ناول ’’الکیمسٹ‘‘ میری نظر میں

Book Review by Akhtar Mehmood

تحریر: اختر محمود 
’’اور جب تم کوئی چیز حاصل کرنا چاہتے ہو، تو پوری کائنات اس طرح مددگار ہو جاتی ہے کہ تم اسے حاصل کر لو!‘‘
اس سطر کو ہم ناول کا مرکزی خیال قرار دے سکتے ہیں۔
٭ کہانی:۔
الکیمسٹ ایک ایسے گڈریے کی داستان ہے، جسے دنیا گھومنے اور نئے نئے تجربات (Adventures) کا مشاہدہ کرنے کا شوق ہے۔سنتیاگو (گڈریا) جو اسپین شہر کا باسی ہے، اس کا باپ ایک تاجر ہے۔ اپنے باپ سے اجازت لے کر ایک ایسے سفر پہ روانہ ہوتا ہے، جس کا مقصد خوابوں کی تکمیل ہے۔ اپنی بھیڑوں کے ساتھ ایک شہر سے دوسرے شہر ہجرت کرتا ہے۔ اپنے ایک خواب کی تعبیر کے لیے ایک جادوگرنی کے پاس جاتا ہے، جو اسے مصر کے احرام کا پتا دیتی ہے کہ اس میں تمھارے خواب کی تکمیل (خزانہ) چھپی ہے۔
چلتے چلتے وہ ٹاریفا پہنچتا ہے، جہاں اُس کی ملاقات ایک بڑھے سے ہوتی ہے، جو خود کو سالم شہر کا بادشاہ بتاتا ہے۔ بہ ظاہر اُس کا حلیہ فقیروں جیسا ہوتا ہے، جو اُسے اُس کی منزل کی طرف تگ و دو کرنے کی اصرار کرتا ہے اور اسے راستے کی راہ نمائی دیتا ہے۔ پھر اس کے بعد رومانچک سے بھرپور اور قدرے خطرناک سفر شروع ہوتا ہے، جس میں دغا بازی، بدحالی اور دھوکا دہی پائی جاتی ہے۔ بوڑھے سے اجازت لے کر لڑکا ٹنگیر نامی شہر میں پہنچتا ہے اور طویل راستے کی مسافت کے لیے بھیڑوں کو بیچ دیتا ہے۔ رقم کو جیب میں ڈال کر وہ شہر میں قدم رکھتا ہے، جہاں اُس کی ملاقات ایک دوست سے ہوتی ہے، جو اُسے لوٹ کر فرار ہوجاتا ہے، مگر وہ خوابوں کے پیچھے جانا نہیں چھوڑتا۔ اپنی رقم کی بھرپائی کے لیے وہ ایک شیشہ ساز کی دکان پر تقریباً ایک سال کام کرتا ہے۔ دکان کا مالک لڑکے کے مشوروں پر عمل کرکے خوب منافع کماتا ہے اور لڑکا ایک سال میں اتنے پیسے کمالیتا ہے کہ اپنی بھیڑیں دوبارہ سے خرید سکے۔
شیشہ ساز کی دُکان چھوڑ کر لڑکے کی ملاقات ایک انگریز سے ہوتی ہے، جو اُسے کیمیا گر کے بارے میں بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ میری زندگی کا مقصد اس کیمیا گر کی تلاش ہے۔ کتابوں میں اُس کا ذکر ہے کہ وہ صحرا میں رہتا ہے۔ دونوں کی منزل میں قدرے مشابہت تھی اور دونوں ایک کارواں کے ساتھ سفر کے لیے کمربستہ ہوجاتے ہیں۔ وہ کئی سورج غروب ہوتے اور کئی چاند طلوع ہوتے دیکھتے ہیں، جب وہ نخلستان (صحرا میں ایسی وادی جہاں درخت ہوں اور جو جگہ انسانی زندگی کے لیے موزوں ہو) پہنچتے ہیں، تو پتا چلتا ہے کہ صحرا میں قبائلیو کی جنگ جاری ہے۔ گویا آگے سفر ممکن نہیں۔ قافلہ نخلستان میں پڑاوکرتا ہے، اور جنگ کے ختم ہونے کا انتظار کرتا ہے۔
اُسی نخلستان میں لڑکے کی ملاقات اپنے حقیقی خزانے یعنی فاطمہ سے ہوتی ہے، جس کی محبت میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ اپنے اس خزانے کو پاکر پُرکیفی میں لڑکا اس خزانے کو بھول جاتا ہے، جو مصر کے احرام میں خفی ہے اور جس کا خواب لڑکے کو بارہا آچکا ہے، مگر وہ محبت ہی کیا جو خوابوں کے آڑے آئے! فاطمہ اسے سفر جاری رکھنے کا بولتی ہے اور کہتی ہے کہ مجھے انتظار قبول ہے۔ تم سفر جاری رکھو۔ مَیں تمھاری راہ دیکھوں گی۔ ایک رات لڑکے کی ملاقات کیمیاگر سے ہوتی ہے، جو گھوڑے پر سوار ہے اور بہ ظاہر جنگ جو دِکھتا ہے۔ لڑکا خوف زدہ ہوجاتا ہے، مگر وہ دوستانہ رویہ اپناتا ہے۔ ایک دو ملاقاتوں میں دونوں کی دوستی ہوجاتی ہے، اور لڑکا اپنے سفر کا مدعا آشکار کرتا ہے اور اس سے مدد کی درخواست کرتا ہے۔ کیوں کہ وہ راستوں سے آشنا ہے۔ دونوں سفر پہ روانے ہوتے ہیں۔ کافی دنوں کا سفر اور مسافتوں کو طے کرکے وہ قبائلیوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ قبائلی اُنھیں جاسوس خیال کرکے اپنی تحویل میں لے لیتے ہیں۔ یہاں کیمیا گر ایک حیران کن دعوا کرتا ہے کہ یہ لڑکا تم لوگوں کو ہوا میں تبدیل ہوکر تباہ کرسکتا ہے۔ یہ بات ان کے لیے مضحکہ خیز ہوتی ہے، لیکن کیوں کہ وہ جادو پر یقین رکھتے ہیں، اس لیے لڑکے کو تین دن کاوقت دے دیا جاتا ہے۔ یہ لڑکے کے لیے نئی بات تھی، لیکن کمال "Determination” اور دنیا کی روح کی پیچیدگیوں کو سمجھ کر وہ اس قابل ہوجاتا ہے اور خود کو ہوا میں تبدیل کرلیتا ہے۔ ایک تیز آندھی آتی ہے اور سب کی بینائی ماند پڑجاتی ہے۔ قبائلی یہ معجزہ دیکھ انھیں جانے دیتے ہیں۔
یہاں سے احرام کی مسافت تقریباً تین گھنٹے رہ جاتی ہے اور کیمیا گر واپسی کی راہ لیتا ہے کہ یہاں سے لڑکے کو تنہا جانا ہے۔ احرامِ مصر کے قریب پہنچ کر وہ کھدائی شروع کرتا ہے کہ اتنے میں کچھ عرب لڑکے اس پہ حملہ آور ہوتے ہیں اور اسے لہولہان کرکے بے حس و حرکت چھوڑ دیتے ہیں۔ جاتے سمے ایک عرب لڑکا اس سے یہاں آنے کی وجہ پوچھتا ہے، تو لڑکا اپنی رودادِ سفر سناتا ہے اور اپنے خواب کے بارے میں بتاتا ہے۔ اس پہ عرب لڑکا زوردار قہقہہ مارتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے بھی ایک خواب آتا ہے، جس میں، مَیں دیکھتا ہوں کہ اسپین میں ایک تباہ شدہ چرچ کے قریب انجیر کے درخت کے نیچے ایک خزانہ چھپا ہوا ہے، لیکن میں تمھاری طرح بے وقوف نہیں جو محض ایک خواب کے پیچھے اتنے بڑے صحرا کو سر کروں۔ لڑکا اسے غیبی اشارہ مان کر اسپین (جو اس کا آبائی شہر ہے)کے چرچ میں جاتا ہے، جو کبھی اس کی گزرگاہ تھا اور وہاں انجیر کے درخت کی جڑ کی کھدائی کرکے خزانہ پالیتا ہے۔
٭ تنقیدی نقطۂ نظر سے:
الکیمسٹ سراسر ایک ’’موٹی ویشنل‘‘ ناول ہے جس میں ہلکا سا رومانوی ٹچ ہے، جس میں دوستی، ہم دردی، وفاداری اور غداری کے کئی واقعات ہیں، جو اس کے پلاٹ کو تجسس بخشتے ہیں۔
ناول پر تنقیدی نگاہ ڈالنے سے پہلے ہم اس کے ایک اقتباس کو سمجھ لیتے ہیں : ’’ہمیں یہ خوف ہوتا ہے کہ ہمارے پاس جو ہے، وہ ضائع نہ ہوجائے۔ چاہے وہ ہماری زندگی ہو یا ہمارا مال واسباب اور جائیداد…… لیکن یہ خوف اس وقت جاتا رہتا ہے، اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ ہماری زندگی کی کہانیاں اور دنیا کی تاریخ ایک ہی ہاتھ کی لکھی ہوئی ہیں۔‘‘
اس اقتباس میں مصنف ہمیں یہ کہنا چاہتا ہے کہ ہمیں ہر لحاظ سے تگ و دو کرنی چاہیے۔ قدرت کے اشارے کو سمجھنا چاہیے۔ اپنے دل کی گہرائیوں میں خفی آواز کو کان لگا کر سننا چاہیے کہ یہ ہم سے کیا چاہتا ہے؟ خواہ وہ قدرت کا اشارہ ہو یا اپنے دل کی کوئی حسرت…… اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہمیں مشقت کی ضرورت پڑے گی، بنا یہ خوف کھائے کہ میرے مال و اسباب یا جائیداد کا کیا بنے گا…… بل کہ یہ خیال ذہن میں ہوکہ یہ سب خدا کی رضا ہے۔
ناول میں بار بار ایک غیبی اشارے کے متعلق بات کی گئی ہے۔ ہمارے ساتھ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں اپنی منزل آنکھوں کے سامنے نظر آرہی ہوتی ہے، لیکن ہم "Comfort Zone” سے باہر نہیں نکلنا چاہتے۔ خدا کے اشارے ہم تک پہنچتے ہیں، مگر ہم انھیں محض ایک وہم خیال کرکے جانے دیتے ہیں اور اپنی شخصیت میں کبھی نہیں ڈوبتے کہ مَیں کون ہوں، کیا ہوں اور کیا کرسکتا ہوں!
مصنف کہتا ہے کہ ’’خواب دیکھنا کبھی نہ چھوڑو اور غیبی اشاروں پر چلو!‘‘
یہ غیبی اشارے کیا ہیں؟ ہمارے دل کی دھڑکن، ہماری خواہش جو صبح سویرے بیدار ہوتی ہے، وہ خواہش جو تارے گنتے گنتے دل کے پہلو میں روشن ہوتی ہے۔ غیبی اِشارہ وہ بھی ہوتا ہے کہ ہم ایک کام میں جان لگادیں، لیکن اس کام میں ہمارا دل نہ لگے، تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ ہمارا کام کوئی اور ہماری منزل کوئی اور ہے۔
مصنف کہتا ہے کہ دنیا کی زباں سمجھنے کے لیے جرات ایک بڑی خصوصیت ہوتی ہے۔
تو ہمیں بس جرات کرنی ہے، اس خاموش زباں کو سمجھنے کے لیے جس میں فقط اشارے ہیں۔ یہ وہ اشارے ہیں جو ہمیں اپنی منزل کا اشارہ دیتے ہیں، لیکن ہمیں مسافتوں کی تھکن سے ڈر لگتا ہے، بس ہمیں اس تھکن پہ قابو پاکے جستجو کے صحرا میں قدم رکھنا ہے، تبھی ہم اپنی زندگی کے خزانے کو پاسکیں گے ۔
نوٹ:۔ مَیں نے اس سے پہلے کبھی کسی کتاب پر تبصرہ نہیں کیا اور شاید میں اس میں قطعاً ماہر بھی نہیں۔ جائزہ لکھنے سے پہلے میرے ذہن میں بہت سے واقعات اور سوال تھے، لیکن اس سے موضوع طوالت کا شکار ہوجاتا۔ بہ قول میرؔ :
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیے
بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ یہ ناول پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، اسے ضرور پڑھیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے