اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا فضل الرحمان انتہائی منجھے ہوئے سیاست دان ہیں اور اُنھیں بہ خوبی علم ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کس طرح نبرد آزما ہو نا ہے۔
آج کل مولانا کا جلال اپنے عروج پر ہے اور اُنھوں نے اسٹیبلشمنٹ کو اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے۔پی ٹی آئی شاید اس طرح کے اظہارِ رائے کی متحمل نہیں ہوسکتی، جس طرح کا اظہارِ رائے مولانا فضل الرحمان کی زبان سے فصاحت و بلاغت کی صورت میں سننے کو مل رہا ہے، لیکن اُن کو پھر بھی ہاتھ نہیں ڈالا جاتا۔ کیوں کہ ان کی ڈنڈا بردار سپاہ سے حکومتیں خوف کھاتی ہیں۔
طارق حسین بٹ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/butt/
2024ء کے انتخابات میں جس طرح کی دھاندلی کا طریقۂ واردات اپنا یا گیا ہے، اُس نے سب کو مبہوت کر کے رکھ دیا ہے۔ ہلکا پھلکا میوزک تو سدا سے ہی چل رہا تھا، لیکن اس دفعہ (فروری 2024ء) میں تو ساری حدود ہی پھلانگ دی گئی ہیں، جس سے عوام میں شدید اضطراب اور غم و غصہ پایا جا تا ہے۔ عوام مہذب دنیا کے اطوار اپنانا چاہتے ہیں، لیکن چند طالع آزما ایسا ہونے نہیں دے رہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف دھاندلی سے شروع ہونے والی کہانی کہیں رُکنے کا نام نہیں لے رہی۔ صیاد بھی کئی دفعہ اپنے دام میں آتے رہے، لیکن دھاندلی والی ان کی خصلتِ دیرینہ اُن سے رخصت نہیں ہو سکی۔ اسٹیبلشمنٹ کے اپنے مضبوط ترین گھوڑے میاں محمد نواز شریف سے اَن بن ہوگئی، تو اُنھیں ایک کم زور عدالتی فیصلے سے نا اہل کروا دیا گیا، تاکہ کسی دوسری جماعت کو اقتدار کی مسند عطا کی جائے۔ میاں محمد نواز شریف سے یہ بات ہضم نہ ہوسکی کہ اُن کے اپنے سر پرستوں نے اُن کے ساتھ دھوکا کیا ہے۔ لہٰذا وہ اس میں ملوث چند کرداروں کو جن میں چیف جسٹس ثاقب نثار (بابا رحمتے)، آئی ایس آئی کے سربراہ فیض حمید اور سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ سرِ فہرست ہیں…… اُنھیں نشانے پر رکھے رکھتے ہیں، تاکہ اُن کے دل کی تشفی ہوجائے اور اُن کا غم و غصہ قدرے ماند پڑجائے۔ اُن کی ہر پریس کانفرنس مذکورہ افراد کے ’’ذکرِ خیر‘‘ کے بغیر ادھوری رہتی ہے۔ ہونا بھی یہی چاہیے کہ ہر وہ کردار جو طالع آزمائی کو ہوا دیتا ہے، اُسے مستوجبِ سزا ہو نا چاہیے، تا کہ آنے والے لوگ اس سے عبرت پکڑیں۔
ریاست تو سب کی ہوتی ہے اور ہر شہری کے ساتھ آئین و قانون کے مطابق انصاف اس کا بنیادی حق ہے، لیکن اگر وزیرِ اعظم کو ہی روندھ دیا جائے، تو پھر باقی کیا بچتا ہے؟ بہت ہوگیا اب ایسی روش کا خاتمہ ہونا چاہیے اور عوامی رائے اور آئینِ پاکستان کا احترام ہو نا چاہیے اور اس کی روح پر مکمل عمل در آمد ہونی چاہیے۔ کسی کو سازش سے اس کے منصب ِ جلیلہ سے ہٹانے کا سلسلہ رُک جانا چاہیے۔ کیوں کہ پاکستان اَب اس طرح کی مہم جوئی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
اَب اس بات کا کیا کیا جائے کہ میاں محمد نواز شریف جس آرمی چیف کو دن رات تنقید کا نشانہ بناتے نہیں تھکتے، اُسی آرمی چیف کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی کی حکومت کو چلتا کیا۔ اُنھیں ’’ایکسٹینشن‘‘ بھی دی اور پھر نئے آنے والے آرمی چیف کی نگاہوں کے سامنے وہ کچھ ہوگیا، جو وہم و گمان اور خیال سے ماورا تھا۔ ہارے ہوئے لوگ پارلیمنٹ میں گھس کر پارلیمنٹ کا تقدس پامال کر رہے ہیں اور میاں محمد نواز شریف کو اس پر کوئی ندامت اور پچھتاوا نہیں ہورہا۔
یہ سچ ہے کہ میاں محمد نواز شریف کی سیاسی تربیت جنرل ضیاء الحق جیسے سفاک آمر کی گود میں ہوئی ہے، لیکن تین دفعہ وزارتِ عظمی کا اعزاز پانے کے بعد انسان کی سوچ اتنی تو بدل جانی چاہیے کہ وہ اس بات پر ڈٹ جائے کہ ووٹ ایک مقدس امانت ہے اور اس کا تقدس انتہائی ضروری ہے۔ کوئی اپنے مخالف کو دھاندلی سے ہرا کر فتح کے شادیانے کیسے بجا سکتا ہے؟ بہادر دھاندلی سے نہیں، بل کہ امانت و دیانت سے اپنی فتح کا محل تعمیر کرتے ہیں اور پھر حق سچ کا ساتھ دینے والے ہی ساحلِ مراد سے ہم کنار ہو تے ہیں۔ دوسروں کے کندھے وہ لوگ استعمال کرتے ہیں، جنھیں اپنے قوتِ بازو پر بھروسا نہیں ہوتا۔
میری ذاتی رائے ہے کہ پاکستان کو اس سارے بحران سے میاں محمد نواز شریف کی ذات ہی نکال سکتی ہے۔ اُنھیں جراتِ رندانہ کا مظا ہرہ کرنا ہوگا اور موجودہ اسمبلیوں کو چلتا کرنا ہوگا۔ کیوں کہ یہ دھاندلی کی پیداوار ہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
ایکس (ٹویٹر) پر پابندی، ہم دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟
اُبھرتے ایشیا میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
جعلی ادویہ اور ہم
گندم سکینڈل، حکومت کہاں کھڑی ہے؟
صوبائی خود مختاری کیوں ضروری ہے؟
یہ سچ ہے کہ میاں محمد شہباز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ کے نتیجے میں اپنی حکومت قائم کی ہوئی ہے، جس میں پی پی پی برابر کی شریک ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو وزارتِ عظمی جب کہ پی پی پی کو صدارت مل گئی۔ پنجاب میاں محمد نواز شریف کی سپتری مریم نواز کے نام لکھ دیا گیا اور یوں بندر بانٹ کا یہ سلسلہ اپنے انجام کو پہنچا۔ اس طرح کی غیر آئینی حرکات سے پی پی پی کو شدید زک اٹھا نی پڑ رہی ہے اورپنجاب میں اس کا رہا سہا وقار بھی ہوا ہوگیا ہے۔ کیوں کہ یہ سارا انتظام مصنوعی، غیر آئینی اور دھاندلی پر مبنی ہے۔عوام بزدلوں کو نہیں، بل کہ بہادروں کو پسند کرتے ہیں۔ وہ جی داروں کی محبت کے گیت گاتے ہیں۔ چور دروازے سے اقتدار پر قبضہ کرنے والوں کو وہ نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
میاں محمد نواز شریف ایک آل پارٹی کانفرنس بلائیں اور اس میں ’’رول آف دی گیم‘‘ طے کریں اور اس بات کا ساری سیاسی جماعتیں عہد کریں کہ آیندہ ہونے والے انتخابات صاف، شفاف، غیر جانب دار اور دھاندلی سے پاک ہوں گے۔ دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا۔ انسان عزمِ مصمم کرلے، تو سب کچھ ممکن ہوجاتا ہے۔
تین دفعہ کے وزیرِ اعظم کا اعزاز حاصل کرنے والے میاں محمد نواز شریف کو موجودہ کھیل میں کیا ملا؟ سوائے بدنامی اور رسوائی کے اُن کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ ایک تنہائی، خاموشی اور پچھتاوے کا آسیب ہے، جو اُنھیں چین سے جینے نہیں دے رہا۔ اُنھیں اپنی ذات سے اوپر اٹھنا ہو گا اور اپنی آخری چند سالہ زندگی میں وہ کچھ کر نا ہوگا جس سے عوام اُنھیں ہیرو کا درجہ دیں اور یہ تبھی ممکن ہے، جب وہ عوامی جمہوریت کا اہتمام کریں گے اور دھاندلی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کریں گے۔
نواز شریف نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگایا، لیکن بھیک میں ملنے والا اقتدار قبول کرکے اپنے ہاتھوں سے اس نعرے کی قبر کھود دی۔ اپنی بیٹی کے اقتدار کی خاطر اُنھیں کوئی چیز یاد نہ رہی۔ حالاں کہ اُنھیں بہ خوبی علم ہے کہ اُن کی بیٹی کے ا قتدارکے پائے دھا ندلی اور بد دیانتی پر رکھے ہوئے ہیں۔
ایک دفعہ سب کو کڑوا گھونٹ پینا ہوگا اور طالع آزماؤں کو روکنا ہوگا۔ صرف ایک بار جرات دکھانی ہوگی۔ اس کے بعد جمہوری نظام خود بہ خود پٹری پر چڑھ جائے گا اور کسی کو طالع آزمائی کی ہمت نہیں ہوگی۔
بھارت میں دھاندلی اور اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت نہیں ہوتی۔ حالاں کہ وہ تو اسلامی ریاست بھی نہیں۔ حق و صداقت کا علم تو سدا سے مسلمانوں کے پاس رہا ہے، لیکن اس کے باوجود بھی اُن کے ہاں آئین و قانون سے انحراف دیکھنے کو ملتا ہے۔ دشمن کو خوش ہونے کا موقع مل جاتا ہے کہ وہ قوم جو سچائی اور اما نت و دیانت کی علم بردار ہے۔ اسی کے ہاں جھوٹ، منافقت، بد دیانتی اور شب خونوں کا بازار گرم ہے۔
اے میرے وطن کے لیڈرو! اس قوم پر رحم کرو اور اقتدار کی ہوس سے باہر نکل آؤ ۔ اس مملکتِ خدادا کے قیام کے لیے عوام نے لاکھوں جانوں کی قربانی دی تھی۔ آگ اور خون کا دریا عبور کیا تھا۔ اپنے پیاروں کے جسم کٹتے دیکھے تھے اور اپنی بیٹیوں اور بہنوں کی عزت کو پامال ہوتے دیکھاتھا ۔ آزادی کی نعمت ایسے تو نہیں ملی تھی، لیکن اب شاید ہماری سیاسی قیادت کا احساس مردہ ہو چکا ہے۔ تبھی تو انھیں کسی کی آہ و بکا سنائی نہیں دیتی۔ اُن کے دل ودماغ پر ایک ہی دھن سوار ہے کہ اقتدار کا وارث کون بنے گا ؟
پاکستان ڈوب رہا ہے، لیکن وہ اقتدار کی لیلیٰ کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔عام آدمی چیخ رہا ہے، دہائی دے رہا ہے، لیکن کوئی اس کی فریاد سننے کے لیے تیار نہیں۔ کیوں کہ سب کو خاندانی اقتدار کی خواہش مدہوش کیے ہوئے ہے۔ اقتدار عوام کی اما نت ہے۔ اسے عوام کو واپس کر دو۔تمھارا ایک فیصلہ پاکستان اور اس کے عوام کی قسمت بدل کر رکھ دے گا۔ اُٹھو فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ اب مزید دیری پاکستان کو مزیدغیر مستحکم کر دے گی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔