’’وہ واقعی پرواز کرگئی‘‘ (جوابِ آں غزل)

Blogger Sajid Aman

ملالہ یوسف زئی کے حوالے سے علی ہلال کی تحریر پڑھ کر افسوس ہوا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے دماغ میں ڈھیر ساری غلط فہمیوں، فرسودہ روایات، محرومیوں اور نفرتوں کو جمع کرتے جاتے ہیں۔ ایسا ہر ’’کنٹرولڈ سوسائٹی‘‘ میں ہوتا ہے، جس میں انسان اعتماد کھو دیتا ہے اور ہر کسی پر شک کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ’’کنٹرولڈ سوسائٹی‘‘ میں انسان اپنے آپ سے لڑتا رہتا ہے اور کسی دن سارا غصہ کسی اور پر نکال دیتا ہے۔ یہ احساس کیے بغیر کہ وہ غلط فہمیاں، محرومیاں، جعلی روایات اور نفرتیں ہمارے ذہنوں میں گل سڑ کر انتہائی بدبودار ہوچکی ہوتی ہیں۔ ذہنوں کو تو تعفن زدہ کیا گیا ہوتا ہے، مگر اس کا رنگ سیاہ ہوکر ذہن پر پردہ ڈال دیتا ہے…… اور پھر یہی سیاہ پردہ ہم ہر خوب صورت شے پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ساجد امان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/saj/
ملالہ یوسف زئی کو مہذب دنیا میں پذیرائی ملی۔ کیوں کہ وہاں کتاب ہے، شعور ہے، ترقی ہے، انسانی اقدار اور اُصولوں کی بات ہے، جب کہ ہمارے ہاں روایات نے علم دشمنی ایسی راسخ کر دی ہے کہ جو علم مل رہا ہے، اُس کا بھانڈا سکول داخلے کے وقت بچے سے چند سوالات پوچھتے وقت پھوٹ ہوجاتا ہے، کہ بیٹا! بڑے ہوکر کیا بنوگے…… ڈاکٹر، انجینئر یا پائلٹ؟ کیوں کہ وہ زیادہ پیسے کماتے ہیں اور مستقبل بھی محفوظ ہے۔
اس طرح اگر دینی تعلیم ہو، تو پوچھا جاتا ہے: بیٹا کیا بنوگے…… حافظِ قرآن، چالیس افراد جن پر دوزخ واجب ہو، اللہ کے مجرم ہوں، کیا بشارت کرکے انھیں جنت لے جانا پسند نہیں کروگے؟
کوئی بچے کو یہ نہیں سکھاتا کہ علم شخصیت کی تکمیل کرتا ہے، سوچنے سمجھنے اور سوال کرنے کی طاقت دیتا ہے۔ علم جہالت سے بچاو کا ہتھیار ہے۔ بس یہی وجہ ہے کہ نصابِ تعلیم بھی علم کی جگہ وسیلۂ روزگار کی بنیاد پر وضع ہوتا ہے۔ فرسٹ آنے کی دوڑیں لگتی ہیں۔ بچے پاس اور فیل ہوتے ہیں۔
اب ستم یہ ہے کہ کوئی بھی یہ سوال نہیں اُٹھاتا کہ ایک بچہ جو کسی استاد یا ادارے میں ایک سال پڑھتا رہا اور کامیاب نہیں ہوا، تو یہ کس کی ناکامی ہے؟
اگر کسی کلاس میں ایک کم زور بچہ ناکام ہوتا ہے، تو یہ اُستاد، سکول، ادارے بل کہ پورے نظامِ تعلیم کے منھ پر تمانچہ ہے، جس میں اتنی طاقت اور اہلیت نہیں تھی کہ پورے ایک سال میں ایک بچے کو اِس لائق نہیں بنایا جاسکا کہ وہ اُس کورس کو سمجھ سکے، جس کو وہ پڑھ رہا تھا۔ اب ایسے ماحول میں ایسے نظامِ تعلیم میں لکھنا، پڑھنا تو آجاتا ہے، مگر زندگی گزارنے کا سلیقہ مفقود ہی ہوتا ہے۔
کوشش کی جائے تو ایک توتا، مینا، کوا بھی بولنے لگتا ہے، مگر مذکورہ پرندوں کو نہیں پتا ہوتا کہ لفظ کیا ہوتے ہیں، ان کے معنی کیا ہوتے ہیں، ان کی چبھن کیا ہوتی ہے؟
مغرب، جس کو باقی ماندہ دنیا ’’مہذب دنیا‘‘ کہنے پر مجبور ہے، اُس نے اپنے نظام تعلیم کو ٹھیک کیا۔ جس سے سوچنے سمجھنے اور ردِ عمل دینے کا سلیقے آیا۔ یوں اُنھوں نے ترقی کی۔ ہمارے ہاں یک طرفہ بیانیہ چلتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ فُلاں نے لکھا ہے کہ محمد بن قاسم ایک ہیرو تھے۔ اُنھوں نے قیدی خواتین کی مدد کے لیے ہندوستان پر حملہ کیا اور یوں اسلام یہاں پہنچا۔ مسلمانوں نے یہاں اسلامی حکومت قائم کی اور ڈھیر سارے لوگ دائرۂ اسلام میں داخل کیے۔
دیگر متعلقہ مضامین:
وہ تو واقعی پرواز کرگئی 
اب کی بار ملالہ کو لعن طعن کی تُک نہیں بنتی  
حامد میر غدار ہے، نہ ملالہ کافر  
ملالہ خود مسئلہ ہے یا اُس کا بیان……….؟ 
ملالہ یوسف زئی اور مبالغے مغالطے  
اگلے صفحات پر لکھا ہوتا ہے کہ فُلاں نے لکھا ہے کہ عرب ایک عرصے سے ہندوستان کی دولت، زرخیزی اور موافق موسم پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ عرب ایک عرصے سے کاروبار کر رہے تھے اور بحری راستوں سے آنا جانا جاری تھا۔ حجاج بن یوسف سے رہا نہ گیا اور اپنے خاندان کے فرزند کی سربراہی میں ہندوستان پر چڑھائی کردی۔ یہ برصغیر میں ’’اولین ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ کی ابتدا تھی، جس کے کئی سالوں بعد انگریزوں نے ’’دوسری ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ بنائی اور ہندوستان کی دولت پر قابض ہوئے۔
اب بچہ دو متضاد بیانیوں کو پڑھ کر سوچے گا، تحقیق پر مائل ہوگا، مکالمہ کرے گا اور کسی طرف نکل جائے گا۔ اچنبھے کی بات نہیں کہ مغربی معاشرے میں رہنے والے ایک بچے اور بڑے کا ذہن کیسا ہوگا اور ہمارے سسٹم میں پھنسے ہوئے شخص کی رائے کیا ہوگی؟
ایک بیانیہ جو بنا دیا جائے، مثال کے طور پر صدر زرداری اور امریکی صدر جو بائیڈن کے درمیان ون ٹو ون ’’ان کیمرہ‘‘ بات چیت ہوئی۔ اب ظاہر ہے یہ یہ دونوں ہی بتا سکتے ہیں کہ کیا بات ہوئی ہوگی؟ مگر ہم یہ خبر سن کر بتاسکتے ہیں کہ کیا کیا بحث ہوئی ہوگی، کیا کیا فراڈ بنائے گئے ہوں گے، امتِ مسلمہ کے خلاف کیا کیا سازشیں ہوئی ہوں گی، پاک فوج کے خلاف کیا منصوبہ بنا ہوگا، انڈیا کی حاکمیت قبول کرنے پر کیسے مجبور کرنے کی بات ہوئی ہوگی، و علیٰ ہذا القیاس۔
ملالہ یوسف زئی نے کیا کیا…… اُس پر کیا گزری…… یہ کتنا اہم ہے! اُس کو بین الاقوامی عزت ملی، اُس پر ہی کوئی تبصرہ کرے!
خود یہاں سوات میں رہتے ہوئے ہمارے ساتھ کیا کیا نہ ہوا؟ مئی 2009ء میں کس طرح اور کیوں ہمیں کیمپوں میں جانوروں کی طرح ہانکا گیا۔ اُس سے پیچھے جائیں، ابھی ہمارے بچپن میں ہمارے بزرگ سارے بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے تھے، مزاروں پر جانا لازم تھا، شادی بیاہ، بیماری میں کوئی سپیشلسٹ مزار یا بزرگ ہی کام آتا تھا، جمعے کی شام منائی جاتی تھی، قبروں پر مردہ دفناتے وقت صابن کی ٹکیا بانٹی جاتی تھی کہ مردے کا کوئی حق ہو تو ادا ہو، ’’یا اللہ، یا رسول‘‘ ہمارے ہاں بھی رائج تھا۔ اس طرح کی دیگر رسمیں بھی تھیں۔ کس طرح 70ء کی دہائی میں ہمارا مسلک بریلوی سے دیوبندی میں تبدیل کیا گیا۔ 80ء کی دہائی میں بریلوی مسلک پر شدید تحفظات اور تنقید ہوتی تھی۔ اس کے بعد ہم ’’جہادی‘‘ ہوگئے یا کرایا گیا۔
کیا اس تبدیلی کا کوئی سماجی، معاشرتی، ثقافتی یا سائنسی تجزیہ کیا گیا؟ کیا سوچا تک گیا بل کہ مَیں پوچھتا ہوں کہ محسوس ہی کیا گیا کہ نہیں؟ ملالہ یوسف زئی کے بعد ضیاء الدین یوسف زئی یورپ پہنچے۔ یورپ سے اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی نیویارک کا سفر محض ایک زخم کھانے سے طے نہیں ہوا۔ اقوامِ متحدہ سے ’’ملالہ فنڈ‘‘ کے قیام تک کا سفر اور دنیا بھر میں بچوں کی بہبود کے لیے کام، آواز، دلائل ضیاء الدین نے نہیں دیے۔ ضیاء الدین نے ملالہ کے پَر نہیں کاٹے۔ کسی کو بھی اپنی بچی کے پَر نہیں کاٹنے چاہئیں۔ ملالہ یوسف زئی پوری دنیا میں مجبور، بے آسرا، جنگ زدہ بچوں اور خصوصاً عوام کی ہیرو ہے۔ اُس کی آواز پر اقوامِ عالم کھڑی ہوجاتی ہیں۔ اب وہ اپنے پیغام کے ساتھ ہوا کے دوش پر سوار ہے، اب وہ موبائل کے ذریعے ہر گھر میں سنی جاتی ہے۔
اَب ہم جیسوں کی دوڑ محلہ بنڑ تک ہی ہے۔ کیوں کہ ہم پَر جو کاٹنے والے ہیں۔ ہمیں اپنی بچیوں کی پرواز سے نفرت ہے۔ واقعی ملالہ بنڑ میں ہوتی، اگر ضیاء الدین نے اُس کے پَر کاٹے ہوتے۔ اگر مہذب دنیا میں کتاب نے سمجھ بوجھ نہ دی ہوتی، تو یقینا وہ بنڑ میں بھی بہتر ہی ہوتی۔
ہم نے فن اور فن کار کی کیا حالت کردی ہے۔ ثقافت کو لادینی اور فن کار کو کافر گردان دیا ہے۔بنڑ، جس نے ثقافت، فن اور موسیقی کی آب یاری کی، ہم اُس خطۂ زمین کو حقارت سے دیکھتے ہیں۔ وہ گند جو ہمارے اندر اٹا پڑا ہے، بنڑ اور اہلِ بنڑ پر اُگلنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔
ہم خصوصی معاشرہ ہیں۔ ہمیں اجازت ہے کہ ہم کوئی بھی بیانیہ بناکر خود کو مطمئن کرلیں، مگر جس نے محمد بن قاسم کے بارے میں ہر بیانیہ پڑھا ہو، وہ خصوصی یا معذور معاشرہ نہیں۔ اُس معاشرے کے باسی کی بات میں وزن ہوگا۔ اُس کی دلیل آخری اور امر ہوگی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے