تاریخ صرف واقعات کا علم نہیں، بل کہ ان واقعات کی وجہ اور اثر/ علت و معلول (Cause and Effect) کا سماجی تجزیہ ہوتا ہے۔ یہ واقعات کیوں رونما ہوتے ہیں، ان کے پیچھے کیا محرکات پوشیدہ ہیں اور سماج اور معاشرت پر ان کے کیا اثرات ہوتے ہیں؟ ان کو باریک بینی سے دیکھنے کو ’’تاریخ کا فلسفہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
یہ صرف روایت پر بنیاد نہیں کرتی، جو لوگوں کو نسل در نسل منتقل کی جاتی ہے، بل کہ اسی روایت پر سوال اُٹھاتی ہے۔
بابائے سماجیات اور تاریخِ فلسفہ، چودھویں صدی کے مشہور عرب تاریخ دان اور فلسفی ابنِ خلدون روایت پر اندھے یقین کو پاش پاش کرتے ہیں اور تاریخ کو ایک منطقی فکری سانچے میں رکھ کر پرکھتے ہیں۔ وہ تہذیبوں کے عروج و زوال کو اسی منطقی سانچے میں رکھ کر علت و معلول کے مطابق پرکھتے ہیں۔ وہ واقعات کو بیان نہیں کرتے، بل کہ ان کی وجوہات اور اثرات کا تجزیہ کرتے ہیں۔
اسی طرح دنیا میں زیرِ تسلط آبائی قوموں/ برادریوں کے مفکرین صرف اس پر اکتفا نہیں کرتے کہ وہ اور اُن کی برادری یا قوم آج کیا ہے…… بل کہ اُن کا بنیادی سوال یہی ہوتا ہے کہ وہ برادریاں یا اقوام آج ایسی کیوں ہیں، ان کی سابق معاشرت کیا تھی، ان کی سوچوں میں ایسی تبدیلیاں کیسے آئیں اور ان کو کس طرح اور کن وجوہات کی بنا پر زیر رکھا گیا؟
دیگر متعلقہ مضامین:
غربت، سماجی تعلقات اور رسوم، مائع جدیدیت میں 
جدیدیت اور مابعد جدیدیت میں فرق 
سماج ہمہ وقت بیرونی اور اندرونی اسباب کی وجہ سے متحرک رہتا ہے۔ یہ بیرونی محرکات، اس کی درجہ بندیوں اور سماجی رتبوں میں تبدیلیاں لاتی ہیں اور ان سماجی رتبوں میں توڑ پھوڑ شروع ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے کئی افراد، برادریوں یا اقوام میں نفسیاتی مسائل بھی جنم لیتے ہیں، جہاں کسی سابق دور میں سماجی درجہ بندی میں اوپر ی لوگ ایک طرح سے نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں یا گوشہ نشینی اختیار کرلیتے ہیں۔
ان حالات کی ذمے داری اُن پر آتی ہے جنھوں نے ان نئے تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ نہیں کیا ہوتا۔
گذشتہ 10، 15 سالوں سے، جب سے ہمارے ملک اور علاقوں میں انٹرنیٹ کے ذریعے لوگ بیرونی دنیا سے جُڑ گئے ہیں، اس توڑ پھوڑ میں تیزی آگئی ہے اور اب لوگ (خصوصاً نوجوان) کسی روایت کے پابند نہیں ہونا چاہتے۔ اُن کا اُفق اب اپنا گاؤں ہی کیا بل کہ ملک بھی نہیں رہا۔ وہ دنیا کو اس انٹرنیٹ اور عالمی مارکیٹ کے ذریعے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اُن کی سمجھ بے سمت اور غلط ہوسکتی ہے، تاہم اس کا علاج یہ نہیں کہ اُن کو زبردستی کسی روایت، برادری، نسب یا شجرے کا واسطہ دے کر اپنی سماجی اور فکری ڈربے میں بند کیا جائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔