جسٹس عائشہ ملک کی تعیناتی کی طرح جسٹس عالیہ نیلم کی بہ طور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نام زدگی پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
اس نام زدگی پر بھی وکلا منقسم نظر آرہے ہیں۔ کچھ کے نزدیک جسٹس عالیہ نیلم کی پروموشن ان کی اہلیت و قابلیت کی بہ دولت ہے، مگر کچھ کے نزدیک ان کی تعیناتی ججز سنیارٹی کے اُصولوں کے خلاف ہے۔
ایڈوکیٹ محمد ریاض کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/adv/
اس حوالے سے سابق صدر سپریم کورٹ بار حامد خان کا کہنا ہے کہ سینئر ترین جج کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ تعینات ہونا چاہیے۔ ججز سینیارٹی کے معاملے پر سپریم کورٹ کا الجہاد ٹرسٹ کیس کا فیصلہ بڑا واضح ہے۔ جوڈیشل کمیشن کی کارروائی چیلنج کی جائے گی۔ وکلا سنیارٹی کا اُصول بہ حال کرانے کے لیے ہر حد تک جائیں گے۔
اسی طرح صدر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن اسد منظور بٹ نے سوال اُٹھایا کہ نظر انداز شدہ دونوں جج اگرقابل نہیں ہیں، تو اُنھیں جج ہی مقرر نہیں ہونا چاہیے تھا…… اور اگر وہ قابل ہیں، تو انھیں نظر انداز کرنے کی ٹھوس وجہ سامنے آنی چاہیے۔
یاد رہے جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ تعیناتی کے وقت جوڈیشل کمیشن کے پانچ اراکین نے حمایت کی، جب کہ دیگر چار اراکین بہ شمول جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور پاکستان بار کونسل کے نمایندے نے مخالفت کی تھی، جوڈیشل کمیشن میں شامل جج، بار کونسل ممبر اور وکلا تنظیموں کے احتجاج و عدالتی بائیکاٹ کے باوجود جسٹس عائشہ ملک نے بالآخر پارلیمانی کمیٹی کی سفارشارت، وزیرِ اعظم کی ایڈوائس اور صدرِمملکت کی منظوری کے بعد پاکستان کی سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج بننے کا اعزاز حاصل کر لیا تھا۔
بندۂ ناچیز نے اُس وقت بھی اپنے کالم ’’جسٹس عائشہ ملک سپریم کورٹ تعیناتی پراعتراض کیوں؟‘‘ میں جسٹس عائشہ ملک تعیناتی کو آئین کے عین مطابق قرار دیا تھا۔
آیئے، اس اختلاف کو آئینِ پاکستان کی روشنی میں پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
منصف خود انصاف کے طلب گار ہیں (فضل منان بازدا)
انتظامی ٹریبونلز اور خصوصی عدالتیں (ایڈوکیٹ محمد ریاض)
بھٹو ریفرنس، مستقبل کے مورخ کو مواد ہاتھ آگیا (سید فیاض حسین گیلانی)
دس جنوری ایک تاریخ ساز دن (ایڈوکیٹ محمد ریاض)
ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں کسی بھی جج کی تعیناتی آئینِ پاکستان کے 175A، آرٹیکل 177 اور آرٹیکل 193 کے تحت عمل میں آتی ہے۔ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان آرٹیکل 175A کے تحت وجود میں آنے والا ایسا ادارہ ہے، جس کا کام ہی سپریم کورٹ، ہائیکورٹ اور وفاقی شرعی عدالت میں ججوں کی تعیناتی کے لیے سفارشات مرتب کرنا ہے۔
سپریم کورٹ کے ججوں کی تعیناتی کے حوالے سے اس کمیشن کی تشکیل کی بات کی جائے، تو اس کے ممبران کی کل تعداد 9 اَفراد پر مشتمل ہوتی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان اس کمیشن کے چیئرمین، سپریم کورٹ کے چار سینئر ترین جج اور سپریم کورٹ کے سابقہ چیف جسٹس یا پھر سپریم کورٹ کے ہی ایک سابقہ جج، اس کے علاوہ وفاقی وزیرِ قانون، اٹارنی جنرل آف پاکستان اور پاکستان بار کونس کی جانب سے نام زد ایک سینئر ترین وکیل شامل ہوتے ہیں، جب کہ ہائیکورٹ کے جج یا چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے اس کمیشن میں ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج، صوبائی وزیرِ قانون اور صوبائی بار کونسل کے نام زد وکیل کو شامل کیا جاتا ہے۔
یہ کمیشن اکثریتی فیصلہ کی بنا پر اپنی سفارشات مرتب کرتا ہے۔ آئینِ پاکستان میں آرٹیکل 175A(3) کے تحت صدر سپریم کورٹ کے سب سے سینئر جج کو چیف جسٹس آف پاکستان مقرر کریں گے۔ اس کے علاوہ آئینِ پاکستان کے کسی آرٹیکل میں ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، سپریم کورٹ کے جج کی تعیناتی کی بابت سنیارٹی کے اُصولوں کا ذکر نہیں ہے۔
نہ جانے آئین و قانون سے آشنا افراد یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اگر چیف جسٹس ہائیکورٹ کی تعیناتی چیف جسٹس آف پاکستان کی طرز پر سنیارٹی کے اُصول پر ہی ہونی ہوتی، تو اس کا تذکرہ آئینِ پاکستان میں ضرور ملتا۔ لہٰذا جوڈیشل کمیشن ہائیکورٹ کے جج، چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے جج کی تعیناتی کی سفارش کے لیے سنیارٹی کے کسی اُصول کی پیروی کرنے کا پابند نہیں۔
یہ کمیشن ججوں کی تعیناتی کی سفارش سے پہلے منتخب ججوں کی عدالتی کارکردگی، ججوں ضابطۂ اخلاق کی پیروری کو پرکھتا ہے۔
حیران کن طو رپر ہمارے قانون دان، سیاست دان، ٹی وی اینکر، یوٹیوبر بار بار ’’الجہاد ٹرسٹ مقدمہ‘‘ کا ذکر کرتے ہیں۔ یاد رہے یہ مقدمہ سال 1996ء کا ہے، جب کہ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ میں ججوں کی تعیناتی کے حوالے سے مشہورِ زمانہ 18ویں اور 19ویں آئینی ترامیم جو سال 2010ء میں منظور ہوئیں، اُن میں ججوں کی تعیناتی کے حوالے سے آئینِ پاکستان میں پائے جانے والے ہر قسم کے ابہام کو دُورکردیا گیا تھا۔ اُن ترامیم میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے قیام، مقاصد اورافعال کا تفصیلی تذکرہ کیا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ اگر آئین میں چیف جسٹس ہائیکورٹ کی تعیناتی کا طریقۂ کار سنیارٹی بنیادوں پر درج ہوتا، تو معترض حلقوں کو بار بار سال 1996ء کے ’’الجہاد ٹرسٹ مقدمہ‘‘ کا ریفرنس دینے کی ضرورت ہی نہ پڑتی، بل کہ آئین میں درج کسی آرٹیکل کا حوالہ ضرور دیتے۔
سادہ سی بات ہے کہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکلز کسی بھی ممبربار کونسلز، ججز، وکلا، سیاست دانوں، یوٹیوبرز، ٹی وی اینکرز کی رائے سے زیادہ مقدم ہیں۔
آئینِ پاکستان میں واضح طور پر درج ہے کہ سنیارٹی کا اُصول صرف اور صرف چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی کے وقت لاگو ہوتا ہے۔ اس کے باوجود بھی معترض حلقوں کی جانب سے احتجاج کرنا صرف اور صرف ’’پوائنٹ سکورنگ‘‘ اور میڈیا میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھنے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتا۔
قانون کے ایک ادنا سے طالب علم کی حیثیت سے یہ بات جاننے سے قاصر ہوں کہ آئینِ پاکستان میں ہائیکورٹ ججز، چیف جسٹس ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ ججز اور چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی کے لیے واضح ہدایات موجود ہیں، توپھر پاکستان کے معزز وکلا بار بارججوں کی تعیناتی پر احتجاج کیوں کرنا شروع کردیتے ہیں؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔