ریاستِ سوات کے قیام کے ابتدائی سالوں میں مالیات کا کوئی مربوط نظام نہیں تھا۔ روزمرہ کے اخراجات بادشاہ صاحب کی ذاتی جائیداد کے علاوہ مینگورہ کے ایک متمول تاجر حاجی شمشی کے گراں قدر عطیے کے باعث ممکن ہوسکے تھے۔
بادشاہ صاحب سوات کے چند ممتاز صاحبِ ثروت لوگوں میں شامل تھے۔ اُن دنوں کسی کی حیثیت کا تعین ذاتی محافظین کی تعداد سے کیا جاتا تھا۔ اپنے چچا زاد کے قتل کے بعد اُن کی جائیداد اور "Retainers” میں بہت اضافہ ہوگیا تھا۔ وقت کے ساتھ ریاست کے ذرائع آمدن بھی بڑھتے گئے اور اس کے لیے ایک مربوط سسٹم وضع کیا گیا۔
آمدنی کا زیادہ تر انحصار ’’عُشر‘‘ کے وصولی پر تھا، جسے سب نے قبول کرکے اپنے اوپر لاگو کیا تھا۔ ریاست کو مختلف انتظامی یونٹوں میں تقسیم کیا گیا تھا، جو تحصیل کہلاتے تھے۔ تحصیل دار اپنے علاقے کا عدالتی، انتظامی افسر ہونے کے علاوہ ریوینیو کلکٹر بھی تھا۔
ہر تحصیل کی حدود میں واقع زرعی پیداوار سے جنس کی صورت میں عُشر وصول کیا جاتا تھا۔ یہ وصولی ٹھیکے داری سسٹم کے ذریعے کی جاتی تھی۔
عشر وصولی کے لیے کھلی بولی کے ذریعے ٹھیکے دار کا انتخاب ہوتا، جس کو ’’اجارہ گر‘‘ کہتے تھے ۔اجارہ گر، عشر کی مقرر کردہ مقدار تحصیل کے کسی منتخب مقام پر جمع کرتا، جسے ’’امبار‘‘ کہتے تھے ۔ ہدف سے زیادہ محاصل اجارہ گر خود لے جاتا۔
مذکورہ امبار کے ذخیرے سے فوجیوں کو جنس کی صورت میں ادائی کی جاتی تھی۔
اس طرح گھریلو پالتو ریوڑوں (بھیڑ بکریوں) سے 40 میں سے ایک بھیڑ یا بکری وصول کی جاتی تھی۔
جب ریاست کو استحکام ہوا، تو تجارتی راسے محفوظ ہوگئے۔ سوات میں داخل ہونے والے تمام مقامات پر درآمدی برآمدی ٹیکس کی وصولی کے لیے مناسب سسٹم وضع کیا گیا…… اور اسے بھی اونچی بولی دینے والے شخص کو تفویض کیا جانے لگا۔
ریاست کی آمدنی نقد کی صورت میں سیدو شریف میں واقع مرکزی خزانے میں رکھی جاتی تھی، جس کا افسرِ اعلا ’’مہتمم‘‘ کہلاتا تھا۔
جب یہ پوراسسٹم فعال ہوگیا، تو بادشاہ صاحب کی جائیداد کا انتظام الگ کر دیا گیا۔ اُس کے منتظم کو ’’ناظر‘‘ کہتے تھے۔اُن میں سے جو حضرات مشہور ہوئے، اُن میں غلام حیا اور ان کے صاحب زادے عقل مند مرزا صاحب بہت مشہور ہوئے ۔
والی صاحب بہ ذاتِ خود روزمرہ کے حساب سے خزانے کا ریکارڈ چک کرتے اور اپنے دستخط ثبت کرتے۔
محصولات کی وصولی کا اعلا افسر ’’وزیرِ مال‘‘ کہلاتا تھا، جو بعد میں ’’مشیرِ مال‘‘ کہلانے لگا ۔ طویل سروس کرنے والے وزیرِ مال ’’شیر محمد خان‘‘ تھے۔
ریاست کی مالی پوزیشن اس قدرمستحکم تھی کہ ادغام کے وقت ریاستی خزانے میں ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ نقد روپیا پڑا تھا، جسے پاکستانی حکام نے اپنی تحویل میں لے لیا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
