علی امین گنڈاپور اپنے لاؤ لشکر اور سرکاری وسائل کے ساتھ جوں جوں اسلام آباد کی طرف بڑھ رہے تھے، پی ٹی آئی کے ورکروں کا جوش اُس سے دُگنی رفتار سے آسمانوں کی طرف محوِ پرواز تھا۔ وہ راستے بھر جوشیلا خطاب کرتے ہوئے ورکروں میں ایک ولولۂ تازہ بھی پیدا کرتے چلے آ رہے تھے۔ وہ ایک وہیکل کی چھت پر بھی بیٹھ کر اپنے قافلے کی سالاری کرتے دیکھے گئے، جس پر اُن کے سوشل میڈیا ورکروں نے اُنھیں اس صدی کا سب سے بہادر اور دلیر لیڈر ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔
اُدھر اسلام آباد میں بھی ٹھیک ٹھاک احتجاج جاری تھا۔ حالات کو دیکھ کر لگتا تھا کہ علی امین گنڈاپور خالی ہاتھ نہیں جائیں گے۔ کچھ بڑا حاصل کرنے میں کام یاب ہوجائیں گے۔ وہ اسلام آباد پہنچے، تو اُنھوں نے ورکروں کو ڈی چوک پہنچنے کی ہدایت کی اور چند لوگوں کو ساتھ لے کر بہ قول اُن کے راستے کی تھکن اُتارنے اور چائے پینے کے لیے خیبر پختونخوا ہاؤس روانہ ہو گئے۔ خیبر پختونخوا ہاؤس میں اُن کے داخلے کے چند منٹ بعد اسلام آباد پولیس اور پھر رینجرز داخل ہوگئی اور اس کے ساتھ ہی علی امین گنڈاپور یک دم کہیں غائب ہو گئے۔
علی امین کی مبینہ گم شدگی پر پارٹی کے سابق جنرل سیکریٹری عمر ایوب نے ٹویٹ داغ دیا کہ علی امین کو خیبر پختونخوا ہاؤس سے گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اُنھوں نے حکومت کو بھی وارننگ دی کہ گنڈاپور کو فوراً رہا کیا جائے، ورنہ نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ اس پر ملک بھر میں سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی ورکروں نے طوفان مچا دیا۔ حکومت نے اُن کی گرفتاری کی تردید کر دی۔
اُدھر علی امین کی مبینہ گرفتاری کے اگلے ہی روز کے پی اسمبلی کا ہنگامی اجلاس بلوایا گیا، جس میں علی امین گنڈاپور کی مبینہ گرفتاری کے خلاف قرارداد منظور کی گئی اور اُن کی رہائی کے لیے وفاقی حکومت کو 24 گھنٹے کا وقت دیا گیا۔ اس قرارداد میں وفاقی وزیرِ داخلہ اور گورنر کے پی پر گنڈاپور کی گرفتاری پر مسلسل جھوٹ بولنے کا الزام بھی لگایا گیا۔ اکثریتِ رائے سے منظور کی گئی قرارداد کی گونج بھی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ 24 گھنٹے سے زیادہ غائب رہنے والے علی امین خیبر پختونخوا اسمبلی میں پہنچ گئے اور اپنی گرفتاری کی تردید کر دی۔
وزیرِ اعلا 24 گھنٹے کے دوران میں کہاں تھے؟ اس حوالے سے واضح نہیں ہوسکا، تاہم صوبائی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے خود علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ اسلام آباد پولیس کی کارکردگی دیکھیں۔ مَیں ساری رات وہیں تھا، اُنھیں نہیں ملا۔ اُنھوں نے اپنی گرفتاری کی دو ٹوک الفاظ میں تردید کرتے ہوئے کہا کہ مَیں رات بھر خیبر پختونخوا ہاؤس ہی میں تھا، کسی نے گرفتار نہیں کیا۔ وہاں پولیس نے کئی بار چھاپے مارے، مَیں دیکھ رہا تھا۔ مَیں پورے بارہ اضلاع سے گزر کر یہاں پہنچا ہوں۔
وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی اور وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ نے بھی کہا تھا کہ گنڈاپور کو کسی نے گرفتار نہیں کیا، لیکن خیبر پختونخوا اسمبلی نے الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے قرارداد منظور کرلی۔ اس سے پہلے کہ یہ غبارہ پھولتا خود علی امین ہی نے اس میں سوئی چبھو دی۔
اُدھر علی امین کی گم شدگی پر سنجیدہ حلقوں میں نئی بحث شروع ہوگئی ہے۔ خود پی ٹی آئی کے ورکروں نے سوشل میڈیا پر اُن کی ٹرولنگ شروع کرتے ہوئے کئی اہم سوالات اُٹھا دیے ہیں کہ اُن کی تحریک جب کام یابی کی منزل کے بالکل قریب تھی، تو ڈی چوک جانے کی بہ جائے وہ عین وقت پر ورکروں اور قافلے کو چھوڑ کر خیبر پختونخوا ہاؤس کیوں چلے گئے؟ اگر وہ خیبر پختونخوا ہاؤس میں گرفتاری سے بچ گئے تھے، تو اُنھوں نے اپنے سیٹیلائٹ فون کے ذریعے باقی لیڈرشپ سے رابطہ کیوں نہیں کیا؟ اُن کے دعوے کے مطابق اگر اُن کا موبائل فون، پرس اور دوسری اشیا اُن سے لے لی گئی تھیں، تو اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ سامان لینے والے اُن تک پہنچ گئے تھے، پھر وہ کیسے کَہ رہے ہیں کہ اسلام آباد پولیس نااہل ہے، جو اُن تک نہیں پہنچ سکی؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ وہاں سے نکل کر وہ 12 اضلاع عبور کرکے بچتے بچاتے پشاور پہنچ گئے، لیکن احتجاجی مظاہرین کے پاس ڈی چوک کیوں نہیں پہنچے، جہاں ورکروں کی موجودگی میں اُنھیں گرفتار کرنا ممکن نہ تھا؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اُنھوں نے اسمبلی سے خطاب میں کہا کہ مجھے گرفتار کرنا ہے، تو کرلو، مَیں گرفتاری سے نہیں ڈرتا۔ اگر یہ حقیقت ہے اور وہ اتنے ہی بہادر ہیں، تو پھر اُنھوں نے خیبر پختونخوا ہاؤس میں گرفتاری کیوں نہیں دی، وہاں سے فرار کیوں ہوئے؟
سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ علی امین باقی اداروں کا نام لیتے ہوئے کیوں ڈر گئے اور سارا ملبہ صرف آئی جی اسلام آباد ہی پر کیوں ڈالا؟ ایک اور سوال اس سے بھی اہم ہے کہ جب احتجاج عروج پر تھا، تو عوام اور مظاہرین کی توجہ احتجاج سے ہٹا کر علی امین نے اپنی مبینہ گم شدگی کی طرف موڑ کر احتجاج کو کم زور کیوں کیا؟ اس پلاننگ کے پیچھے کون تھا؟
سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ علی امین پختون خوا ہاؤس کیوں گئے تھے؟ عوام میں ہوتے، تو اُن کا ’’اِغوا‘‘ ممکن ہی نہ تھا۔ یہ بھی ایک سوال ہے کہ اُن کے منظر سے ہٹنے کے بعد کیا حکمتِ عملی تھی کہ احتجاج کو کون لیڈ کرے گا؟ ڈی چوک پر عوام تو موجود تھے، مگر پی ٹی آئی کی تمام قیادت غائب کیوں تھی؟ تحریکِ انصاف کی سیاسی کمیٹی نے علی امین کی خودساختہ گم شدگی کے بعد اعظم سواتی کو احتجاج کی قیادت کرنے کی ذمے داری سونپی، مگر وہ تو وہاں موجود ہی نہیں تھے اور نہ بعد میں پہنچے۔ کیا احتجاجی تحریک بغیر کسی منصوبہ بندی کے کام یاب ہوسکتی ہے؟
اور اب ایک کروڑ کا سوال یہ ہے کہ علی امین کی تقریر کو سرکاری میڈیا چینل کے علاوہ حکومت سے ہم دردی رکھنے والے تمام پرائیویٹ چینلوں نے بہ راہِ راست کیوں دکھایا؟
سوالات تو اور بھی بہت سے ہیں، جو سب کے سب علی امین گنڈاپور کی شخصیت اور موجودہ کردار کو متنازع اور مشکوک بناتے ہیں مگر حیرت ہے کہ علی امین کی تقریر کے بعد پارلیمنٹیرینز نے اُن سے ملاقات کر کے اُن کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اگر تمام حالات و واقعات اور کرداروں کا جائزہ لیا جائے، تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ پی ٹی آئی کی تمام لیڈرشپ عمران خان کی رہائی نہیں چاہتی۔ علیمہ خان کے علاوہ سب لیڈر عمران خان کو جیل کے اندر ہی رہنے دینا چاہتے ہیں۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ عمران خان باہر ہوں گے، تو پارٹی کو خود اپنی مرضی سے کنٹرول کریں گے۔ سیاسی طور پر بونے جو آج پارٹی کے اندر قدآور پہلوان بنے ہوئے ہیں، وہ سب اپنے مقام پر واپس چلے جائیں گے۔ اقتدار اور سیاسی طاقت کا نشہ بہت برا ہوتا ہے۔ ساری عمر جان نہیں چھوڑتا۔ گنڈاپور نے پارٹی کے ساتھ گذشتہ ایک مہینے کے اندر وہ کچھ کر دیا ہے، جو اسٹیبلشمنٹ اور مخالف سیاسی قوتیں پچھلے چھے سال میں نہ کرسکیں۔ یہ تو واضح ہے کہ اُنھوں نے یہ سارا کھیل تحریکِ عدمِ اعتماد سے بچنے یا صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کو روکنے کے لیے کیا ہے۔ اور گمانِ غالب ہے کہ وہ آیندہ بھی ایسے ’’مس ایڈونچرز‘‘ کرتے رہیں گے۔ وہ وفاق اور مقتدرہ کے لیے اس کردار میں ہر لحاظ سے قابلِ قبول ہیں۔ صوبے میں ترقی یا عوام کی فلاح کی بہ جائے وہ صوبے کے سارے وسائل احتجاجی جلسوں، جلوسوں اور دھرنوں پر خرچ کر کے صوبے کو بنجر بناتے رہیں گے۔ اس طرح صوبے میں پارٹی کی ساکھ اور پوزیشن کمزور ہوتی جائے گی جو مقتدہ اور وفاقی حکومت کے حق میں ہے۔ علی امین کام یاب اداکاری کے شعبے میں آسکر ایوارڈ کے مستحق ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔