کسی بھی بیدار معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے شخصی بنیادوں پر نہیں، بل کہ عوامی و اجتماعی امور پر اختلاف کرے۔ تاہم اگر یہ اختلاف محض سنی سنائی باتوں، ذاتی عناد یا مفاد اور کم علمی کی وجہ سے ہو، تو مثبت نہیں، بل کہ منفی ہوتا ہے۔ جہاں شخصی عناد یا مفاد ہو، وہاں بات کو سمجھنا اور سمجھانا قدرے مشکل ہوجاتا ہے، اور اگر اختلاف صرف کم علمی کی بنیاد پر ہو، تو اس کا اِزالہ علم اور معلومات کو پھیلانے سے کیا جاسکتا ہے۔ کم علمی کی وجہ سے سازشی نظریات بھی جنم لیتے ہیں اور کئی غلط فہمیاں بھی پیدا ہوجاتی ہیں جو کہ کئی لوگوں کے لیے ’’خوش فہمیاں‘‘ بن جاتی ہیں۔ دریائے سوات پر ہمارے علاقے یعنی تحصیل بحرین/ کوہستانِ سوات کی توروالی پٹی کی سینکان وادی/ بحرین درّے میں پن بجلی کے جو تین بڑے منصوبے بنائے جارہے ہیں، اُن سے بھی منسلک کئی غلط فہمیاں اور خوش فہمیاں موجود ہیں۔
٭ پہلی خوش فہمی:۔ ’’یہ علاقے کی ترقی ہے۔‘‘ ہوسکتا ہے یہ منصوبے مرکزی پاکستان کے علاقوں کے لیے ترقی ہوں، تاہم ہمارے علاقے کے لیے اس سے مراد ترقی ہرگز نہیں۔ پاکستان نے ابھی تک کوئی ایسی پالیسی نہیں بنائی، جس کی رو سے کسی بھی پن بجلی منصوبے سے پیدا شدہ بجلی سے اسی علاقے کو مفت میں بجلی فراہم کی جائے۔ ہمارے سامنے تربیلہ ڈیم، جہلم ڈیم کی مثالیں موجود ہیں کہ اُن منصوبوں سے متاثرہ افراد کو 60 سال گزرنے کے باوجود بھی بہ حال نہیں کیا گیا اور وہ لوگ ابھی تک پاکستان کے مختلف شہروں میں خانہ بہ دوشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک آدھ پُل یا کسی گاؤں کو منصوبے کے ملبے کی نکاسی کے لیے پُل تعمیر کرنے کو ترقی نہیں کہا جاسکتا۔ اسی علاقے میں مدین تا کالام ایک بڑی سڑک کی فیزیبلٹی پہلے سے ہوچکی ہے۔ وہ اگر بن جائے، تو ہمارے علاقے میں دریائے سوات سے مشرق کی طرف سارے گاؤں کو پُل اور بڑی سڑکیں بن جائیں گی۔ دوسری جانب اگر یہ تینوں منصوبے بن جاتے ہیں اور اس پٹی میں مشرق کی جانب وہ بڑی سڑک بھی بن جاتی ہے، تو سیّاح سیدھا اسی سڑک کو پکڑ کر کالام اور اُتروڑ سے اوپر کی وادیوں میں چلے جائیں گے۔ کیوں کہ یہاں دریا نہ ہونے کی صورت میں کوئی پُرکشش سیاحتی مقام موجود نہیں ہوگا۔
٭ دوسری خوش فہمی:۔ ’’ایسے منصوبوں کی وجہ سے ہماری ذیلی وادیاں آباد ہوجائیں گی۔‘‘ ذیلی وادیوں سے مراد ہماری وہ خوب صورت بان/ چراگاہیں ہیں، جن میں بیش تر کو ابھی سڑکیں نہیں بنیں۔ دریا کنارے کوئی پُرکشش مقام نہ ہونے کی وجہ سے سیاحوں کے لیے ان چراگاہوں پر بڑے امیر کبیر لوگ ہم سے زمینیں لے کر تعمیرات کریں گے۔ یوں یہ زمینیں ہمارے ہاتھ سے اونے پونے داموں جائیں گی اور ہم کچھ سال نقدی کی دیدار کرتے ہوئے اپنی دھرتی سے محروم ہوکر یہاں سے نقلِ مکانی کریں گے۔ چراگاہیں جب اپنی ہوں، تو اُن پر اپنی مرضی سے سیاحت کو فروغ دیا جاسکتا ہے اور اس کے لیے بھی ہمیں ماحولیات، اپنی روایات اور اپنی ضروریات کا خیال رکھنا ہوگا۔ دھرتی بیچنے سے کوئی ترقی نہیں کرسکتا۔
٭ پہلی غلط فہمی:۔ لوگ عموماً گذشتہ واقعات جیسے 1980ء کی دہائی میں پٹوار کے خلاف علاقے کی جانب سے احتجاج اور اُس وقت کی حکومت کی طرف سے سخت کرفیو اور آنسو گیس کی مثال دے کر کہتے ہیں کہ حکومت کے ساتھ کچھ نہیں ہوسکتا۔ یہ غلط فہمی سے زیادہ خوف بھی ہے۔ ایسے واقعات کو پرکھنے کی بہ جائے ہم فوری طور پر اپنے اجتماعی خوف کے مطابق کوئی نظریہ بنالیتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اُس وقت حکومت ایک فوجی آمر کی تھی۔ سوشل میڈیا نہیں تھا۔ اُس وقت سیاسی پارٹیوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا تھا اور انتخابات یک طرفہ ہوئے تھے۔ عدالتیں مکمل طور پر ایک آمر کی مٹھی میں تھیں۔ مقامی طور پر بڑوں کو ایک دوسرے پر اعتماد نہیں تھا۔ عام لوگوں کی کوئی آواز نہیں تھی۔ یوتھ اس قدر زیادہ تھا اور نہ آگاہ ہی تھا۔ دوسری طرف کرفیو یا جیلوں سے ڈرنا اگر ہماری نفسیات ہے، تو پھر ہمیں جلدی جلدی یہ علاقے کسی ریاستی ادارے یا اُن کے گماشتوں کے حوالے کرکے یہاں سے نقلِ مکانی کرنی چاہیے۔ تاریخ میں وہی لوگ ہیرو ہوتے ہیں، جو اپنے عوام اور اپنے مقاصد کے لیے کسی جبریہ نظام ریاست کے زیرِ عتاب رہتے ہیں۔ ہماری طرح ایک اور چھوٹی آبادی ’’بروشو‘‘ لوگوں کی ہے، جو ہنزہ اور نگر میں رہتی ہے۔ اُن لوگوں کی تعداد 90 ہزار سے بھی کم ہے اور وہاں فرقہ واریت کا مسئلہ بھی جاری رہتا ہے، مگر وہاں سے ایک عام بندہ بابا جان اُٹھتا ہے اور اپنے حقوق کے لیے جد و جہد شروع کرتا ہے۔ اس کو ایک جعلی مقدمے میں عمر قید کی سزا سنائی جاتی ہے۔ اس کو پکڑ کر جیل کے اندر رکھا جاتا ہے، لیکن ہنزہ اور نگرکی خواتین دسمبر کی سردی میں راتوں کو ہفتوں دھرنا دیتی ہیں اور آخرِکار بابا جان کو رہا کیا جاتا ہے۔ مزاحمت ہی ہوتی ہے، جو کسی قوم کی طاقت طے کرتی ہے۔ حرکت نہ ہو تو تالاب گندہ ہوکر سوجاتا ہے۔
٭ دوسری غلط فہمی:۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں کے مقامی باشندوں کو ان منصوبوں کے ’’ری ڈیزائن‘‘ یعنی موجودہ نقشے میں تبدیلی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ دنیا میں کوئی ایسا منصوبہ نہیں ہوتا جو ’’ری ڈیزائن‘‘ نہ ہوسکے۔ تاہم ہمارا یہ مطالبہ نہیں ہونا چاہیے۔ ہماری تحریک اتنی مضبوط ہو کہ اس ’’ری ڈیزائن‘‘ کی بات متعلقہ ادارہ کرے نہ کہ ہم۔ ہمارا تجربہ یہ رہا ہے کہ عوام کی طرف سے قبل از وقت ’’ری ڈیزائن‘‘ کی بات کرنا اصل میں متعلقہ لوگوں کو طاقت بخشتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ دیوار کی پہلی اینٹ گرگئی۔ لہٰذا اُن کو اس مزاحمتی دیوار کو گرانا آسان ہوجاتا ہے۔ اس کو ہم ’’ھی چھؤ‘‘ کہتے ہیں اور اس کا مطلب آپ خوب جانتے ہیں۔ ’’ری ڈیزائن‘‘ یا دیگر اجتماعی مراعات کی باتیں متعلقہ حکومت اور ادارے کریں، ہمیں صرف ایک ہی نکتے پر مزاحمت کو آگے بڑھانا ہے۔
٭ تیسری غلط فہمی:۔ تواتر سے کہا جاتا ہے کہ درال ہائیڈرو پاؤر پراجیکٹ میں علاقے کو مراعات اس لیے نہیں ملیں کہ مقامی لوگوں نے اس منصوبے کی مخالفت کی۔ ساتھ کہا جاتا ہے کہ اس منصوبے میں یہاں کے گھن/ بڑوں نے پیسے لیے ہیں۔ پہلی بات اس ادارے اور اس کے پیچھے اہل کاروں نے پھیلائی ہے۔ کیوں کہ وہ مراعات نہ دینے کی ذمے داری بھی یہاں کے عوام پر ڈالتے ہیں۔ دوسری بات پھیلانے میں بھی اُن کی اور اُن کے گماشتوں کا کردار ہے کہ یوں نوجوانوں اور گھن/ بڑوں کو ایک دوسرے سے بد ظن کیا جائے اور یہ بعد میں اس قدر بڑھتا ہے کہ نوجوانوں کو سمجھانا مشکل ہوجاتا ہے۔ درال سے متعلق جو مراعات ان کے پلان میں شامل تھیں، یعنی: بحرین کے لیے ساڑھے تین کروڑ کا منصوبہ آبنوشی/واٹر سپلائی سکیم، بحرین کے لیے متبادل بجلی، رورل ہیلتھ سینٹر، ٹیکنیکل کالج، مقامی لوگوں کو اس منصوبے کی نوکریوں میں ترجیح۔
یہ باتیں ان کی بہ حالی پلان (Resettlement Plan) میں بھی شامل تھیں اور اُن کو ایک درجہ آگے بڑھ کر اسی مزاحمت کی وجہ سے متعلقہ ادارے/ شیڈو (اَب پیڈو) نے اپنے 28ویں اجلاس میں کارروائی میں لکھی ہیں۔ ان میں بحرین کے لیے متبادل بجلی وہ پونکیا والی جنریٹر سے بجلی کی فراہمی کو قرار دیتے ہیں کہ اس منصوبے کو بھی پیڈو نے ’’ایس آر ایس پی‘‘ کے ذریعے کرایا تھا۔ واٹر سپلائی سکیم میں جبہ وغیرہ سے پانی کے پائپ کو اپنے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ رورل ہیلتھ سینٹر اُنھوں نے اپنی کالونی میں تعمیر کیا ہے، جوکتنا فعال ہے، کئی لوگوں کو معلوم ہے۔ اس منصوے میں بھرتیوں کے لیے مقامی سے وہ مراد ’’ڈسٹرکٹ لوکل‘‘لیتے ہیں کہ پورے سوات ضلعے کے لوگ مقامی تصور ہوئے ہیں اور ہمارے لوگوں کو منت ترلے کرنے کے بعد اگر کوئی نوکری ملتی ہے، تو وہ کلاس فور سے اوپر نہیں ہوتی۔ ٹیکنیکل کالج کو منصوبے کو شروع کرنے سے پہلے بنانا تھا کہ اس کا مقصد مقامی لوگوں کو بجلی اور ہائیڈرو پاؤر میں ٹیکنیکل ایجوکیشن دینا تھا، تاکہ وہ اس منصوبے میں بڑی پوسٹوں کے لیے تیار ہوں۔ وہ کالج ابھی تک نہیں بن پایا۔ وجہ وہی کہ مقامی لوگوں کو اعلا نوکریوں سے باہر رکھنا تھا۔ باقی رائلٹی کا مسئلہ ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ حکومت نے ایسا کوئی وعدہ کیا ہے کہ اس منصوبے کی رائلٹی کو اسی منصوبے کے علاقے میں لگایا جائے گا۔ ایسا لگتا نہیں۔ بجلی کی مد میں رائلٹی وفاق صرف صوبے کو دیتی ہے اور وہ بھی ہمارے صوبے کو نہیں ملتی کہ ابھی تک کئی ارب روپے وفاق کے ذمے ہیں۔ اگر وفاق سے ملیں، تو صوبے کی صواب دید ہے، یعنی وزیرِاعلا کی صواب دید کہ وہ اس کو ڈی آئی خان میں لگائے، نوشہرہ میں لگائے یا سوات میں۔ میری نظر میں ایسی کوئی پالیسی نہیں کہ اس رائلٹی کو اسی علاقے میں لگایا جائے۔ آخری بڑی پالیسی 1997ء کی ہے اور وہاں ایسی کوئی بات موجود نہیں۔ اس کے بعد صوبوں کی سطح پر توانائی کی مد میں جو پالیسیاں بنی ہیں، وہ زیادہ تر آئی پی پی سے متعلق ہیں۔ مقامیوں کا ذکر کہیں نہیں۔
٭ چوتھی غلط فہمی:۔ کسی بھی منصوبے میں شکایات کے اِزالے کے لیے ایک کمیٹی (Grievances Redressal Committee) یعنی’’جی آر سی‘‘بنائی جاتی ہے، جس کا سربراہ اس شعبے کا وزیر ہوتا ہے اور اس کے ساتھ سیکریٹریز، متعلقہ ضلعے کا ڈی سی، حلقے کا ایم پی اے اور پھر اسی علاقے سے چار پانچ بندوں کو نجی ممبران کے طور پر لیا جاتا ہے۔ درال منصوبے سے منسلک 2011ء میں ڈی سی آفیس میں اس کمیٹی کے لیے یہاں کے لوگوں نے جو نام مختص کیے تھے، ان کو نظر انداز کرکے اپنی مرضی کے لوگوں کو لیا گیا تھا، جنھوں نے پیڈو/ شیڈو کے اس 28ویں اجلاس میں وزیرِ اعلا کی صدارت میں شرکت کی تھی اور جن کے ساتھ وہ منٹس کارروائی شریک کیے گئے تھے۔ ہماری مصیبت دیکھیں کہ درال ہائیڈرو پاؤر پراجیکٹ میں ایک ٹھیکیدار کمپنی "GRC” (Ghulam Rasool Company) کے نام سے تھی اور ہمارے لوگ اسی کو’’جی آر سی‘‘ یعنی شکایات کے اِزالے والی کمیٹی سمجھنے لگے۔ چوں کہ اس کمیٹی میں حلقے کا ایم پی اے، ضلعے کا ڈی سی، صوبائی سیکریٹری اور یہ چار پانچ نجی ممبران شامل تھے اور اُن کی ذمے داری مقامی لوگوں کی شکایات کا اِزالہ کرنا تھا، مگر ایسا نہ ہوا۔ اُنھوں نے حکومت کی سہولت کاری کی اور خوب کی۔ اس کمیٹی اور علاقے کے چند بڑوں کے بیچ جن روابط کا ذکر کیا جاتا ہے اور وہ جس متعلق تھے، کم از کم مجھے تو اس کا علم نہیں۔ یہ راز اُنھی کو معلوم ہوگا، یا اُن پرائیویٹ ممبران نے کس قدر شکایات کا اِزالہ کیا، یہ بھی اُن کو معلوم ہوگا ۔
درال کے منصوبے میں یہ بھی شامل تھا کہ درال دریا میں اتنا پانی سال کے ہر وقت موجود ہوگا جس سے پن چکیاں چلیں گی، یہاں کے چھوٹے پن بجلی گھر چلیں گے، یہاں کھیتوں کو وافر مقدار میں پانی دست یاب ہوگا اور یہاں درال کو صاف رکھا جائے گا۔ اب اُس پر کتنا عمل ہوتا ہے؟ آپ خود مشاہدہ کرسکتے ہیں۔
اب ہمارے سر پر ایک اور آفت ٹوٹ پڑی ہے اور وہ ہے دریائے سوات میں مجوزہ تین بڑے منصوبے۔ ان میں سب سے پہلے [کیدام] میدین ہائیڈرو پاؤر پراجیکٹ پر کام شروع ہوگا۔ اس کی تفصیلات سب کو معلوم ہیں۔ ان پراجیکٹوں سے دریائے سوات اور اس پوری پٹی کو بچانے کے لیے ’’دریائے سوات بچاو تحریک‘‘ کے نام سے مہم شروع ہوچکی ہے۔ یہ ایک از خود مہم ہے اور اچانک شروع کی گئی ہے۔ اس مہم کا ایک ہی نعرہ ہے کہ ان منصوبوں کاجس نے پہلے شروع ہونا ہے، راستہ سب سے پہلے روکنا ہے۔ اس کے بعد دوسرے منصوبوں کی باری آئے گی۔ اس مہم کی کارروائیوں میں کئی اقدامات شامل ہیں۔ ان اقدامات کو عوامی طاقت ہی حاصل کرسکتے ہیں۔ لہٰذا عوام سے اپیل کی جاتی ہے کہ اس مہم میں بھرپور شرکت کرکے اس مہم کو کامیاب بنائیں اور کسی اور آپشن پر غور نہ کریں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔