تحریر: خوشونت سنگھ 
پنجاب میں گرمی کی شدت ماہِ اپریل کے اواخر سے جون کے مہینہ کے اختتام تک رہتی ہے اور پھر بارشوں کی آمد ہوجاتی ہے۔ مون سون (برسات) کی آمد شان دار ہوتی ہے، جس کا آغاز برساتی پرندے کوئل کی آوازوں سے ہوتا ہے، جو گرد آلود میدانوں کو اپنی دکھ بھری آہ و فریاد سے بھر دیتا ہے۔ بے رنگ سرمئی آسمان اچانک گہرے سیاہ بادلوں سے اَٹ جاتا ہے۔ بجلی چمکنے لگتی ہے اور زمین بادلوں کی گڑگڑاہٹ سے لرزنے لگتی ہے۔ مٹی بارش کا پہلا قطرہ نگلتی ہے، جس کے ساتھ ہی زمین سے معطر کر دینے والی خوش بو اٹھتی ہے اور موسلا دھار بارش، تل دھار اوپر دھار شروع ہوتی ہے اور پھر یہ سلسلہ گھنٹوں جاری رہتا ہے۔ اس کے بعد عموماً آسمان بادلوں سے گھرا رہتا ہے۔ بادلوں اور سورج میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے زور آزمائی شروع ہوجاتی ہے۔ بارش سے دُھل جانے والے منظر کی دل کشی بڑھانے کے لیے قوسِ قزح اپنے رنگ بکھیر دیتی ہے اور غروب ہوتا سورج اپنی روشنی سے بادلوں کو سرخ اور ارغوانی رنگوں سے مزین کر دیتا ہے۔ دو ماہ تک مسلسل برسنے والی بارشیں زمین کو دلدل میں تبدیل کر کے رکھ دیتی ہیں۔ دریا بھر جاتے ہیں اور اُن میں بھرا مٹیالا پانی چکر کھاتا دکھائی دیتا ہے۔
پنجابی برسات کے عاشق ہیں۔ کیوں کہ اُنھیں ہر سال کئی مہینوں تک شدید ترین گرمی برداشت کرنی پڑتی ہے۔ یہی وقت ہوتا ہے کہ جب پریمی، ملاقاتی اور خاندان اکٹھے ہوتے ہیں۔ گرونانک اس صورتِ حال پر کھل کر کہتے ہیں کہ ’’بارشوں کا موسم آگیا ہے اور میرا دل خوشی سے معمور ہے۔ دریا اور خشکی پانی کے پھیلاو کی وجہ سے ایک ہوگئے ہیں۔ راتیں تاریک ہیں اور مینڈک ٹر ٹراتے ہیں۔ مور خوشی سے چیختے ہیں۔ پپیہا پی ہو پی ہو پکارتا ہے۔ سانپوں کے دانت اور مچھروں کے ڈنک زہر سے بھرے ہیں۔ سمندر بھر جانے کی خوشی میں اپنی حدیں توڑ دیتے ہیں۔ زندگی میں تازگی آگئی ہے۔ بیش تر درختوں پر نئے پتے اُگ چکے ہیں اور بنجر زمین گھاس سے ڈھک چکی ہے۔ آم پک چکے ہیں۔ کوئل اور پپیہے کا شور آموں کے باغات میں جھولا جھولتی دوشیزاؤں کے گیتوں اور قہقہوں میں دم توڑ گیا ہے۔‘‘
جب برسات کا موسم اپنے اختتام کو پہنچتا ہے، تو ٹھنڈک ہوجاتی ہے۔ دھول مٹی بیٹھ چکی ہوتی ہے اور دیہی علاقے دوبارہ سرسبز و شاداب ہوجاتے ہیں۔ اگر موسم گرما کی برسات مناسب رہے، تو نہ خشک سالی کا خطرہ ہوتا ہے اور نہ سیلاب کا امکان، یعنی سب اچھا ہی اچھا ہوتا ہے۔ نئی فصلوں جیسے چاول، باجرے، مکئی، نیل اور مختلف اقسام کی دالوں کی بوائی کردی جاتی ہے۔ کسانوں کے چہرے دَمک اُٹھتے ہیں اور وہ اپنے سروں پر پگڑیاں باندھ لیتے ہیں۔ واسکٹیں پہن لی جاتی ہیں، جن پر چمک دَمک والے بٹن لگے ہوتے ہیں۔ پیروں میں گھنگھرو باندھ کر اور ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑا ڈالتے ہیں۔ اکتوبر سے نومبر میں دیوالی تک مختلف میلے، ٹھیلے اور تہوار چلتے رہتے ہیں۔ کسانوں کو تھوڑا وقت ہی آرام ملتا ہے۔ کپاس کی چنائی اور زمین میں دوبارہ ہل چلا کر گندم اور چنے کی فصل کی بوائی شروع کر دی جاتی ہے۔ رہٹ چلنے شروع ہوجاتے ہیں۔ آٹا چکیوں کی ’’کُوہ کُوہ‘‘ ہر گاؤں سے سنائی دینے لگتی ہے۔ گندم کے کھیتوں میں تیتر بولتے ہیں اور رات کے سناٹے میں پنجاب کو واپس لوٹنے والے ہنسوں کے ہنکنے کی آوازیں صاف سنی جاسکتی ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔