تحریر: خوشونت سنگھ
مَیں اپنے والدین میں باپ کی نسبت ماں کے زیادہ قریب تھا۔ ہم بہن بھائیوں میں سے کوئی بھی ماں سے اِس قدر نہیں ڈرتا تھا، جتنا کہ ہم اپنے باپ سے ڈرتے تھے۔
جب ہم چھوٹے ہوا کرتے، تو وہ اکثر ہمیں تھپڑ مارنے کی دھمکی دیا کرتی، مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ بات ہاتھ اُٹھنے اور ’’ماراں چاٹا‘‘ سے آگے بڑھ پائی ہو۔ وہ چھوٹے قد اور چھریرا سا بدن رکھنے والی خاتون تھی۔ شخصیت میں اعتماد کی کمی تھی۔ شادی سے پہلے جو تھوڑا بہت اعتماد اُس میں تھا، وہ بھی دبنگ شخصیت رکھنے والے اُس کے شوہر نے گھر کے معاملات چلانے کے حوالے سے اُس پر اعتماد نہ کرتے ہوئے چھین لیا تھا۔ وہ عشائیہ دعوتوں میں پیش کیے جانے والے کھانوں کے بارے میں فیصلہ بھی خود کرتے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کبھی ٹماٹر سوپ، مچھلی، چکن، پلاؤ اور بعد ازاں میٹھے میں کھیر سے آگے نہ بڑھ سکے۔ وہ ماسوائے دھوبی کو ادائی کے تمام حسابات بھی اپنے ہاتھوں میں رکھتے۔
اپنے خاوند سے دبنے کی دیگر وجوہات بھی تھیں۔ ماں کا باپ اور دو بھائی ہمارے ملازم تھے۔ اُس کی تین بہنوں میں سے دو کے خاوند میرے باپ کے مالی دست نگر تھے۔ وہ کبھی سکول نہیں گئی اور صرف گورمکھی ہی سیکھ سکی جس کی بہ دولت وہ خطوط لکھنے کے ساتھ پنجابی اخبارات کی شہ سرخیاں پڑھ لیا کرتی۔ وہ کتابوں میں اپنا وقت ضائع کرنے کی بہ جائے اپنی بہنوں اور ملازمہ، بھاجنو کے ساتھ قصے، کہانیاں سننا، سنانا پسند کرتی۔ بھاجنو کے پاس اپنے بیٹوں اور اُن کی بیویوں کے بارے میں قصوں کا پورا پلندہ ہوا کرتا۔
دیگر متعلقہ تحاریر: 
خوشونت سنگھ کا یومِ پیدایش  
پنجاب میں برسات  
جب میں بیرونِ ملک تھا، اُس وقت مجھے اپنی ماں کی جانب سے گورمکھی میں لکھی دو سطروں سے اتنی خبریں مل جایا کرتیں جتنی کہ مجھے اپنے باپ کی جانب سے موصولہ دو صفحات پر مشتمل خط سے نہ مل سکتیں، جو وہ اپنی سیکریٹری سے لکھوایا کرتے۔
میرا باپ حکومت، سیاسی اُکھاڑ پچھاڑ اور بجٹ وغیرہ کے بارے میں لکھتے، جب کہ ماں شادی بیاہ، موت زندگی اور رشتے ناتوں کے بارے میں بات کرتی۔
وہ اکثر اس بات پر بگڑ جاتی کہ وہ کیوں انگریزی لکھ اور پڑھ نہیں سکتی۔ گو کہ میرے باپ نے اسے انگریزی زُبان سکھانے کے لیے معلم رکھ کر دیے، تاہم وہ ’’یس‘‘، ’’نو‘‘، ’’صبح بخیر‘‘، ’’شب بخیر‘‘، ’’خدا حافظ‘‘ اور ’’شکریہ‘‘ سے آگے نہ بڑھ سکی۔
جب میرا ناول ’’ٹرین ٹو پاکستان‘‘ (Train to Pakistan) پنجابی زبان میں شائع ہوا، تو مَیں نے اُس کی پہلی کاپی اپنی ماں کو دی۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ وہ اُسے پڑھے گی، مگر جب میں اگلی صبح اُن کے پاس گیا، تو میرے باپ نے بتایا کہ وہ رات دیر گئے ناول پڑھنے میں مصروف رہی، جس کی وجہ سے اُسے شدید قسم کے سر درد کی شکایت ہوگئی ہے۔ مَیں اُن کی خواب گاہ گیا۔ وہ سر سے پاؤں تک خود کو چادر میں لپیٹے پڑی تھی۔ مَیں نے اُسے کندھے سے پکڑ کر ہلایا اور پوچھا کہ اب آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ اُس نے اپنی چادر سے ایک آنکھ سے جھانکتے ہوئے مجھے صرف ایک لفظ کہا: ’’بے شرم!‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔