لندن جانے اور دوستوں کے ساتھ ملاقات اور وقت گزارنے کا ہمارا ’’پلان‘‘ شاید پچھلے پانچ سال سے جاری تھا، جس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہم اپنے استادِ محترم فضل ربی راہیؔ اور ضیاء الدین یوسف زئی کے مرہونِ منت ہیں۔ اپنے بھائی حاضرگل ’’امریکہ والے‘‘ کی کوششوں کے بغیر ہمارا ’’یونائیٹڈ کنگڈم‘‘ (یو کے) کا سفر شاید ناممکن تھا۔ بہ ہر حال عید الفطر سے دو دن پہلے تین کا ٹولہ یعنی مَیں، حاضر گل اور ’’ہم سب کا پاکستان‘‘ فضل مولا المعروف خان جی بہ راستہ استنبول بہ ذریعہ ’’ترکش ائیرلائن‘‘ روانہ ہوئے۔ کیوں کہ عید کے بعد جہاز کے کرایوں میں دو لاکھ روپے کا اضافہ ہمارے محدود بجٹ کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ لہٰذا ہم نے عید استنبول کی مسجد صوفیہ کے قرب و جوار میں گزار دی۔ اس دوران میں استنبول میں کچھ مشکلات کی وجہ سے اپنے حاضر گل کا ماننا تھا کہ ہم جوں ہی لندن جاکر رحیم شاہ سے ملیں گے، تو میرے سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ بعد اَزاں ہر فنِ مولا حاضر گل کی یہ پیش گوئی بالکل درست ثابت ہوئی۔
گیارہ اپریل کو لندن کے ہیتھرو ائیرپورٹ پر کالے اور گورے امیگریشن افسروں میں بہت فرق نظر آیا۔ میرے اور حاضر گل کا استقبال ایک گوری خاتون نے ہنس کر کیا جب کہ اپنے خان جی کے ایک سیاہ فام امیگرین آفیسر سے واسطہ پڑا جو کہ خاصا پریشان کُن رہا۔ بہ ہرحال امیگریشن سے نکلنے کے بعد میرے برادرِ خورد رحیم شاہ نے ولایت میں ہماری ورود پر بڑے پُرجوش انداز میں استقبال کیا۔
افضل شاہ باچا کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/afzal-shah/
لندن میں ہمارا قیام ایلم حجرہ میں رہا، جو کہ خاص طور پر مہمانوں کے لیے بنایا گیا ہے۔
ولایت میں ہمارا قیام 12 دن تک رہا۔ اس دوران میں رحیم شاہ کے دوستوں آصف خان، ڈاکٹر پتھمن، نہار خان، شکیل خان، عمر زیب بھائی اور عنایت خان نے روزانہ کی بنیاد پر ہماری پُرتکلف مہمان نوازی کی۔ صبح کا ناشتہ رحیم شاہ کے دوست محترم عنایت بھائی نے پورے عرصے میں کروایا جو کہ بہترین مہمان نوازی کا عملی نمونہ تھا۔
اسلام آباد سے ترکی اور پھر ترکی سے لندن کے سفر نے ہمیں کافی تھکا دیا تھا۔ جب ہماری تھکن دور ہوگئی، تو میزبانوں نے ہم سے پوچھا کہ اب آپ لوگ لندن اور لندن سے باہر کیا دیکھنا پسند کریں گے؟ آپ لوگوں کے ذہنوں میں کہاں کہاں جانے کا پروگرام ہے؟ تب ہم نے کہا کہ شاپنگ مالز کے علاوہ ہر خوب صورت اور تاریخی مقام تک رسائی ہمارے اس سفر کو خوش گوار اور یادگار بنائے گی۔
اگلے روز رحیم شاہ ہمیں لندن کے تاریخی اور قدیم دریا ’’ریور تھیم‘‘ لے گئے، جہاں سیاحوں کے لیے موجود دل چسپ اور رنگین مناظر سے ہمارے دل و دماغ کو فرحت اور آسودگی کا احساس ہوا۔ ریور تھیم کے کنارے واک کے لیے جو خوب صورت راستہ بنایا گیا ہے، وہ 13 کلومیٹر پر محیط ہے، جہاں جگہ جگہ سیاحوں کی دل چسپی اور سہولت کے لیے مختلف پُررونق دل چسپیاں بنائی گئی ہیں۔ یہاں ہر وقت دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاحوں کا ہجوم رہتا ہے۔ کچھ لوگ دریا کے کنارے موجود ’’ٹیک اَویز‘‘ میں کھانے پینے میں مشغول ہوتے ہیں، کچھ ’’مشروبِ مغرب‘‘ سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور کچھ جوڑے ہاتھوں میں ہاتھ دیے ان دل کش مناظر کو مزید دل کش بنانے میں مصروف ہوتے ہیں۔
ریور تھیم کے قرب و جوار میں ’’بگ بینگ‘‘، ’’پارلیمنٹ ہاؤس‘‘ اور مشہور ’’ٹاؤر بریج‘‘ سیاحوں کے لیے بہت کشش کے حامل ہیں۔ یہ مقام جیسے لندن کا دل ہے۔ اس لیے جس طرح کہا جاتا ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ ابھی پیدا نہیں ہوا، اس طرح لندن کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ جس نے لندن آکر ’’لندن بریج‘‘ نہیں دیکھا اور ریور تھیم کے کنارے طویل واک نہیں کیا، گویا اُس نے اصل لندن نہیں دیکھا۔
اگلے روز ہمارا پروگرام برمنگھم جانے کا تھا جہاں ضیاء الدین یوسف زئی بڑی شدت سے ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ سو ہم رحیم شاہ کی نہایت آرام دِہ گاڑی میں برمنگھم کی طرف عازمِ سفر ہوئے۔ انگلینڈ کی اعلا سڑکیں اور پُرسہولت موٹر ویز میں ہمیں سفر کی مشکلات کا قطعاً احساس نہیں ہوا۔ راستے بھر میں موٹر وے کے دونوں جانب گھنے درختوں اور دور تک پھیلے سبزہ زاروں کا نظارا کرتے ہوئے اپنے میزبان کے گھر پہنچنے میں ہمیں منزل کی دوری کا پتا ہی نہیں چلا۔ ضیاء الدین یوسف زئی کے گھر پہنچنے پر ہمارا پُرتپاک استقبال کیا گیا۔ ایک طویل عرصے بعد ہم اپنے دیرینہ دوست اور اُن کے اہلِ خانہ سے ملاقات کر رہے تھے۔ اس وقت ہمارے احساسات اور جذبات دیدنی تھے۔ سوات سے متعلق حالات و واقعات خصوصی طور پر ہمارا موضوعِ گفت گو رہے۔ پورا دن تلخ و شیریں یادوں اور محبت انگیں باتوں میں گزرا۔ ہمارے لیے کھانے پینے کا بہت عمدہ انتظام کیا گیا تھا۔ ہمیں اپنے درمیان دیکھ کر ضیاء الدین کی آنکھوں میں چمک اور چہرے پر غیرمعمولی خوشی عیاں تھی۔ وہ ہمیں روکنا چاہتے تھے، لیکن ہمارا پروگرام واپس لندن جانے کا تھا۔ اس لیے ان سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کرکے رات کے وقت ہم نے اُن سے رخصت لی۔
اگلے دن رحیم شاہ نے ہمیں کارل مارکس کے مقبرے کا وزٹ کروایا۔ یہ مقبرہ بہت پُرانا ہے، جس میں ہر مذہب کے لوگوں کی قبریں ہیں۔ مارکس کی قبر پر پھول پڑے تھے، جو یقینا اُن کا کوئی مُرید لایا ہوگا۔ اس کے علاوہ ہم نے دیکھا کہ قبر پر مختلف ممالک کے کرنسی نوٹ بھی رکھے گئے تھے، جن میں برازیل اور انڈیا کے نوٹ قابلِ ذکر تھے۔ اس طرح قبر پر مختلف ممالک کے کوائنز بھی پڑے نظر آ رہے تھے۔ اس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ دنیا بھر سے آنے والے سیاح کارل مارکس کی قبر پر حاضری دیتے ہیں اور یہاں آکر مختلف شکلوں میں اُن سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔
کارل مارکس کے دنیا بھر میں عقیدت مند موجود ہیں۔ وہ 5 مئی 1818ء کو جرمنی میں پیدا ہوئے تھے اور 14 مارچ 1883ء کو لندن میں وفات پاگئے تھے۔
کارل مارکس اپنی کتاب ’’داس کیپیٹل‘‘ (ترجمہ: ’’سرمایہ‘‘) کی وجہ سے مشہور ہیں جو 1867ء میں لکھی گئی تھی، جس میں سرمایہ اور سرمایہ داری کا تجزیہ اور مزدور طبقے کے استحصال کی وجوہات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
اقبالؔ نے کارل مارکس کے ’’نظریۂ اشتراکیت‘‘ کا اپنی شاعری اور نثر میں بہت سے مقامات پر ذکر کیا ہے۔ اقبالؔ اپنی کتاب ’’جاوید نامہ‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ اُس کے قلب میں مومنوں والا جذبہ ہے۔ کیوں کہ وہ خلقِ خدا میں مساوات کا علم بردار ہے، جب کہ حیات و کائنات کی ماہیت اور خالقِ ازلی سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے اس کی فکر کافرانہ ہے۔
اقبالؔ کو مارکس ازم میں جو خوبیاں نظر آئیں، وہ یہ ہیں کہ یہ نظام ملوکیت اور سرمایہ داری کا دشمن ہے اور اس میں محنت کش طبقے کے لیے مواقع موجود ہیں، ورنہ مارکس کی جدلیاتی مادیت سے اقبالؔ کو شدید اختلاف ہے۔
کارل مارکس نے پی ایچ ڈی کیا تھا۔ وہ ماہرِ معاشیات کے ساتھ ساتھ صحافی، مؤرخ، فلسفی، ماہرِ عمرانیات، انقلابی شاعر، سیاست دان اور بہترین مصنف تھے ۔ مارکس نے اپنے رفیق ’’ویدمیئر‘‘ کو 5 مارچ 1852ء کو لکھے گئے خط میں بیان کیا کہ اس کی تھیوری یعنی مارکس ازم کیا ہے۔ مارکس نے لکھا: ’’جدید معاشرے میں طبقوں یا اُن طبقوں کے درمیان کش مہ کش کی موجودگی کی دریافت کا سہرا میرے سر نہیں جاتا۔ مجھ سے بہت پہلے سرمایہ دارانہ تاریخ دان اس طبقاتی کش مہ کش کے تاریخی ارتقا کو اور سرمایہ دارانہ معیشت دان طبقاتی معیشت کو تفصیل سے بیان کرچکے تھے۔ جو نئی بات مَیں نے کی ہے، وہ یہ ثابت کرنا ہے کہ طبقوں کا وجود پیداوار کی ترقی میں مخصوص تاریخی مرحلے سے مشروط ہے۔ طبقاتی جد و جہد لازمی طور پر ’پرولتاریہ (مزدور طبقے) کی آمریت‘ کی جانب لے جاتی ہے، کہ یہ آمریت بہ ذاتِ خود طبقوں کے خاتمے اور غیر طبقاتی سماج کی جانب منتقلی پر مشتمل ہے۔‘‘
کمیونسٹ مینی فیسٹو میں مارکس اور اینگلز کا نعرہ تھا: دنیا کے ’’مزدورو‘‘ متحد ہو جاؤ۔ وہاں پہ مَیں نے پاکستان کے بہت سارے مارکسٹ دوستوں کی نمایندگی کی، جو میرے لیے بھی خوشی کا باعث بنی۔
ضیاء الدین کے ساتھ وعدے کے مطابق تین دن کے لیے دوبارہ ٹرین میں سفر کا مزا لیتے ہوئے ہم برمنگھم پہنچے۔ جگہ جگہ کنٹری سائڈ کے نظاروں کو خان جی نوٹ کر رہے تھے، جو شاید اُن کی تحریر کا روایتی حصہ ہوں گے۔
ضیاء الدین اور بھابھی صاحبہ نے ہماری زبردست مہمان نوازی کی۔ اُنھوں نے ہمیں خوب سیر کرائے۔ ہمیں انگلینڈ میں بھابھی صاحبہ ایک مختلف روپ میں نظر آئیں۔ اُنھوں نے ولایت کی اقدار اور طرزِ بود باش کو اچھی طرح سے سمجھ لیا ہے۔ وہ ایک بہت اچھی اور شفیق میزبان تھیں۔ ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے بھابھی صاحبہ ضیاء الدین کے مقابلے میں اکثر معاملوں میں زیادہ ہوش یار اور ذہین ہیں۔ جب کہ ضیا بھائی کی سرشت میں خوشحال پبلک اسکول کے پرنسپل والا رویہ اور محبت بھری سادگی ابھی تک موجود ہے۔
اگلے دن ہم نے ضیاء الدین کی معیت میں ایک موٹیوشنل انڈین فلم کے افتتاح میں شرکت کی، جو بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں بنائی گئی تھی۔ اُنھوں نے ہمیں برمنگھم کی عظیم الشان لائبریری کا بھی وزٹ کروایا، جس کا افتتاح ملالہ یوسف زئی نے کیا تھا۔ یہ ایک بہت بڑی اور شان دار لائبریری ہے جو کئی منزلوں پر مشتمل ہے۔ اس میں ہر وقت سیکڑوں لوگ مطالعہ اور ریسرچ میں مصروف نظر آتے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں ہم نے وہی ’’کوئین الزبتھ ہسپتال‘‘ کا وزٹ کیا، جہاں پر ملالہ یوسف زئی کا علاج کرایا گیا تھا۔
کچھ نیم خفیہ سرگرمیوں کی کوشش میں اپنے حاضر گل امریکہ والے اپنا موبائل ٹیکسی میں بھول گئے تھے، لیکن خوش قسمتی سے ایک گھنٹے کے بعد مطلوبہ موبائل ٹیکسی والے نے واپس پہنچا دیا۔ ہمارے حاضر بھائی صرف نام کے حاضر ہیں، باقی وہ دماغی طور پر ’’غیر حاضر‘‘ رہتے ہیں۔ اس طرح واپس لندن جاتے ہوئے موصوف اپنا پرس ٹیکسی میں چھوڑ گئے تھے، جو بعد میں تین دن کے بعد ضیاء الدین نے ٹیکسی والے سے وصول کرکے واپس ہمیں بھیج دیا۔ اگرچہ لندن رخصت کرتے ہوئے بھابی نے اُنھیں تاکید کی تھی کہ وہ کہیں اپنا بٹوا ٹیکسی میں نہ بھول جائے، اس لیے وہ ہمہ وقت ذہنی طور پر حاضر رہے، لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی غیر حاضر دماغی کی بہ دولت ایک بار پھر مات کھا گئے تھے۔ جب اُنھیں احساس ہوا کہ وہ اپنا بٹوا ٹیکسی میں بھول گئے ہیں، تو اُنھوں نے اعلان کیا کہ اگر میرا بٹوا واپس نہیں ملا، تو آپ اور خان جی سے جمع پونجی لے کر میں امریکہ جاؤں گا اور بعد میں اُدھر سے قسطوں میں آپ دونوں کی جمع پونجی بھیجوں گا۔ اس لیے اُن کا بٹوا ملنے پر ہم نے بھی شکر ادا کیا۔
برمنگھم میں دوسرے دن ضیاء الدین ہماری فرمایش پر ہمیں شیکسپیئر کے مزار پر لے گئے۔ شیکسپیئر جس سکول میں پڑھے تھے، اُس کو اَب میوزیم کا درجہ دیا گیا ہے۔ اسکول کا کلاس روم ابھی تک اپنی پُرانی شکل میں موجود ہے جہاں پر وہاں جانے والے سیاح علامتی کلاسیں لیتے ہیں۔ سو ہم نے بھی کلاس روم میں بیٹھ کر کلاس لی۔ استاد کے ساتھ تصویریں بنائیں۔ ہمارا یہ وزٹ کافی دل چسپ اور معلوماتی تھا۔ اس وزٹ کو ہم نے خوب انجوائے کیا۔ ہم نے اس وزٹ میں دنیا کا پہلا بنک بھی دیکھا، جو ایک بڑے صندوق کی شکل میں تھا۔ اس کو تین تالے لگائے گئے تھے، جو آج بھی بنکنگ میں رائج زریں اُصول ہیں۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
سفرنامہ اور رپورتاژ میں فرق  
فاہیان کا سفرنامہ ہند 
شنکیاری کی سیر (سفرنامہ)  
اُٹھ گئے جو قدم (سفرنامہ)  
فرانسس کا سفرنامہ اور آج کا پاکستان  
میوزیم کے بعد نے ہم شیکسپیئر کے گاؤں سٹریٹ فورڈ کی سیر کی۔ یہ ایک چھوٹا سا بہت پُرکشش ٹاؤن ہے۔ دریا کے کنارے آباد یہ ٹاؤن بہت خوب صورت اور پُرسکون ہے۔ یہاں دریا کے کنارے قطار اندر قطار گھنے درخت بہت خوب صورت نظارہ پیش کرتے ہیں۔ وہاں کے دل کش مناظر اور پُرسکون خاموشی ذہنوں میں محفوظ کرتے ہوئے ہم واپس اپنے ٹھکانے پر پہنچ گئے۔ اگلے دن واپس لندن روانہ ہوئے۔ اگرچہ ہمارا پروگرام یہ تھا کہ ہم ضیاء الدین اور فضل ربی راہیؔ سے مل کر سکاٹ لینڈ جائیں گے، لیکن جب راہیؔ صاحب سے فون پر بات ہوئی، تو اُنھوں نے معذرت کی کہ وہ اگلے روز فارغ نہیں ہوں گے، بل کہ ضیاء الدین بھی مانچسٹر آئیں گے کہ ایک جگہ پہ ہماری کسی کے ساتھ میٹنگ طے ہے ۔ راہیؔ صاحب مانچسٹر میں رہتے ہیں، اس لیے اُن سے ہماری ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی تھی، جب کہ وہ ہمارے ساتھ فون پر رابطے میں رہتے تھے۔ بہ ہرحال ہم نے یہ طے کیا تھا کہ ہمارا اگلا پروگرام راہیؔ صاحب کے پاس مانچسٹر جانے کا ہوگا، جنھیں ہم ساتھ لے کر بریڈ فورڈ جائیں گے اور پھر سکاٹ لینڈ کی یاترا کریں گے۔
ایک دن بعد آکسفورڈ یونی ورسٹی میں مسلم سوسائٹی نے ایک لیکچر کا اہتمام کیا تھا، جس میں ہمیں بھی شمولیت کی دعوت دی گئی تھی۔ اس دوران میں اپنے حاضر گل بھائی 21 اپریل کو امریکہ چلے گئے تھے ۔ اس لیے مَیں، خان جی اور میرے دو بھتیجے ولیدشاہ اور ڈاکٹر حمید شاہ ہم چاروں آکسفورڈ یونی ورسٹی روانہ ہوئے۔ پروگرام کے مطابق ضیاء الدین کو بھابی سمیت برمنگھم سے آنا تھا، لیکن متعلقہ ٹرین کے کینسل ہونے سے وہ دو گھنٹے تاخیر سے پہنچے۔
ہماری میزبان عالیہ صاحبہ جو کہ آکسفورڈ یونی ورسٹی سے پوسٹ ڈاک (Post Doc) کر رہی ہیں۔ پی ایچ ڈی اُنھوں نے کیمرج سے کیا تھا اور اب آکسفورڈ میں سینئر لیکچرار کے طور پر جاب کر رہی ہیں۔ ضیاء الدین کے پہنچنے سے پہلے ہی اُنھوں نے ہمیں آکسفورڈ کا وزٹ کرایا تھا۔ جس میں آکسفورڈین شہید بے نظیر بھٹو اور ملالہ یوسف زئی کی تصویریں لگی تھیں۔ ہمیں بڑا فخر محسوس ہوا کہ بے نظیر شہید کا سیاسی ویژن اور بہادری کو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔
ہماری میزبان عالیہ کا تعلق پشاور شہر سے ہے۔ مَیں زندگی میں بہت کم خواتین سے انسپائر ہوا ہوں، لیکن عالیہ کی شخصیت اور رکھ رکھاو نے مجھے بہت ’’ایمپرس‘‘ کیا۔ اُن سے ملاقات بہت یادگار رہی۔ ہمیں یونی ورسٹی ہی میں لنچ کرایا گیا۔ ہمارے لیے آکسفورڈ یونی ورسٹی کا وزٹ ایک سنہرے خواب سے کم نہ تھا۔
عالیہ نے مجھے بتایا کہ آکسفورڈ میں اگر کسی پاکستانی طالب علم کو ’’ریفرنس‘‘ کی ضرورت پڑی، تو وہ میرا ریفرنس استعمال کرسکتا ہے۔ خاص طور پر اگر اپنے صوبے خیبر پختون خوا کے کسی طالب علم یا طالبہ کو یہاں داخلہ لینے کے سلسلے میں ریفرنس کی ضرورت ہوگی، تو وہ اُس کے لیے حاضر ہوں گی۔ خیر سے اِس وقت ہمارے لوگوں کے لیے آکسفورڈ یونی ورسٹی میں دو ریفرنس موجود ہیں، ایک میڈم عالیہ کی شکل میں اور دوسرا ملالہ یوسف زئی کی صورت میں۔
ضیاء الدین کے پہنچنے کے بعد ہم لیکچر ہال میں چلے گئے۔ وہاں پہ محدود تعداد میں لوگ جمع تھے۔ بعد میں ہال بھر گیا۔ لیکچر کا ٹاپک تھا ’’روحانیت‘‘۔ متعلقہ بزرگ خاتون نے بڑے منظم اور مدلل انداز میں روحانیت پر بحث کی۔ آخر میں سوالات کا سیشن تھا، جس میں تقریباً سارے سوالات ہمارے حصے میں آئے۔ ایک سوال ضیاء الدین کے بیٹے خوشحال خان نے کیا۔ ایک سوال میرے بھتیجے ڈاکٹر حمید شاہ نے کیا جب کہ آخری سوال ہماری میزبان میڈم عالیہ نے کیا۔
بزرگ خاتون کے لیکچر کا لبِ لباب یہ تھا کہ دُنیا کے ہر مذہب میں روحانیت کا عنصر کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ اس تک پہنچنے کے لیے کچھ لوگ چلہ کاٹتے ہیں، تو کچھ گیان دھیان کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور کچھ لوگ روزے رکھتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
وہ کَہ رہی تھیں کہ میرے مشاہدے اور تجربے کا نچوڑ ہے کہ روحانیت تک پہنچنے کے لیے یا روحانیت کو محسوس کرنے کے لیے نیچر ہی کا راستہ منزلِ مقصود تک پہنچاتا ہے۔ جیسے پرندوں کی چہچہاہٹ، پھولوں کا رنگ اور خوش بو، پانی کا شور اور سُریلی آہنگ اور میوزک ہی اصل راستہ ہے۔ دراصل ان چیزوں کی وجہ سے اطمینان اور راحت محسوس کی جاسکتی ہے۔
لیکچر کے بعد رخصت ہوتے ہوئے ہم نے میڈم عالیہ کو سوات آنے کی دعوت دی جو اُنھوں نے اس شرط پر منظور کی کہ ’’مَیں نے آپ لوگوں کو جو چار چھتریاں دی ہیں، وہ آپ لوگوں نے مجھے سوات ہی میں واپس کرنی ہیں!‘‘ اور ہم نے اُن کے اس برجستہ جملے پر زور دار قہقہہ لگایا۔ بارش سے بچنے کے لیے میڈم نے ہمیں چار چھتریاں دی تھیں۔ کیوں کہ ’’یو کے‘‘ کے موسم کا کوئی پتا نہیں، وہاں کسی بھی وقت بارش ہوسکتی ہے اور اُس وقت موسم ویسے بھی اَبر آلود تھا۔
بعد اَزاں ہم بہ خیر و عافیت اپنے مہمان خانے واپس پہنچے۔ اگلے دن ہمارا پروگرام کیمرج کے وزٹ کا تھا۔ ہمارے میزبان رحیم شاہ ہمیں کیمرج لے کر گئے۔ وہاں بھی ہم نے اس تاریخی یونی ورسٹی کی سیر کی اور اس کے قرب و جوار میں خوب صورت مقامات کی خوب صورتیاں آنکھوں میں کشید کیں۔ وہاں بہت پرانے دوست جعفر علی سے ملاقات ہوئی۔ وہ عرصۂ دراز سے کیمرج شہر میں رہایش پذیر ہیں۔ اُن میں اَبھی تک ’’کلی والوں‘‘ کی سی عادتیں موجود ہیں۔ کیمرج کے پُرکشش اور مشہور مقامات تک ہم نے اُن کی راہ نمائی میں سیر کی۔ وہ بہ ضد تھے کہ ہم وہاں رات گزاریں، لیکن ہم نے اگلی دفعہ آنے کے وعدے پر اُن سے رخصت لی۔ ہم جب ’’یو کے‘‘ میں داخل ہوئے تھے، وہ اُسی وقت سے ہمارے ساتھ رابطے میں تھے اور کیمرج میں ہماری آمد کے شدید منتظر تھے۔ ہم اُن کی خلوص بھری محبت کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
آکسفورڈ اور کیمرج میں یہ فرق ہے کہ آکسفورڈ یونی ورسٹی انسانوں کے اُوپر کام کرتی ہے، جب کہ کیمرج دنیا میں بڑی بڑی ایجادات اور بڑے بڑے منصوبے بنانے میں مصروف ہے۔ ہم نے وہاں یونی ورسٹی کے اندر ’’بِل گیٹ‘‘، ’’مارکس زکر برگ‘‘ وغیرہ کے کئی کلومیٹر پر محیط ریسرچ سنٹر دیکھے، جو کہ یونی ورسٹی کا حصہ ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ وہاں پر ہمیں بتایا گیا کہ پاکستان بننے کا منصوبہ بھی کیمرج میں بنایا گیا تھا۔ خیر، اس میں کتنی حقیقت یا افسانہ ہے، ہمیں یہ معلوم کرنے کا کوئی شوق نہیں۔
اَگلا دن ہماری خوشیوں کا گلا گھونٹ کر آیا۔ اُس دن ہمیں پاکستان میں ایک ایسی ایمرجنسی پیش آئی جس کے لیے مجھے فوری طور پر پاکستان پہنچنا تھا۔ ہم نے اَبھی انگلینڈ میں مزید دس بارہ دن گزارنے تھے، جس کے لیے ہم نے کئی منصوبے بنا رکھے تھے، لیکن قدرت کو ہمارا مزید لندن میں رِہ جانا منظور نہیں تھا۔ سو ہم نے ایمرجنسی ہی میں پاکستان واپسی کا ٹکٹ لیا۔
ہمیں سب سے بڑا افسوس یہ ہوا کہ ہماری ملاقات فضل ربی راہیؔ صاحب کے ساتھ نہ ہوسکی۔ اگرچہ ہمارے لندن آنے میں ضیاء الدین صاحب کے بعد سب سے زیادہ کردار راہیؔ صاحب کا تھا۔ ہم نے پروگرام بنایا تھا کہ راہیؔ صاحب اور ضیاء الدین ہمیں ’’ویلز‘‘، ’’بریڈ فورڈ‘‘ اور ’’سکاٹ لینڈ‘‘ کی سیر کرائیں گے، لیکن افسوس کہ اس وِزٹ میں ہماری یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ زندگی رہی، تو اچھے موسم میں دوبارہ ولایت یاترا کریں گے۔
اپریل میں ’’یو کے‘‘ کا موسم ہم جیسے بیمار اور بزرگ شہریوں کے لیے بہت ٹھنڈا ہے۔ بہ ہرحال اس مختصر وِزٹ میں بھی ہم نے بہت کچھ دیکھا، بہت کچھ محسوس کیا اور بہت سی نئی باتیں ہمارے علم میں آئیں۔ درست کہتے ہیں کہ نیا ملک، نیا معاشرہ دیکھنا انسان کے علم اور مشاہدے میں گراں قدر اضافہ کرتا ہے۔ یوں ہمارا یہ نامکمل وِزٹ بھی ہمارے لیے سیکھنے اور محظوظ ہونے کا بہت بڑا ذریعہ ثابت ہوا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔