الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں کے سلسلے میں 20 جون 2024ء کو نوٹیفکیشن جاری کیا ہے، جس میں صوبے بھر کے بلدیاتی اداروں کے لیے حلقہ بندیوں کا شیڈول دیا گیا ہے۔ پنجاب لوکل گورنمنٹ نے اسی روز یہ نوٹیفکیشن متعلقہ محکموں کے علاوہ صوبے بھر کے ڈویژنل کمشنروں اور تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کو فارورڈ کر دیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق حلقہ بندیوں کا آغاز 30 جون 2024ء سے شروع کیا جائے گا اور یکم ستمبر 2024ء کو تمام مراحل مکمل کرنے کے بعد حلقہ بندیوں کی فائنل فہرست جاری کر دی جائے گی۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
سیاسی اور سماجی حلقوں نے اس نوٹیفکیشن کا خیرمقدم کیا ہے، تاہم ان خدشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ پنجاب حکومت بلدیاتی انتخابات کروانے میں سنجیدہ بھی ہے یا ماضی کی طرح محض لولی پاپ دے کر عوام اور سیاست دانوں کو مطمئن کیا جا رہا ہے؟ اگر ایسا ہوا تو یہ پنجاب کے عوام کی بہت بڑی بدقسمتی ہوگی۔ باقی تینوں صوبوں میں بلدیاتی ادارے فعال ہیں۔ وہاں بلدیاتی نمایندے مقامی مسائل کو حل کرنے میں کوشاں ہیں۔ صرف پنجاب ہی ایسا صوبہ ہے جہاں بلدیاتی ادارے انتظامیہ کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں۔
بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نرسری ہوتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی جمہوریت کی مضبوطی کا اندازہ لگانا ہو، تو اُس ملک کے بلدیاتی نظام اور بلدیاتی اداروں کو حاصل اختیارات سے لگایا جاتا ہے۔ یہ ادارے جمہوری معاشرے کی شان، جان، پہچان اور آن ہوتے ہیں۔ ان اداروں کے ذریعے عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کیے جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ہمیں جمہوریت اوجِ ثریا پر نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں باقاعدگی پائی جاتی ہے۔ ان کے جمہوری ادارے مکمل طور پر فعال اور بااختیار ہیں اور یہ ادارے مقامی سطح پر عوام کے مسائل حل کرنے میں سنجیدگی سے کوشاں رہتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر شعبۂ زندگی میں اُلٹی گنگا بہانے کا رواج ہے۔
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
کے مصداق بلدیاتی اداروں کو سب سے زیادہ نقصان ہمارے سیاست دانوں اور جمہوری حکومتوں ہی نے پہنچایا ہے۔ وہ جنھیں ہم آمر کہتے ہیں، اُن کے ادوار میں جمہوری ادارے پھلے پھولے بھی اور فعال بھی رہے۔ اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی بھی ہوئی اور ان سیاسی نرسریوں نے ملکی سیاست کو بہت سے سیاست دان بھی عطا کیے۔
ایوب خان کا بی ڈی نظام ہو، یا جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے بلدیاتی سسٹم ہوں۔ سبھی نے بلدیاتی اداروں کو فعال اور مضبوط کیا۔ ہمارے سیاست دانوں کے لیے بلدیاتی نظام ایک ناپسندیدہ سسٹم ہے۔ آپ مشہور سیاسی خانوادوں پر نظر ڈال لیں، وہ کسی نہ کسی طور ہر حکومت کا حصہ رہے ہیں۔ جاگیرداروں اور وڈیروں کو وراثت میں زمین اور جائیداد کے ساتھ ساتھ سیاست بھی ملتی ہے۔ ان موروثی سیاست دانوں اور وڈیروں، جاگیرداروں کو بلدیاتی نظام وارا نہیں کھاتا۔ بلدیاتی نظام میں عام آدمی کو بھی آگے آنے کا موقع مل جاتا ہے، جو اقتدار اور اختیارات پر قابض ان موروثی سیاست دانوں کو کسی صورت گوارا نہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
ایکس (ٹویٹر) پر پابندی، ہم دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟  
اُبھرتے ایشیا میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟  
جعلی ادویہ اور ہم  
گندم سکینڈل، حکومت کہاں کھڑی ہے؟  
صوبائی خود مختاری کیوں ضروری ہے؟  
قریباً ایک ماہ قبل حکومتِ پنجاب کی طرف سے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ یکم جولائی 2024ء سے 31 دسمبر 2025ء تک کے لیے سابقہ بلدیاتی اداروں کو بہ حال کیا جائے گا، جنھیں عمران خان کے دور میں معطل کیا گیا تھا، مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔
پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں بار بار بلدیاتی الیکشن کرانے کا وعدہ کیا گیا، مگر شکست کے خوف سے عمران خان بلدیاتی انتخابات کروانے میں لیت و لعل سے کام لیتے رہے۔ جہاں تک موجودہ حکومت کا تعلق ہے، تو پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کروانا اس کا شوق نہیں، بل کہ مجبوری بن گئی ہے۔ کیوں کہ پنجاب کی طرح وفاق میں بھی پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت ہے، جو اس وقت بہ حالتِ مجبوری آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہوئے ہے۔ آئی ایم ایف نے حکومتِ پاکستان کو اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی سے ترقیاتی کاموں کے اختیارات واپس لینے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ یہ اراکین اب صواب دیدی فنڈ بھی استعمال نہیں کرسکیں گے۔ اراکینِ اسمبلی کو ان کے اصل کام یعنی قانون سازی تک محدود کرنے کے ’’احکامات‘‘ آئی ایم ایف کی طرف سے جاری ہوچکے ہیں، جنھیں من و عن تسلیم کرنا پڑے گا۔ اب ان ممبران صوبائی و قومی اسمبلی کو اپنے پارٹی ورکروں کو اقتدار میں قانونی و آئینی طور پر شامل کرنا پڑے گا۔ اپنی بی ٹیمیں میدان میں اُتارنا پڑیں گی۔ اقتدار کی ’’گراس روٹ لیول‘‘ تک منتقلی کرنا پڑے گی۔ اقتدار کا ارتکاز ختم ہونے سے نہ صرف جمہوریت اور سیاسی ادارے مضبوط ہوں گے، بل کہ چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے ایم پی ایز اور ایم این ایز کی بارگاہوں کے پھیرے لگانے سے بھی عوام کے وقت اور پیسے کی بچت ہو گی۔ سیاست دانوں کی ایک نئی کھیپ تیار ہوگی، جس نے آگے چل کر ملکی باگ ڈور سنبھالنا ہوگی۔ چوں کہ بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ محدود حلقہ اور ووٹرز کی محدود تعداد کے علاوہ امیدواران کی ذاتی دلچسپی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے سیاسی پارٹیوں کو بھی اپنی اصل پوزیشن کا اندازہ لگانے میں آسانی ہوگی۔ گو حکومتی امیدواران کو سرکاری فنڈ سے ترقیاتی کام کروانے کی فوقیت ضرور حاصل ہوتی ہے۔
ان حالات کی روشنی میں پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ہوتے نظر آ رہے ہیں، لیکن پھر بھی سالِ رواں میں ان کا انعقاد مشکل لگ رہا ہے۔ کیوں کہ بجٹ میں اس مقصد کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی۔ حتمی فہرستوں کی اشاعت کی ڈیڈ لائن یکم ستمبر سے ایک دو ماہ آگے بھی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد انتخابات کی تیاری کے لیے بھی وقت درکار ہوگا۔ لہٰذا ممکنہ طور پر یہ معاملہ اگلے سال تک جاتا محسوس ہو رہا ہے۔ اگر ہنگامی طور پر فنڈز کا بندوبست کر بھی لیا جائے، تو آیندہ سال اپریل یا مئی سے پہلے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ممکن نہ ہوسکیں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔