جب 1992ء میں ملاکنڈ ڈویژن اور خصوصاً سوات کو صوفی محمد نے اپنی تحریک برائے نفاذِ شریعت کا مرکز بنایا، تو بڑی تعددا میں لوگوں نے اس کا ساتھ دیا۔ وہ سال میں ہر موسمِ گرما کو اُس وقت سوات آنے والی واحد سڑک کو ملاکنڈ ٹاپ پر بلاک کردیتے۔ ہر سال اُن کی تحریک کا یہی موسم ہوتا تھا۔
پھر حضرت نے غالباً 1993ء میں سیدو ائیرپورٹ پر قبضہ کرکے یہاں سوات کی مقامی انتظامیہ کو مفلوج کرکے سوات میں اپنی طرف سے شریعت نافذ کی، جس کا پہلا حکم سڑک پر گاڑیوں کو دائیں طرف چلانا تھا۔ اس کی وجہ سے کئی حادثات بھی ہوئے، تاہم اُس وقت کی حکم ران حکومت نے اُن کے خلاف سوات ائیرپورٹ کا قبضہ چھڑانے کے لیے سخت ردِ عمل دیا اور یوں اُس تحریک کا رُخ افغانستان کی جانب ہوگیا۔ ہم اُس وقت نوخیر تھے اور مذکورہ تحریک سے متاثر بھی تھے۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
اُس کے بعد ایک بار پھر جب 2004ء میں سوات میں ’’طالبان‘‘ نامی تحریک کا آغاز ہوا، تو مقامی انتظامیہ نے اس سے صرفِ نظر کیا۔ آہستہ آہستہ یہ سرگرمیاں بڑھتی گئیں اور مقامی لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس تحریک کی حمایت کرنے لگی۔ کئی لوگ اس تحریک کے سامنے اس وجہ سے بھی بے بس ہوئے کہ اُنھوں نے اُس وقت کی ریاست کو اس معاملے میں سست ہی نہیں، بل کہ اس مہم جوئی کی پشت پناہی کرتے ہوئے پایا۔
ہمیں یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ مذکورہ تحریک کے ابتدائی دنوں میں اس کو مقامی لوگوں نے دل کھول کر چندے دیے اور تقریباً ہر گاؤں اور محلے میں اُن کے حامی موجود تھے۔ قتل و غارت، سوات کی معیشت کی تباہی اور خوف و ہراس کا یہ دور یوں 2008ء کے خونیں دور میں داخل ہوا اور پھر فروری 2009ء میں اس کے خلاف آپریشن کیا گیا۔
اس آپریشن کے لیے سوات اور ملاکنڈ کے دوسرے علاقوں سے 15 لاکھ سے زیادہ آبادی نے نقلِ مکانی کرکے کیمپوں میں گرمیوں کے تین چار مہینے گزارے۔ کئی خاندان تو اَب تک واپس نہیں آئے ہیں۔ وہ آپریشن یوں کامیاب ہوا کہ وقتی طور پر سوات میں یہ کارروائیاں رُک گئیں۔
دیگر متعلقہ مضامین:
سوات: ایک تنقیدی جائزہ (تحریر: ڈاکٹر سلطانِ روم)
سوات، قرآنِ مجید کی مبینہ بے حرمتی، ایک قتل، تھانا اور گاڑیاں نذرِ آتش 
سوات میں پولیس گردی نامنظو (تحریر: طالع مند خان)
سوات کو بچایا تھا، آگے بھی بچائیں گے (تحریر: فیاض ظفر) 
دہشت گردی بارے ریاستی سنجیدگی (تحریر: طالع مند خان) 
اس آپریشن میں کئی مقامی نوجوانوں کو ہلاک کردیا گیا اور کئی تو اَب تک غائب ہیں۔
2010ء میں خطرناک سیلاب نے سوات کو اپنی لپیٹ میں لیا، جس سے سوات میں ایک اور سانحہ پیش آیا۔ ابھی سیلاب سے لوگ نبرد آزما ہی تھے کہ سوات میں پہاڑیوں پر پھر مشکوک سرگرمیاں ہونے لگیں۔ جب 2022ء کو اُن سرگرمیوں میں تیزی آگئی، تو سوات کے لوگوں کی آنکھیں کھل گئیں اور پورا سوات مزید کسی دہشت گردی کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوا۔
سواتیوں کی آنکھیں کوئی 15 سال بعد کھل گئیں۔ ہر خاص و عام کو وہ باتیں معلوم ہوئیں، جن کا ذکر 2004ء، 2005ء تا 2008ء میں کئی لکھاری مسلسل کر رہے تھے، پر اُن پر کوئی کان نہیں دھرتا تھا۔
مذہب کی جس سیاسی تفہیم کو لے کر وہ تحریک شروع کی گئی تھی، اُس تفہیم پر سوالات اُٹھنے لگے۔ خود اُسی مکتب کے علما اُسی تحریک کا شکار ہوئے۔ کیوں کہ یہ سیاسی تفہیم کسی خاص مقصد کے لیے کی گئی تھی۔
مذکورہ سیاسی تفہیم پوری دنیا میں بدنام ہوگئی۔ ہمارے مقتدر لوگوں کے لیے، اپنے لیے، نجی طور پر سیاسی مہم جوئی کے لیے، متشدد قسم کے نئے لوگ پیدا کرنے کے لیے کوئی اور تفہیم چاہے تھی، جس کو عمومی طور پر طالبان تحریک کے دور میں نرم اور کم متشدد پایا گیا تھا۔ لہٰذا اس کو منظم کیا گیا، تاکہ تشدد کے ذریعے وہ ان حکومتوں کی ناک میں دم کرسکیں جو مقتدر لوگوں کو پسند نہ تھیں۔ اب نئی سیاسی چال میں اسی تفہیم کو بڑھاوا دیا گیا۔ اس تفہیم کو منظم کرکے اس کو باقاعدہ سیاست میں بھی ڈال دیا گیا۔
اب ہم اس نئی تفہیم کے نئے سیاسی دور سے گزر رہے ہیں۔یہ نئی سیاسی تفہیم مضافات میں بھی نقلِ مکانی اور ہجرتوں کی بہ دولت در آئی ہے۔
پاکستان میں مذہبی شدت پسندی ایک سال کے اندر ختم ہوسکتی ہے۔ اگر مذہب کو ریاستی ادارے اور ان کے سیاست دان اپنے مذموم سیاسی و تذویراتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا بند کردیں ، تو!
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔