ہم سنہری موقع گنوا بیٹھے

Blogger Syed Shahid Abbas Kazmi

ہم من حیث القوم پستی کا شکار ہیں اور دھوکا دہی اور موقع سے فائدہ اُٹھانے میں انتہائی ماہر۔
پاکستان سمیت پوری دنیا میں غیر ملکی مشروبات کا نہ صرف بائیکاٹ کیا گیا، بل کہ اس حوالے سے سوشل میڈیا پہ زور و شور سے مہم بھی چلائی گئی۔ یہ سوشل میڈیا کی طاقت ہے کہ یہ مہم کامیاب بھی رہی۔
سید شاہد عباس کاظمی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/blog/s-author/said-shahid-abbas-kazmi/
اس مہم کا مقصد ان معروف کمپنیوں کی جانب سے معصوموں پہ ہونے والے ظلم و ستم میں ساتھ دینے پہ ان کے خلاف احتجاج کرنا تھا۔ احتجاج نہ صرف ریکارڈ ہوا، بل کہ اس کی بازگشت عالمی اقتصادی منڈیوں تک سنائی دی۔ کیوں کہ ان کمپنیوں کی سیل میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئی۔
اسی طرح دیگر غیر ملکی برانڈ اور اسی معاملے سے جڑی کمپنیوں کو خواہ وہ کھانے پینے سے متعلق ہوں یا زندگی کی باقی ضروریات سے متعلق، کے خلاف مہم چل نکلی۔
یہاں مقامی سطح پر کھانے پینے اور روزمرہ کا سامان بنانے والی کمپنیوں کا کردار شروع ہوتا ہے۔ جب عالمی برانڈز کے خلاف ایک باقاعدہ مہم شروع کی گئی، تو لوگوں کے جذبات کو مزید کیش کرنے کے لیے ملکی مصنوعات کے برانڈز نے بھی اس میں حصہ بہ قدرِ جثہ ڈالنا شروع کر دیا اور اس میں خاطر خواہ کام یابی بھی ہوئی۔ دیگر ممالک میں، خاص طور پر خلیجی ممالک، اس مہم کے اثرات نظر آنا شروع ہوگئے۔ وہاں بھی مقامی مصنوعات کو ترجیح دی جانے لگی۔
پاکستان میں بھی یہی منظر نامہ واضح ہوا کہ مقامی سطح پہ تیار ہونے والے سازو سامان اور کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ مشروب ساز اداروں کا کاروبار بڑھنا شروع ہوگیا۔ یہ ادارے خود بھی اس مہم کا حصہ بن گئے اور ان کی تشہیری مہم میں بھی اس بائیکاٹ کا کردار نمایاں نظر آنے لگا۔ یہ لوگوں کے جذبات کو مزید ہوا دینے لگے اور اپنا منافع کھرا کرنے لگے۔
اب یہاں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جیسے کسی بھی غیر ملکی کمپنی کو پاکستان میں کاروبار کے لیے اس ملک کے قوانین و ضوابط کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لیے زیادہ تگ و دو کرنی پڑتی ہے، تو پاکستانی کمپنیوں کو اپنی پراڈکٹس کی قیمتیں نسبتاً کم رکھنی چاہیے تھی کہ ان کی پیداواری لاگت میں یقینی طور پر فرق ہوگا کہ یہ مقامی کمپنیاں ہیں…… لیکن اس پورے قضیے میں حیران کن پہلو یہ سامنے آیا کہ مقامی کمپنیاں ہونے کے باوجود، پیداواری لاگت میں واضح فرق کے باوجود اور پہلے قیمتیں کم ہونے کے باوجود مقامی برانڈز نے قیمتیں کم کرنے کے بہ جائے مزید بڑھا دیں۔ سونے پہ سہاگا یہ ہوا کہ اَب یہ قیمتیں اُن غیر ملکی برانڈز کے مطابق ہوچکی ہیں۔
اب راقم الحروف نے خود جب ایک صارف سے یہ سوال کیا کہ وہ غیر ملکی برانڈ کے مشروبات کیوں استعمال کر رہا ہے، جب کہ مقامی بھی میسر ہیں، تو اُس کا جواب تھا کہ قیمتیں جب دونوں کی برابر ہیں، تو ہم وہی برانڈ استعمال کریں گے، جس کی کم از کم کوالٹی مقامی برانڈ سے تو بہتر ہو۔
مقامی برانڈز نے عوامی جذبات کو صرف کیش کرنا چاہا اور اُنھوں نے کچھ عرصہ کیش کیا بھی۔ ہمارا بہ طور مجموعی مسئلہ یہ ہے کہ ہم مقابلے اور مسابقت کی دوڑ میں سامنا کر نہیں سکتے، لیکن ہم مفادات کے حصول کے لیے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔
اس پوری کہانی میں بھی پاکستان کی مقامی کمپنیوں نے عارضی فائدے کے حصول کے لیے ایک طویل المدتی فائدے کا موقع گنوا دیا ہے۔ یقینی طور پر یہ اہم بھی ہے کہ یا تو کوالٹی کا معیار ایسا ہو کہ آپ یکساں قیمت پہ عالمی کمپنیوں کے ساتھ مقابلہ کر پائیں کہ کوالٹی میں تو کوئی فرق نہی…… یا پھر آپ کی پیداواری لاگت بھی عالمی کمپنیوں کے برابر ہو، تو پھر بھی توجیح پیش کی جا سکتی ہے ایک جیسی قیمتوں کی۔
لیکن موجود حالات میں جب پاکستانی قوم نے آپ کو موقع فراہم کیا کہ آپ اپنا کاروبار عالمی سطح پر لے جاسکیں، تو آپ نے نہ صرف موقع گنوا دیا، بل کہ صرف اور صرف لالچ کے پیشِ نظر اپنی پراڈکٹس کی قیمتیں بڑھا کر پاکستان کے عوام کے ساتھ بھی دھوکا کیا ہے۔ اس موقع سے یوں فائدہ اُٹھایا جا سکتا تھا کہ اپنی پراڈکٹس کی عالمی سطح پر تشہیر کی جاتی۔ اور نہیں تو خلیجی ممالک تک یہ دائرہ تو بڑھایا جاسکتا تھا۔
اس حوالے سے ایک جڑی بوٹیوں پہ مشتمل مشروب کہ جس کے نام سے پڑوسی ملک میں بھی رجسٹرڈ ہے، دونوں کی عالمی پذیرائی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہی حال ہمارا ہے۔ ہم نے ایک واضح موقع اپنی عاقبت نااندیشی اور لالچ میں بہ ظاہر گنوا دیا ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ مستقبلِ قریب میں وہی عالمی برانڈز مارکیٹ میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرلیں گے۔
اس پورے منظر نامے میں اگر حقیقت کا رُخ کچھ اور بھی ہے، تو اُن مقامی برانڈز کو نہ صرف کوالٹی کے معیار کے حوالے سے توجیح پیش کرنی چاہیے، بل کہ لاگت کے حوالے سے بھی کھل کر بتائیں، تو شاید عام عوام کا بھروسا قائم ہوسکے، ورنہ پاکستانی عوام میں یہ سوچ پنپنا شروع ہوچکی ہے کہ مقامی برانڈز نے عالمی برانڈز کے بائیکاٹ کے دوران میں نہ صرف ایک مافیا کا روپ دھار لیا ہے، بل کہ انھوں نے عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالنا بھی شروع کر دیا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے