ایک والد کی اپنی بیٹی کو نصیحت (انگریزی ادب کا شہ پارہ)

Romania Noor

انتخاب و ترجمہ: رومانیہ نور
ایک بار میرے والد نے کہا تھا: ’’اگر وہ آپ کو تکلیف پہنچاتے ہیں، تو اُنھیں معاف کر دیں…… لیکن، کبھی نہ بھولیں کہ اُنھوں نے آپ کے ساتھ کیا کیا ہے؟‘‘
اور جب بھی مَیں کسی سے ملتی ہوں اور اُن سے شناسائی ہوتی ہے، تو یہ بات ہمیشہ میرے لیے یاد دہانی رہی ہے۔ لیکن کبھی کبھی، یہ عمل تھکا دینے والا ہوجاتا ہے۔ یہ مایوس کُن ہوتا ہے، جب آپ اُن پر مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہیں، لیکن بدلے میں صرف درد ملتا ہے۔
یہ افسوس ناک ہے کہ وہ جو کچھ ہیں، اُس کے لیے آپ اُن کی تعریف کرتے ہیں، لیکن وہ آپ کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے میں مصروف رہتے ہیں۔
ایک دفعہ میں نے اپنے والد سے پوچھا: ’’اے والدِ محترم، کیا وہ میری معافی کے مستحق ہیں؟‘‘
وہ مسکرائے اور وہ اخبار بند کر دیا، جو وہ پڑھ رہے تھے۔ یہ اُن کے صبح کے معمول کا حصہ رہا ہے۔ کچھ پڑھنے کے لیے میل باکس کی جانچ پڑتال کرنا۔ بولے: ’’بچے، ہر کوئی معاف کیے جانے کا مستحق ہے۔ اگر اُنھوں نے ایک بار ایسا کیا، تو وہ اس کے مستحق ہیں۔ اگر اُنھوں نے دو بار ایسا کیا، تو اُنھیں ایک اور موقع دیں…… لیکن، اگر اُنھوں نے تین بار ایسا کیا، تو یہ معافی اور موقع آپ کو دیا جائے گا۔‘‘
میرے چہرے پر ایک بہت بڑا نظر نہ آنے والا سوالیہ نشان تھا، اور میری آنکھیں اُلجھن سے چلا رہی تھیں۔ میرے والد نے اُسے محسوس کیا اور مجھ پر ہنس پڑے۔ اُس کے بعد اُنھوں نے مجھے ایک کینڈی دی اور میرے دونوں ہاتھوں کو تھام لیا اور بولے: ’’اُن پر یقین کرنے کے لیے اپنے آپ کو معاف کریں، صرف مایوسی کے سوا کچھ نہ حاصل ہونے کے لیے، اُن پر بہت زیادہ بھروسا کرنے کے لیے اپنے آپ کو معاف کریں۔ اپنے آپ کو ایک اور موقع پر خطرے میں ڈالنے کے لیے معاف کریں۔ کیوں کہ آپ نے سوچا تھا کہ بہتری اسی میں ہے…… اور میری جان! اپنے آپ کو آزاد ہونے کا موقع دیں۔ خود کو نفرت اور انتقام سے پاک کریں، اور اپنے ماضی سے آزاد کریں۔‘‘
اگلی صبح، مَیں نے اُنھیں اپنی والدہ کے سامنے روتے ہوئے دیکھا۔ اُنھیں اُن کے دس سال پرانے دوست نے دھوکا دیا تھا۔ اور جب مَیں نے اُن سے پوچھا کہ کیا وہ اب اپنے دوست سے نفرت کرتے ہیں، تو وہ صرف مسکرائے اور اپنا سر ہلایا، بولے: ’’میرے دل میں نفرت کے لیے جگہ نہیں ہے۔ مَیں اس کا شکار ہونے کا مستحق نہیں ہوں۔ مَیں نے اُسے معاف کر دیا ہے، لیکن اُس کا مطلب یہ نہیں کہ مَیں بھول گیا ہوں کہ اُس نے کیا کیا۔ لہٰذا جو کچھ بھی ہوا اُس کے باوجود اگلی بار وہ مجھے مسکراتے ہوئے دیکھیں گے، تو تب تک اُنھیں پتا چل جائے گا کہ ہم دونوں میں سے زیادہ تکلیف کس نے برداشت کی۔‘‘
اپنے پسندیدہ رومال سے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے، جو مَیں نے اُنھیں سال گرہ کے تحفے کے طور پر دیا تھا، اُنھوں نے مزید کہا: ’’آپ جانتے ہیں کہ کسی ایسے شخص کو دینے کے لیے سب سے اچھی چیز کیا ہے، جس نے آپ کو تکلیف پہنچائی ہے ؟ اُن کے لیے یہ دُکھ ہی کافی ہے کہ جو اُنھوں نے آپ کے ساتھ کیا، اُس کے باوجود وہ آپ کو بہتر زندگی گزارتے ہوئے دیکھیں۔ میری پیاری، ہم صرف ایک بار زندہ رہتے ہیں۔ لہٰذا آپ کو اُن لوگوں کے لیے وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں، جنھوں نے کبھی آپ کے دل میں ایک داغ چھوڑ دیا تھا۔ اُنھیں دیکھنے دیں کہ اُنھوں نے کیا کھویا ہے؟ اُنھیں بتائیں کہ اس طرح اُنھوں نے آپ کی موجودہ حالت تک پہنچنے میں کیسے اچھے طریقے سے مدد کی؟‘‘
اور وہاں مجھے احساس ہوا، اگر یہ اُن کے الفاظ نہ ہوتے، تو مجھے لگتا ہے کہ اب تک، وہ باتیں مجھ سے آسیب کی طرح لپٹی ہوتیں، جو میری غلطی ہر گز نہیں تھیں۔
(یہ ایک انگریزی تحریر کا ترجمہ ہے، جس کی مصنفہ نا معلوم ہے، راقم)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے