انسانی تاریخ میں انسانیت کے دامن پر سب سے بدنما داغ یہ ہے کہ انسان اور انسان کی جنگ میں انسان کو جتنا بڑا صدمہ اور نقصان اُٹھانا پڑا ہے، اتنا فطرت کے ہاتھوں نہیں اُٹھانا پڑا ہے۔ ویسے تو فطرت نے بھی انسان کو خوب رگیدا ہے۔ سیلاب، زلزلوں، آندھیوں سے لے کر جان لیوا اور متعدی وباؤں نے انسانوں کی بڑی بڑی آبادیوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا ہے، لیکن جس حقیقت پر مؤرخین کا اتفاق ہے، وہ یہ ہے کہ یہ انسان ہی ہے جس نے انسان کو شدید نقصان اور مصائب سے دوچار کیا ہے۔ اس انسان نے دوسرے انسانوں کو زد و کوب کیا ہے، اس انسان نے دوسرے انسانوں کو بے دردی سے قتل کیا ہے، اس انسان نے مفتوح انسانوں کے قریوں کے قریوں کو جلا کر راکھ کر دیا ہے، اور اس جلاؤ گھیراؤ اور مرگ و مار کی کہانی اتنی لمبی ہے جتنی کہ انسانی تاریخ۔ اور اس کی موٹی موٹی مثالیں تاریخِ انسانی کی موٹی موٹی سلطنتیں ہی ہیں۔ سمیری، مصری، یونانی، ایرانی اور رومی سلطنتیں بہت مشہور ہیں۔ اس بات سے قطعِ نظر کہ ان سلطنتوں نے تہذیبوں کی بنیاد ڈال کر انسانیت کو کتنا نفع پہنچایا ہے، یہ سلطنتیں کیا تھیں، سوائے مقبوضات کی۔ یہ سلطنتیں اپنی طاقت کا سہارا لے کر ہمسایہ علاقوں پر دھاوا بول لیتی تھیں، مردوں کو جنگی قیدی بناتی تھیں، عورتوں کو لونڈیاں، مکانات اور مادی ساز و سامان کو مالِ غنیمت قرار دیا جاتا تھا۔ وہ اشیا جو نہیں لے جائی جاسکتی تھیں، جلا دی جاتی تھیں۔ یہی ایک ایسی عام روش تھی، جو ان تمام سلطنتوں میں مشترک تھی۔ مقبوضہ علاقوں سے خراج وصول کیا جاتا تھا۔ سوچا جائے، تو خراج کا تصور ہی ظلم اور ناانصافی پر مبنی ہے۔ آخر کیوں کوئی علاقہ اپنے خون پسینے کی کمائی ایک طاقتور اور بالادست طاقت کے حوالے کر دے، محض اس لیے کہ وہ کم زور ہے؟ حتیٰ کہ یورپ میں 1448ء میں طاعون کی پھیلی ہوئی وبا، جس کی لپیٹ میں یورپ کی ایک تہائی آبادی موت کے غار میں چلی گئی تھی، بھی منگولیا سے درآمد کی گئی تھی۔ جب سولہویں صدی میں برطانیہ اور امریکہ کے مقامی باشندوں کے مابین لڑائی جاری تھی، تو انگریزوں نے چادروں اور کمبلوں میں، جس کی اس وقت دونوں اقوام میں تجارت ہوتی تھی، چیچک کی بیماری کو برآمد کیا اور ایک بڑی اکثریت کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ بہرحال، وصولی اور استحصال کی یہی روش برطانیہ عظمیٰ کی "کالونیلزم” (colonialism) تک جاری رہی۔ جنگِ عظیم اول اور دوم میں لاکھوں انسان لقمۂ اجل بنے، یہ ایک ایسی کھلی حقیقت ہے جو ہر فرد بشر جان چکا ہے۔ ان تمام جنگوں میں جو بات کھل کر سامنے آتی ہے، وہ یا تو شرحِ اموات ہے یا وہ جسمانی نقائص جو نظر آتے ہیں، جیسے کسی کی آنکھ ضائع ہو جائے، کسی کا پاؤں کٹ کر گرجائے، کسی کی کمر ٹوٹ جائے اور پھر جنگ ختم ہونے کی طویل مدت بعد بھی ایسے متاثرہ لوگ چارپائیوں میں پڑے گھر والوں پر بوجھ بنے ہوتے ہیں اور کیسے اتنے لوگ ہوتے ہیں جو جنگ کے ختم ہونے کے بعد بھی سالوں تک زیرِ علاج رہتے ہیں۔

سوات کی جنگ میں مجھے کتنے ایسے لوگ ملے ہیں، جو یا تو دھماکوں میں نیم جان ہوگئے تھے یا کسی ایسے دوسرے حادثے میں زخمی ہوگئے تھے، جو جنگ ہی کا سلسلہ تھے۔

سوات کی جنگ میں مجھے کتنے ایسے لوگ ملے ہیں، جو یا تو دھماکوں میں نیم جان ہوگئے تھے یا کسی ایسے دوسرے حادثے میں زخمی ہوگئے تھے، جو جنگ ہی کا سلسلہ تھے۔ اسی طرح آپ انسانی تاریخ کی دوسری جنگوں کی باقیات پر بھی سوچ سکتے ہیں۔ لیکن یہ نقصان تو نظر آنے والا نقصان ہے، کیا جنگوں کے نتیجہ میں کوئی ایسا بھی نقصان ہوتا ہے، جو نظر نہیں آتا۔ ہاں! ایسا نقصان بھی ہوتا ہے بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ ایسا نقصان ہی زیادہ دیرپا اور خطرناک ہوتا ہے، اور وہ ہے ذہنی صحت کی پامالی۔ نفسیاتی صدمے، دماغی خلل، جذباتی عدم توازن۔ جنگ کے باعث جو نفسیاتی تناؤ بنتا ہے، وہ موڈ، ذہن اور رویے میں تبدیلی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ جن مظاہر سے اس تناؤ کو ناپا جا سکتا ہے، اُن میں بے خوابی، منشیات کا استعمال، سماجی روابط سے بے زاری (جیسے تنہائی پسندی)، عائلی زندگی میں چپقلش اور بیویوں اور بچوں پر تشدد، غم و غصے کی طرف رجحان اور رات کو ڈراؤنے خواب دیکھنا شامل ہیں۔ ماضی کی تلخ یادیں (Intrusive thought) جو ذہن میں بار بار آتی ہیں، سے ذہنی صحت مزید پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ ا س کے علاوہ، جنگی خطرات سے نکلنے کے بہت بعد بھی لوگوں میں خطرات کی طرف حساسیت مریضانہ حد تک بڑھ جاتی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ذہنی تناؤ کے شکار فرد کی دیکھ بھال کرنے والا، جو عموماً بیوی ہی ہوتی ہے، بھی ثانوی درجے پر ذہنی صدمے (Secondary Traumatization) کا شکار ہو جاتی ہے۔ اسی طرح یہ نہ دیکھے جاسکنے والی متعدی بیماری پورے معاشرے کی رگ و پے میں وائرس کی طرح پھیلتی جاتی ہے۔ معاشرے کا ہر فرد خوف اور جارحیت کی علامت بن جاتا ہے اور یوں پورا معاشرہ منفی جذبات اور رویوں کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ یہ نہ دیکھے جاسکنے والے نقصانات جتنے نظر انداز کیے جاتے ہیں، اتنے ہی اس کے اثرات دوررَس ہوتے ہیں۔ مادی نقصانات کو معلوم کرنا، اس کی ناپ تول کرنا چوں کہ آسان ہوتا ہے، اس لیے عموماً جنگوں کے اثرات اور باقیات ان جسمانی مظاہر سے ہی ناپے جاتے ہیں۔ لیکن یہ کسی جنگ کی بہت ہی سطحی اور ناکافی چھان بین ہوگی۔ ذہنی صحت کو ترقی یافتہ دنیا میں حال تک نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، اور شائد جنگ کرنے والے خواہ ترقی یافتہ دنیا سے تعلق رکھتے ہوں یا ترقی پذیر، ایک ہی سوچ کے مالک ہوتے ہیں۔ بہرحال، چوں کہ مغرب آج کے دور میں دنیا کے تقریباً ہر قلمرو میں رہ نمائی کر رہا ہے۔ اس میدان میں بھی انھوں نے پہل کی ہے، اورجنگوں کے ذہنی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ مثلاً:- ایک ریسرچ میں بتایا گیا ہے کہ فلسطین میں چھیالیس فی صد والدین نے کہا ہے کہ جنگ کے نتیجے میں ان کے بچوں میں جارحیت سرایت کر گئی ہے۔ اڑتیس فی صد بچوں کے تعلیمی نتائج متاثر ہوئے ہیں، انتالیس فی صد والدین نے کہا ہے کہ ان کے بچے رات کو ڈراؤنے خواب دیکھتے ہیں جب کہ ستائیس فی صد والدین شکایت کناں تھے کہ ان کے بچے نیند میں بستر کو گیلا کرتے ہیں۔ اس ریسرچ میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ پناہ گزین بچوں میں غیر پناہ گزین بچوں کی نسبت زیادہ غصہ اور جارحیت پائی جاتی ہے۔ والدین میں سے سات فی صد نے ٹی وی پر دکھائے جانے والے جارحانہ اور جنگی ویڈیوز کو بھی بچوں میں جارحیت کی ایک وجہ گردانا جب کہ گیارہ فی صد نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ان کے بچوں میں جارحیت رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی مار کٹائی اور جسمانی سزاؤں کی وجہ سے نفوذ کرگئی ہے۔ ستر فی صد والدین نے شکایت کی ہے کہ انھیں اس قسم کی ذہنی اور جذباتی عدم توازن سے نکلنے میں کسی بھی قسم کی کوئی مدد و اعانت فراہم نہیں کی گئی ہے۔
غزہ کمیونٹی کے ذہنی مرکزِ صحت نے دس سالوں پر محیط ایک ریسرچ میں ثابت کیا ہے کہ بچوں میں جنگ کے دوران میں ذہنی بگاڑ اور جذباتی صدموں کے پیدا کرنے میں موٹے موٹے اسباب یہ ہیں:
1: جنازوں اور تابوتوں کو دیکھنا۔
2: اجنبی یا رشتہ داروں کی لاشوں کودیکھنا۔
3: زخمیوں کو دیکھنا۔
ان متاثرہ بچوں میں بچیوں کی تعداد نسبتاً زیادہ تھی۔ افغانستان میں ذہنی صحت معلوم کرنے والے ایک ریسرچ کے مطابق 80 فی صد آبادی ذہنی تناؤ کا شکار ہے۔ جن میں اکثریت خواتین کی ہے۔ اس ریسرچ میں یہ بتایا گیا ہے کہ جنگوں میں سب سے زیادہ ذہنی اور جذباتی صدموں سے دوچار ہونے والے افراد میں خواتین اور بچے ہی متاثر ہوتے ہیں۔ خصوصاً وہ خواتین جو حاملہ ہوتی ہیں، ان کے لیے جنگ جان لیوا پیچیدگیاں لاتی ہے۔

افغانستان میں ذہنی صحت معلوم کرنے والے ایک ریسرچ کے مطابق 80 فی صد آبادی ذہنی تناؤ کا شکار ہے۔

بہرحال، اس ریسرچ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ معاشرتی سپورٹ اور روایتی دایوں نے ماؤں کے ذہنی صدموں کو کم کرنے میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔ اور یہ کہ خواتین تشدد کے باوجود اپنے آپ کو زیادہ متحمل اور لچک دار ثابت کرچکی ہیں۔
سوات بھی ایک خوں ریز جنگی صورتحال سے نکلا ہے۔ ظاہر ہے کہ توپوں کی گھن گرج، لاشوں کی بھرمار اور دوسری جنگی حکمت عملیوں کی زد میں آکر یہاں کے بچے، خواتین اور دیگر افراد ذہنی اور جذباتی صدموں (Traumas) کا شکار ہوئے ہوں گے جن میں تعلیمی ادھوراپن تو کئی سال تک طلبہ کے تعلیمی سلسلے میں رکاوٹ بنا رہا، یعنی جنگ کے اُن دو تین سالوں کے خلا کی وجہ سے بچوں کی تعلیمی زنجیر کی کڑیاں بیچ میں  سے اُتر گئی تھیں جسے اب بھی بچوں کی نصاب میں کم فہمی کی صورت میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاہ ذہنی خوف، احساسِ محرومی اور ماضی کی تلخ یادوں کا بار بار ستانا سرفہرست ہیں۔ ان مسائل پر ابھی تک ہمارے تعلیمی اداروں اور صحافت کے شعبوں نے کوئی کام نہیں کیا ہے۔ ان اداروں کا کم ازکم یہ فرض تو بنتا ہے کہ وہ سوات کے ایسے متاثرہ افراد کا ڈیٹا جمع کریں، تاکہ حکومتی اداروں، کسی بھی این جی او یا کسی بھی فرد کی مدد سے ایسے لوگوں کی مدد کی جائے۔ سوات کی اس حسین وادی میں جگہ جگہ تفریح گاہیں قائم کی جائیں، لوگوں میں ریڈیو، ٹی وی اور سیمینارز کے ذریعے آگہی پیدا کی جائے۔ سوات میں سرکاری ہسپتالوں میں سائیکالوجسٹ کا خاص اس مقصد کے لیے تعین کیا جائے۔

…………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔