عید میلاد کی حقیقت

ہر سال ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر جشن منایا جاتا ہے۔ ربیع الاول کے شروع ہوتے ہی اس جشنِ میلاد کی تقریبات کے انتظامات شروع ہوجاتے ہیں۔ نوجوان گلی کوچوں اور چوراہوں میں راہ گیروں کا راستہ روک کر زبردستی چندے وصول کرتے ہیں۔ علما حضرات مسجدوں میں جشنِ ولادت منانے کے لئے دست سوال دراز کرتے ہیں۔ پھر بارہ ربیع الاول کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ولادت کی مناسبت سے جلوس نکالے جاتے ہیں، شیرینی تقسیم کی جاتی ہے، پُرتکلف دعوتوں کا اہتمام کیا جاتا اور گلیوں، بازاروں، گھروں اور مسجدوں میں چراغاں کیا جاتا ہے، جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں۔ تانگوں، گدھا گاڑیوں اور بسوں میں سوار ہو کر پورے ملک میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا بھرپور اظہار کیا جاتا ہے۔ حکومت بھی عوام کے جذبات کا خیال رکھتے اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا احترام کرتے ہوئے سرکاری طور پر چھٹی کا نہ صرف اعلان کرتی ہے بلکہ حکومتی سطح پر بڑی بڑی سیرت کانفرنسوں کا بھی انعقاد کرتی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اظہار بجا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت و احترام کا جذبہ بھی قابل تحسین ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا یہ طریقہ اور جشن و جلوس کا یہ سلسلہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی رو سے جائز بھی ہے یا نہیں؟ شریعت کی عدالت میں اس کی کوئی حیثیت بھی ہے یا نہیں؟ اور اللہ کی بارگاہ میں یہ قابل قبول بھی ہے یا نہیں؟
عیدِ میلاد چوں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے جذبہ سے منائی جاتی ہے۔ اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سرِدست رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اس کے معیار و تقاضے پر بھی روشنی ڈالی جائے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی قلبی محبت جزوِایمان ہے اور وہ بندہ ایمان سے تہی دامن ہے جس کا دل رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے خالی ہے۔ جیسا کہ جناب ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی شخص بھی اس وقت تک ایمان دار نہیں ہوگا جب تک کہ میں اس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں۔‘‘ (بخاری شریف)

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی شخص بھی اس وقت تک ایمان دار نہیں ہوگا جب تک کہ میں اس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں۔‘‘ (بخاری شریف)
(Photo: Deoband.org)

صحیح بخاری ہی کی دوسری حدیث میں یہ اضافہ ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایمان دار کہلانے کا مستحق نہیں جب تک کہ اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر اس کے دل میں میری محبت نہ پیدا ہوجائے۔
لیکن اس محبت کا معیار اور تقاضا کیا ہے؟ کیا محض زبان سے محبت کا دعویٰ کردینا ہی کافی ہے یا اس کے لئے کوئی عملی ثبوت بھی مہیا کرنا ہوگا؟
صاف ظاہر ہے کہ محض زبانی دعویٰ کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اس کے ساتھ عملی ثبوت بھی ضروری ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ ایسے شخص کے جسم و جان پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و فرمودات کی حاکمیت ہو، اس کا ہر کام شریعت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہو، اس کا ہر قول حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں صادر ہوتا ہو۔ اس کی ساری زندگی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ کے مطابق مرتب ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری ہی کو وہ معیارِ نجات سمجھتا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کو مؤجبِ عذاب خیال کرتا ہو۔ لیکن اگر اس کے برعکس کوئی شخص ہر آن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی کرتا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و ہدایت کے مقابلہ میں بدعات و رسومات کو ترجیح دیتا ہو، تو ایسا شخص، عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حُبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا لاکھ دعویٰ کرے۔ یہ کبھی اپنے دعویٰ میں سچا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ اپنے تئیں سچا سمجھتا ہے، تو سمجھتا رہے مگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایسے نافرمان اور سنت کے تارک سے بری ہیں۔ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’فمن رغب عن سنتی فلیس منی۔‘‘ (بخاری شریف)
ربیع الاول کو نہ صرف رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ولادت کی خوشی منائی جاتی ہے بلکہ اسے تیسری عید سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ حالاں کہ اسلام میں صرف دو عیدیں (عیدالفطر اور عیدالاضحی) ہیں۔ ان دو عیدوں کو خوشی کا تہوار رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود اسی طرح مقرر فرمایا ہے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال و حرام کو متعین فرمایا ہے۔ جیسا کہ جناب انسؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے، تو وہاں کے لوگ خوشی کے دو تہوار منایا کرتے تھے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر انہوں نے کہا کہ قدیم دورِ جاہلیت سے ہم اسی طرح یہ تہوار مناتے آرہے ہیں، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اِن اللہ قد أبدلکم بھما خیرا منھما یوم الأضحٰی ویوم الفطر۔‘‘ (ابوداود)
ربیع الاول کے حوالہ سے عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا دن ہے۔ حالاں کہ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے پر مؤرخین کا ہرگز اتفاق نہیں۔ البتہ اس بات پر تقریباً تمام مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اتفاق ہے کہ ربیع الاول کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی۔

ربیع الاول کے حوالہ سے عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا دن ہے۔ حالاں کہ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے پر مؤرخین کا ہرگز اتفاق نہیں۔

تمام مؤرخین اور اصحاب ِسیر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت سوموار کے دن ہوئی ۔
جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ کی درج ذیل روایت سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوموار کے روزہ کے بارے میں دریافت کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ذاک یوم ولدت فیہ ویوم بعثت أو أنزل علی فیہ۔‘‘ (مسلم شریف )
البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت کیا ہے؟
حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ: اس بات پر اتفاق ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل میں پیدا ہوئے۔ نیز لکھتے ہیں کہ جمہور اہلِ علم کا مسلک یہ ہے کہ آپ ماہ ربیع الاول میں پیدا ہوئے لیکن یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ کے اول، آخر یا درمیان یا کس تاریخ کو پیدا ہوئے؟ اس میں مؤرخین اور سیرت نگاروں کے متعدد اقوال ہیں ۔کسی نے ربیع الاول کی دو تاریخ کہا، کسی نے آٹھ، کسی نے دس، کسی نے بارہ، کسی نے سترہ، کسی نے اٹھارہ اور کسی نے بائیس ربیع الاول کہا۔ حافظ ابن کثیرؒ نے ان اقوال میں سے دو کو راجح قرا ردیا۔ ایک بارہ اور دوسرا آٹھ اور پھر خود ان دو میں سے آٹھ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے کو راجح قرار دیا۔ ( البدایۃ والنہایۃ)
قسطنطنیہ (استنبول) کے معروف ماہر فلکیات اور مشہور ہیئت دان محمود پاشا فلکی نے اپنی کتاب ’’التقویم العربی قبل الاسلام‘‘ میں ریاضی کے اصول و قواعد کی روشنی میں متعدد جدول بنا کر یہ ثابت کیا ہے کہ عام الفیل ماہ ربیع الاول میں بروز سوموار کی صحت کو پیش نظر اور فرزند ِرسول جناب ابراہیم رضی اللہ عنہ کے یومِ وفات پرسورج گرہن لگنے کے حساب کو مدنظر رکھا جائے، تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی صحیح تاریخ ۹ ربیع الاول ہی قرار پاتی ہے۔
رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے زیر اہتمام سیرت نگاری کے عالمی مقابلہ میں اوّل انعام پانے والی کتاب ’’الرحیق المختوم‘‘ کے مصنف کے بقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں شعب بنی ہاشم کے اندر ۹ ربیع الاول سن، عام الفیل یوم دو شنبہ (سوموار)کو صبح کے وقت پیدا ہوئے۔
جمہور مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ۱۲ ربیع الاول رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم وفات ہے۔
ابن سعد، جناب عائشہؓ اور جناب عبداللہ بن عباسؓ سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو رحلت فرماگئے۔حافظ ذہبی نے بھی اسے نقل کیا ہے۔ حافظ ابن کثیر ابن اسحق کے حوالہ سے رقم طراز ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم۱۲ ربیع الاول کو فوت ہوئے۔ (البدایۃ والنہایۃ)
حافظ ابن حجرؒ نے بھی اسے ہی جمہور کا موقف قرار دیا۔ (فتح الباری )

رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے زیر اہتمام سیرت نگاری کے عالمی مقابلہ میں اوّل انعام پانے والی کتاب ’’الرحیق المختوم‘‘ کے مصنف کے بقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں شعب بنی ہاشم کے اندر ۹ ربیع الاول سن، عام الفیل یوم دو شنبہ (سوموار)کو صبح کے وقت پیدا ہوئے۔ (Photo: APNI-LINK – WordPress.com)

محدث ابن حبان کے بقول بھی تاریخ وفات ۱۲ ربیع الاول ہے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن حبان امام نوویؒ نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ مؤرخ و مفسر ابن جریر طبریؒ نے بھی ۱۲ربیع الاول کو تاریخ وفات قرار دیا ہے۔ (تاریخ طبری)

امام بیہقی کی بھی یہی رائے ہے۔ ملا علی قاریؒ کا بھی یہی فیصلہ ہے۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ)
مولانا احمد رضا خان بریلوی کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۱۲ ربیع الاوّل کو فوت ہوئے۔ (ملفوظات)
عیدمیلاد کاجشن سب سے پہلے چوتھی صدی ہجری میں رافضی و غالی شیعہ جنہیں فاطمی بھی کہا جاتا ہے، نے حُبّ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور حُبّ ِاہل بیت کی آڑ میں اس وقت جاری کیا، جب انہیں مصر میں باقاعدہ حکومت و اقتدار مل گیا۔ ان لوگوں نے نہ صرف’’میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کا تہوار جاری کیا بلکہ جناب علی، جناب فاطمہ اور حسن و حسین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے میلاد بھی سرکاری سطح پر جاری کئے۔اس کے ثبوت اور حوالہ جات سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان فاطمیوں اور رافضیوں کے عقائد و اعمال پر بھی روشنی ڈال دی جائے۔ چنانچہ حافظ ابن کثیرؒ اس سلسلہ میں رقم طراز ہیں کہ: یہ کافر و فاسق، فاجر و ملحد، زندیق و بے دین، اسلام کے منکر اور مجوسیت و ثنویّت کے معتقد تھے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حدود کو پامال کیا، زنا کو جائز، شراب اور خون ریزی کو حلال قرار دیا۔ یہ دیگر انبیاکرام ؑ کو گالیاں دیتے اور سلف صالحین پر لعن طعن کرتے تھے۔ والعیاذ باللہ ۔
نیز لکھتے ہیں کہ: فاطمی خلفاء بڑے مالدار، عیاش اور جابر و سرکش تھے۔ ان کے ظاہر و باطن میں نجاست کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی۔ ان کے دورِ حکومت میں منکرات و بدعات ظہور پذیر ہوئیں۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے ۵۶۴ ہجری میں مصر پر چڑھائی کی اور۵۶۸ ہجری تک ان کا نام و نشان مٹا دیا۔ (البدایۃ والنہایۃ )
بدعت میلاد جب شیعوں سے سنّیوں اور سنّیوں کے بھی بادشاہوں میں رائج ہوگئی، تو اب ان بادشاہوں کے خلاف آوازِ حق بلند کرنا یا دوسرے لفظوں میں ان کے بدعات و خرافات پر مذمت کرنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ اس پرطرہ یہ کہ بعض خود غرض مولویوں نے بادشاہِ وقت کی ان تمام خرافات کو عین شریعت اور کارِ ثواب قرا ر دے دیا۔
چنانچہ عمر بن حسن المعروف ابن دحیہ اندلسی نامی ایک مولوی نے التنویر فی مولد البشیر والنذیر نامی کتاب لکھی جس میں قرآن و سنت کے نصوص کو سیاق و سباق سے کاٹ کر اور انہیں تاویلاتِ باطلہ کا لبادہ اوڑھا کر عید ِمیلاد کو شرعی امر ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی اور بادشاہِ وقت سے ہزار دینار انعام حاصل کیا۔ ( البدایۃ والنہایۃ)
واضح رہے کہ اس ابن دحیہ اندلسی کو محدثین نے ضعیف اور ناقابل اعتماد راوی قرار دیا ہے۔
امام ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ یہ متہم راوی ہے۔
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ یہ ظاہری مذہب کا حامل تھا۔ آئمہ کرام اور سلف صالحین کی شان میں گستاخی کرتا تھا۔ خبیث اللسان، احمق، شدید متکبر، دینی اُمور میں کم علم اور بے عمل شخص تھا۔
میلا دنہ منانے والوں کے بارے میں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اور رسالت پر شاید خوشی ہی نہیں ہے۔ ایسی بات ہرگز نہیں۔ کیونکہ جسے اللہ کے رسول سے محبت نہیں یا آپ کی رسالت و بعثت پر خوشی ہی نہیں، وہ فی الواقع مسلمان ہی نہیں۔ البتہ اختلاف صرف اتنا ہے کہ اس خوشی کے اظہار کا شرعی طریقہ کیا ہونا چاہئے؟ اگر کہا جائے کہ جشن، جلوس، میلاد اور ہر من مانا طریقہ ہی جائز و مشروع ہے، تو پھر پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن و سنت میں اس کی کوئی دلیل نہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ پھر صحابہ کرام کی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت مشکوک ٹھہرتی ہے۔ اس لئے کہ انہوں نے اظہارِ محبت کے لئے کبھی جشن میلاد نہیں منایا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر وہ جان دینے سے بھی نہیں گھبرایا کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے خوشی اور غمی کی حدود و قیود متعین کردی ہیں جن سے تجاوز ہرگز مستحسن نہیں۔ اس لئے شیعہ حضرات کا شہدائے کربلا کے رنج و غم پر نوحہ و ماتم کرنا، تعزیے نکالنا، سینہ کوبی اور زنجیر زنی کرنا جس طرح دینی تعلیمات کے منافی اور رنج و غم کی حدود سے اِضافی ہے۔ اسی طرح بعض سنّیوں کا ۱۲ربیع الاول کو یومِ ولادت کی خوشی میں جلوس نکالنا، بھنگڑے ڈالنا، قوالیاں کرنا، رات کو بلا ضرورت قمقمے جلانا، چراغاں کرنا اور بے جا اِسراف کرنا بھی دینی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔
…………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔