سپریم کورٹ کے پنج رُکنی بنچ نے متفقہ طور پر مئی 2022ء میں دیا جانے والا آرٹیکل ’’63 اے‘‘ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ہے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے، جب حکومت پارلیمنٹ میں آئینی ترامیم کا بِل پیش کرنے جا رہی ہے۔
دو ہفتے قبل اس مقصد کے لیے قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس بھی بلوا لیے گئے تھے اور یہ آئینی ترامیمی بِل پیش کرنے کا عندیہ دیا گیا تھا، مگر تب مولانا فضل الرحمان جو کہ اس ساری صورتِ حال میں ’’پاسک دی وٹّی‘‘ بنے ہوئے تھے۔ وہ اس بِل کی منظوری کے خلاف اَڑ گئے۔ اس موقع پر مولانا نے بڑی سمارٹ گیم کھیلی۔ وہ ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں اور ہمیشہ اُنھوں نے اپنے لیے اقتدار کو اتنا ہی ضروری سمجھا ہے، جتنا مچھلی اپنی زندگی کے لیے پانی کو ضروری سمجھتی ہے۔ اُنھوں نے حکم ران اتحاد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو صاف جواب بھی نہیں دیا اور پکڑائی بھی نہیں دی۔
دوسری طرف پی ٹی آئی تھی جو مولانا فضل الرحمان کی مخالفت میں ماضی میں ہر حد پار کرچکی ہوئی ہے۔ وہ بھی مولانا کے در پر سجدہ ریز ہوگئی۔ مولانا کے ساتھ الیکشن سے پہلے کچھ وعدے کیے گئے تھے، جو مسلم لیگ ن نے بعد میں پورے نہیں کیے۔ مولانا نے وعدہ خلافی کا چن چن کر بدلہ لیا اور نہ صرف مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں، بل کہ پورے ملک میں ہیجان برپا کیے رکھا۔
پیپلز پارٹی کی طرف سے جناب محسن نقوی، بلاول بھٹو زرداری، جناب آصف علی زرداری اور باقی اعلا پائے کی لیڈر شپ نے بار بار رابطہ کیا۔ مسلم لیگ (ن) کے اعلا سطحی وفد کے علاوہ خود وزیرِ اعظم جناب شہباز شریف بھی چل کر اُن کے پاس گئے، مگر مولانا نہ مانے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے بیرسٹر گوہر، اسد قیصر اور اُن کی ٹیم مولانا کو راضی کرنے میں کام یاب ہوگئی۔
حکومت یہ ترامیمی بل جلد از جلد پیش کرکے پاس کروانا چاہتی تھی، مگر مولانا کو کوئی جلدی نہیں تھی۔ چناں چہ اُنھوں نے متفقہ آئینی ترامیمی بل لانے کی تجویز دے دی۔ مولانا حکومت کی مجبوری کو سمجھ رہے تھے۔ وہ اِس صورت حال سے پورا پورا فائدہ اُٹھانا چاہتے تھے۔ اُدھر بلوچستان سے جناب اختر مینگل نے بھی مشروط حمایت کی بات کر دی۔ وہ اپنے دو ایم این ایز کے ووٹوں کے بدلے دو ہزار لاپتا افراد کی بازیابی چاہتے تھے۔
ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ اپوزیشن خواہ جتنی بھی مضبوط ہو، حکومت کے پاس ہمیشہ بہت سے آپشن موجود ہوتے ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے آرٹیکل ’’63 اے‘‘ کے پس منظر پر تھوڑی سی روشنی ڈالتے چلیں۔
2022ء میں جب اُس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد پیش ہوئی، تو خیال تھا کہ پی ٹی آئی کے چند ایم این ایز نے اپوزیشن سے معاملات طے کر لیے ہیں اور وہ عمران خان کے خلاف ووٹ دیں گے۔ اس صورتِ حال میں صدرِ مملکت جناب عارف علوی جو کہ عمران خان کی پارٹی سے تعلق رکھتے تھے، وہ وزیرِ اعظم کی مدد کو آگے بڑھے اور اُنھوں نے سپریم کورٹ میں ’’آرٹیکل 63 اے‘‘ کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس دائر کر دیا۔ آرٹیکل ’’63 اے‘‘ ممبرانِ پارلیمنٹ کے ’’فلور کراسنگ لاز‘‘ سے متعلق ہے۔ اُس وقت کے چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال نے ریفرنس دائر ہونے سے بھی پہلے اس کی سماعت شروع کر دی۔ نتیجہ سب کی توقع سے بھی سنگین نکلا۔ جناب عمر عطا بندیال نے فیصلہ سنا دیا کہ پارٹی ہدایت کے برخلاف ووٹ کاسٹ کرنے والے کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔ بات مزید آگے بڑھاتے ہوئے اُنھوں نے مخالفت میں ووٹ کاسٹ کرنے والے رُکنِ اسمبلی کی رُکنیت بھی ختم کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ گو اپوزیشن کے لیے یہ ایک بڑا دھچکا تھا، مگر اُنھوں نے پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کے بغیر بھی عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد میں کام یابی حاصل کرلی۔
جناب عمر عطا بندیال کے فیصلے کا نقصان پنجاب میں حمزہ شہباز شریف کو ضرور ہوا، جب اُن کی جیت کو عدالت نے ہار میں بدل دیا اور پی ٹی آئی کے 24 ایم پی ایز کا ووٹ منسوخ کرنے کے علاوہ اُن کی رُکنیت بھی ختم کر دی۔
مجوزہ آئینی ترامیمی بِل کی منظوری کے راستے میں بڑی رکاوٹ آرٹیکل ’’63 اے‘‘ کا مذکورہ فیصلہ ہی تھا، جس نے مولانا فضل الرحمان کو سیاست کا ٹائیگر بنا دیا تھا۔ آرٹیکل ’’63 اے‘‘ کے موجودہ فیصلے نے مولانا کو عرش سے فرش پر لا پھینکا ہے۔ اَب اگر وہ اس بِل کے حق میں ووٹ نہیں بھی دیتے، تو حکومت کو چنداں فکر نہیں ہوگی۔ مولانا فضل الرحمان کی گاڑی چھوٹ چکی ہے۔ اگر اُنھیں حسبِ روایت اقتدار کی سیاست کرنا ہے، تو دوڑ کر گاڑی کے ہینڈل کو پکڑنا اور آخری ڈبے میں سوار ہونا ہوگا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔