سوات میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قرآنِ مجید کی بے حرمتی کے الزام میں قتل ہونے والے سیالکوٹ کے سیاح کے بارے میں قرآنِ مجید کی بے حرمتی کا کوئی واضح ثبوت نہ مل سکا۔ حالاں کہ ہم جمعے کا پورا دن مدین میں گزارا۔
ہوٹل مالک کے مطابق سلیمان نامی شخص 18 جون کو آیا تھا اور ہوٹل میں کمرا کرایہ پر لیا تھا۔ ’’20 جون کو دیگر کمروں میں رہایش پذیر لوگوں کے شور پر جب مَیں پہنچا، تو لوگوں کے ہاتھوں میں قرآنِ مجید کے جلے ہوئے اوراق تھے اور وہ سلیمان کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا رہے تھے مگر سلیمان دروازہ نہیں کھول رہا تھا۔ بعد میں جب اُس نے دروازہ کھولا، تو اُس وقت پولیس آچکی تھی اور وہ ملزم کو اپنے ساتھ تھانہ لے گئی۔‘‘
فیاض ظفر کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fayaz-zafar/
قارئین! یہاں یہ بات اہم ہے کہ ہوٹل کے جس کمرے میں سلیمان رہ رہا تھا، اُس کے قریب والے کمروں میں رہایش پذیر لوگوں کو کیسے معلوم ہوا کہ کمرے میں مذکورہ شخص قرآنِ مجید کی توہین کا مرتکب ہوا ہے؟
اگر وہ بند کمرے میں یہ عمل کر رہا تھا، تو پھر قرآنِ مجید کے اوراق اُن کے ہاتھ کیسے آئے؟
مقامی لوگوں کے مطابق اس کے بعد مساجد میں اعلانات کیے گئے۔ لاؤڈ سپیکر والی گاڑی سے بھی اعلانات کیے گئے، جس کے بعد ہجوم نے تھانے پر دھاوا بول دیا۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس بارے میں تو صرف ہوٹل والوں کو پتا تھا، تو مساجد میں اعلانات کس نے کیے اور پہلے سے ایک گاڑی پر لاؤڈ سپیکر کس نے باندھا تھا؟
اب تو مذکورہوٹل کو پولیس نے سیل کردیا ہے، تو یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ اُن کمروں میں سلیمان کے علاوہ کون رہایش پذیر تھا؟
ایس ایچ اُو مدین اسلام الحق بتاتے ہیں کہ جب وہ ملزم کو تھانے لے آیا، تو اُس نے ملزم سے پوچھا کہ کیا تم قادیانی ہو؟ تو ملزم نے جواباً کہا کہ ’’نہیں، الحمداللہ مَیں مسلمان ہوں۔‘‘
ایس ایچ اُو نے پوچھا کہ تم نے قرآنِ مجید کو شہید کیا ہے؟ تو ملزم نے انکار کیا اور کہا کہ ’’مَیں مسلمان ہوں۔ کیوں قرآن شریف شہید کروں گا؟‘‘
اس دوران میں مشتعل ہجوم نے تھانے پر حملہ کیا، تو ملزم کو ہجوم سے بچانے کے لیے ایس ایچ اُو اُس کو اپنے کوارٹر لے گیا، لیکن مشتعل افراد کوارٹر تک پہنچے اور ملزم کو اپنے ساتھ لے گئے۔
افسوس کہ مشتعل مظاہرین کے ہاتھوں سے بھی ایک قرآنِ پاک شہید ہوا۔
دیگر متعلقہ مضامین:
سوات: ایک تنقیدی جائزہ (تحریر: ڈاکٹر سلطانِ روم)
سوات، قرآنِ مجید کی مبینہ بے حرمتی، ایک قتل، تھانا اور گاڑیاں نذرِ آتش
سوات میں پولیس گردی نامنظو (تحریر: طالع مند خان)
سوات کو بچایا تھا، آگے بھی بچائیں گے (تحریر: فیاض ظفر)
دہشت گردی بارے ریاستی سنجیدگی (تحریر: طالع مند خان)
مدین پولیس کے مطابق مشتعل مظاہرین نے تھانے کے اندر9 گاڑیوں اور 10 موٹر سائیکلوں کو نذرِ آتش کیا ہے۔ نذرِ آتش ہونے والی گاڑیوں میں ایک موٹر کار میں قرآنِ مجید پڑا تھا، جو شہید ہوگیا۔ مظاہرین نے تھانے کے کچھ کمروں کو بھی آگ لگائی۔
ریجنل پولیس آفیسر کے مطابق ملزم کے خلاف ملک بھر میں صرف ایک ایف آئی آر درج ہے، جو اُس کی والدہ نے اُس کے خلاف 4 جولائی 2022ء کو تھانہ سول لائن میں کٹوائی تھی، جس میں سلیمان کی والدہ نے کہا ہے کہ ’’میرا بیٹا ملیشیا سے واپس آیا ہے۔ گھر میں مجھے گالیاں دیتا ہے اورقتل کی دھمکیاں بھی دیتا ہے۔‘‘
مقامی لوگوں سے ملاقات میں معلوم ہوا کہ اس عمل میں ایک ’’مذہبی گروہ‘‘ ملوث تھا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مدین میں تمام مظاہرے مدین اڈّے میں ہوتے ہیں، لیکن اُن مشتعل عوام نے سیالکوٹ کے اُس شخص کو سور پل کے پار لے جاکر جلایا۔ عجیب بات یہ تھی کہ ملزم کو جلانے کے لیے پہلے سے لکڑیاں موجود تھیں۔
ہمارے ذرائع کے مطابق اس واقعے کی منصوبہ بندی چند دن قبل کسی اور جگہ کی گئی تھی، اور اس عمل کے لیے جمعرات کا دن اس لیے منتخب کیا گیا تھا کہ اگلے دن جمعے کو سوات بھر میں پُرتشدد مظاہرے ہوں، لیکن سوشل میڈیا پر عوام نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور سوات کو بچالیا۔
آج جمعے کے روز پورے دن کی تحقیقات سے کوئی واضح ثبوت میرے ہاتھ نہیں آیا کہ کیا واقعی قتل شدہ شخص نے قرآنِ مجید کو شہید کیا تھا؟
خدا نہ خواستہ اگر کوئی ایسا مکروہ عمل کرے بھی، تو اُس کو قانون کے حوالے کیا جانا چاہیے اور ثبوت پولیس کو پیش کرنے چاہئیں۔
آج مدین میں پورا دن گزارنے کے باوجود ہمیں کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ہم سب کو معلوم ہے آج کل ٹیکنالوجی کا دور ہے، لیکن کسی نے اپنے موبائل فون سے سلیمان کے کمرے یا شہید قرآنِ مجید کی کوئی ویڈیو بنائی تھی اور نہ تصویر۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔