وہ ملکی معاملات کو احسن انداز میں چلائے۔ دھاندلی کی تصدیق کے لیے کسی افلاطونی فلسفہ کی ضرورت نہیں، بل کہ ہر شخص اپنے حلقوں میں نتائج کا عینی شاہد ہے۔ جو ہارے ہوئے تھے، اُنھیں جتوایا گیا، تو پھر ملک میں امن و امان اور استحکام کیسے آئے گا؟
اپوزیشن اس کھلی دھاندلی کے خلاف سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے اور موجودہ حکومت پوری قوت سے اسے کچلنے کے لیے سر گرم ہے۔ کیا اس کرۂ ارض پر جمہوری نظام ایسے ہی چلتا ہے کہ جنھیں عوام نے مینڈیٹ بخشا ہے، اُنھیں پابندِ سلاسل کر دیا جائے اور جنھیں عوام نے مسترد کیا ہے، اُنھیں زمامِ اقتدار سونپ دی جائے؟
یہ سچ ہے کہ ایک مضبوط ڈنڈا موجودہ حکومت کا مائی باپ ہے، لیکن عوامی خواہشات کے بر عکس عوام کو کیسے قابو کیا جاسکتا ہے؟ عوام جس قائد کی محبت میں گرفتار ہیں، جب تک اُس سے معاملات طے نہیں کیے جاتے، ر یا ست کی رٹ قائم نہیں ہوسکتی۔ اسٹیبلشمنٹ برسوں سے جو کانٹے بو رہی تھی، اَب وہ فصل تیار ہوچکی ہے۔ میاں برادران نے تو پہلے دن ہی سے سیاسی خرید و فروخت سے اپنے اقتدار کی بنیادیں رکھی ہوئی ہیں۔ وہ دولت کے بل بوتے پر سیاسی وفا داریاں خر یدنے کے ماہر ہیں، لیکن ایک دن ایسا بھی آجاتا ہے، جب سب دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔ خریدنے والے ہار جاتے ہیں اور سر فروش جیت جاتے ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم پر حکوت کی جو سبکی ہوئی، وہ بڑا ہی غیر معمولی واقعہ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی اندھی قوت بھی سرفروشوں کی جواں مردی کے سامنے بے بس ہوگئی۔ قاضی فائز عیسی نے آئینی تشریح کے نام پر جس طرح ہارس ٹریڈنگ کی راہیں کشادہ کی ہیں، اس سے تو 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری رسمی کارروائی ہونی چاہیے تھی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دولت کے انبار، اسٹیبلشمنٹ کی اندھی قوت اور حکومتی جاہ و جلال کے باوجود نمبر گیم بن نہیں پا رہی۔ چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرنے اور ممبران کے اِغوا سے بھی کہانی نہیں بنی، تو پھر سارا ملبہ پی پی پی کی جھولی میں ڈال دیا کہ شاید وہی کچھ کرشمہ دکھا دے۔ کھیل اَب کسی کے بس کی بات نہیں۔ بس خفیہ ہاتھ ہی اس کارِ خیر کو سر انجام دینے کی بساط رکھتے ہیں اور وہی سب کچھ کریں گے، تو پھر سوال پیدا ہو تا ہے کہ کیا جمہور یت کے دعوے داروں کے لیے مر مٹنے کا مقام نہیں کہ عوامی رائے کی بہ جائے ڈنڈا ازم سے نتائج حاصل کیے جائیں اور کوئی اُف تک نہ کر ے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو جن کی ساری زندگی لوٹا کریسی اور ہارس ٹریڈنگ کے خلاف ایک تاریخی جد و جہد سے عبارت ہے۔ اُنھی کا نو نہال بی بی شہید کے مخالفین کے اشاروں پر ہارس ٹریڈنگ کے لیے بے چین ہوئے جا رہا ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ جو کہ میاں برادرا ن کی نرسری کا پودا ہے، اُس نے تو اپنا کردار ادا کر دیا ہے، لیکن شائد قسمت کی دیوی اس سے ناراض ہے۔ اس کی مزید تین سالوں تک چیف جسٹس رہنے کی دیرینہ آرزو تکمیل پذیر ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ ایک ایسے وقت میں 63-A کی پٹیشن کا لگنا اور پھر محض دو دنوں میں فیصلہ سنانا اس بات کی گواہی دینے کے لیے کافی ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ اپنے ذاتی مفاد کے پیشِ نظر قانون و آئین کا خون کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ وکلا برادری اور جمہوریت پسند حلقے ان کے غیر آئینی استدلال سے بالکل متفق نہیں اور انھیں اسٹیبلشمنٹ کے مہرے کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔ 65 سال کے بعد ان کی ریٹائرمنٹ آئینی تقاضا ہے، لیکن وہ ذاتی مفاد کی خاطر اپنے دیے گئے فیصلے سے اس آئینی انتظام کو روکنا چاہتے ہیں۔ وہ چیف جسٹس کی کرسی سے چمٹ کر رہنا چاہتے ہیں، چاہے آئین و قانون کا خون ہوجائے اور لوگوں کے مینڈیٹ کی تذلیل ہوجائے۔ اُن کے دل میں مفادِ عاجلہ کی جو بے چینی ہے وہی اُن کی رسوائی کا باعث بن رہی ہے۔
مسلم لیگ (ن) نے فروری 2024ء کے انتخابات میں جس طرح دھاندلی کے ریکارڈ قائم کیے ہیں، اُن کی شنوائی قاضی فائز عیسیٰ کی سر براہی میں ممکن نہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ وفاقی آئینی عدالت کی تشکیل سے اپنے آقاؤں کے سارے گناہوں پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ اُس وفاقی آئینی عدالت کے سربراہ بننے کے خواہش مند ہیں۔ اگر ایسا ہوگیا، تو پھر مسلم لیگ (ن) کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوں گی اور سر کڑاہی میں۔ میرے کچھ قریبی دوست ذہن و دل کے سارے دریچے بند کرکے عقل و فہم کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اب بھی غیر جمہوری رویوں کے پیروکار بنے ہوئے ہیں۔ ان کی سوچ کسی ایسے انسان کی سوچ لگتی ہے، جو پتھر کی طرح جامد ہوچکا ہو۔ سمجھنے سوچنے کی صلاحیت مفقود ہوجائے، تو انسان پتھر کا ہوجاتا ہے۔ وہ محض رٹے رٹائے اسباق سنا تا ہے، جنھیں کوئی سننے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔ دراصل مکر و فریب، بد دیانتی، دھاندلی اور جھوٹ کا کوئی گاہک نہیں ہوتا۔
کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ انسان جو چاہتا ہے ویسا ہی ہوجائے۔ اس کی ساری خواہشیں حقیقت کا جامہ پہنتی جائیں۔ وہ ظلم و ستم اور ناانصافیوں کا علم تھامے نگری نگری دندنا تا پھرے اور کوئی اس سے باز پرس نہ کرے۔ وہ جو کاتبِ تقدیر ہے، وہ بھی تو سب کچھ دیکھ رہا ہوتا ہے۔ عرش پربیٹھے مالکِ کون و مکان کو بھی اس دھرتی کا نظم و نسق سیدھا رکھنا ہوتاہے۔ لہٰذا عرش سے کوئی ایسی انہونی نازل ہوجاتی ہے، جس سے انسان کے سارے منصوبے خاک میں مل جاتے ہیں۔ جیتی ہوئی بازی ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور فتح کے شادیانے یاس و الم میں بدل جاتے ہیں۔ بددیانتی،بے ایمانی، ناانصافی اور دھونس دھاندلی سے جیتے ہوئے ارکانِ اسمبلی پارلیمان سے باہر نکالے جائیں گے، تو کاروانِ سیاست آگے چلے گا۔ عوامی راج کا وقت شاید آن پہنچا ہے، لیکن ہمیں ادراک نہیں ہورہا۔ کچھ لوگ اَب بھی آئینی موشگافیوں کا سہارا لے رہے ہیں اور مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے مکرو فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ زعمِ طاقت میں سب کچھ سوچا جاتا ہے اور کیا بھی جاتا ہے، لیکن آخرِکار کشتی بیچ منجدھار میں پھنس جاتی ہے اور ساری تدبیریں الٹی ہو جاتی ہیں۔ ظلم و ستم، نا انصافی، بدیانتی، بے ایمانی اور مکر و ریا ایک دن اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔ رسوائی ان کا مقدر بنتی ہے، لیکن اُس وقت بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
مجھے تو تاریخ کے صفحات سے یہی ملا ہے۔ نہ زارِ روس رہتا ہے، نہ چیانگ کائی شیک رہتا ہے، نہ شاہِ ایران رہتا ہے، نہ حسنی مبارک اور نہ ہی شیخ حسینہ واجد۔ سب کے سب تاریخ کی کٹھالیوں میں بے نام و نشاں ہوجاتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے جور و ستم نے نفرت کی جس آگ کو ہوا دی ہوئی تھی، اُس میں اُن کا بھسم ہوجانا نوشتۂ دیوار تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔