ملالہ یوسف زئی اور مبالغے مغالطے

Doctor Sultan e Rome

(نوٹ:۔ 16 ستمبر 2012ء کو www.zamaswat.com اور 28 تا 18 ستمبر 2012ء کو ’’روزنامہ آزادی سوات‘‘ میں شائع شدہ مضمون مدون شدہ شکل میں)
بیشتر قارئین جانتے ہیں کہ 25 اگست 2012ء کو ویب سائٹ’’ زما سوات ڈاٹ کام‘‘ پر میرا کالم بعنوان ’’المیۂ سوات اور ایوارڈز‘‘ دو حصوں میں ایک ساتھ شائع ہوا۔ یہ کالم روزنامہ چاند سوات کے 27 اگست 2012ء کے شمارے میں ایک قسط جب کہ روزنامہ آزادی سوات میں 27 اور 28 اگست2012ء کو دو اقساط میں شائع ہوا۔ اس کالم کو جتنی پذیرائی قارئین کرام کی جانب سے ملی، یقینا وہ حوصلہ افزا ہے۔ ڈھیر سارے لوگوں نے موبائل کے متنی پیغامات، ٹیلی فون کالز اور ای میلز کے ذریعے اندرون اور بیرونِ ملک سے اپنے جذبات و تأثرات کا اظہار راقم سے نہ صرف براہِ راست رابطہ کرکے کیا بلکہ داد بھی دی اوراس مضمون کو اپنے دل کی آواز بھی قرار دیا۔ ڈھیر سارے قارئین نے روزنامہ آزادی سوات اور ویب سائٹ زما سوات ڈاٹ کام کے مدیروں کی وساطت سے اپنے جذبات و تأثرات پہنچانے کی کوشش کی۔ کچھ قارئین نے سرِراہ مل کر براہِ راست جب کہ بعض نے ویب سائٹ زما سوات ڈاٹ کام پر اپنے تأثرات کا اظہار کیا۔ ایسے بھی ڈھیرسارے افراد ہیں جو ضیاء الدین یوسف زئی اور ملالہ یوسف زئی کے ساتھ مروت نبھاتے ہوئے تحریری شکل میں اپنے دلی جذبات و تأثرات کا اظہار نہیں کرسکے، پس وہ ٹیلی فون کالز، فون میسجز، پیغامات یا دوسرے وسیلوں سے کسی نہ کسی طرح اپنے دلی جذبات اور کالم پر مسرت کا اظہار، داد سمیت مجھ تک پہنچاتے رہے۔
ایک طرف اگر مذکورہ قارئین اپنے جذبات اور احساسات مجھ تک یا قلم کے ذریعے لکھ کر قارئین تک پہنچاتے رہے، تو دوسری طرف چند ایک ایسے قارئین بھی تھے جن کے جذبات اور احساسات کو اس کالم سے ٹھیس بھی پہنچا۔ اُن میں سے اگر چہ کسی نے بھی زبانی یا فون کے ذریعے مجھے اپنے جذبات اور احساسات کو ٹھیس پہنچنے کا گلہ یا شکوہ نہیں کیا، تاہم چند ایک قارئین نے تحریری یا اخباری بیان یا ویب سائٹ زما سوات ڈاٹ کام پر میرے کالم اور اس کے جواب میں لکھے گئے ایک برخوردار کالم نگار کے نام سے شائع شدہ کالم پر اپنے تبصروں اور تأثرات کے ذریعے ضرور لب کشائی کی۔ یہ کالم تحریر کرتے وقت (یعنی یکم ستمبر تا 7 ستمبر 2012ء) اس قسم کے قارئین؍ لکھنے والوں کے تحریروں کو مدِ نظر رکھ کر تحریر کیا گیا ہے۔
برخوردار جوابی کالم نگار نے اپنی جوابی کالم (شائع شدہ ویب سائٹ زما سوات ڈاٹ کام 30 اگست، روزنامہ آزادی 31 اگست اور یکم ستمبر 2012ء)، جب کہ دیگر قارئین؍ لکھنے والے صاحبان نے اپنے احساسات اور خیالات کا اظہار اخباری بیانات اور ویب سائٹ زما سوات ڈاٹ کام پراپنے تأثرات اور تبصروں کے ذریعے کیا ہے۔ جب کہ برخوردار احسان الحق حقانی نے روزنامہ آزادی سوات کے یکم ستمبر 2012ء کے شمارہ میں اپنے کالم کے ذریعے اپنے تأثرات و مشاہدات اور احساسات صفحہ قرطاس پر نقش کیے ہیں۔ راقم کا یہ کالم مذکور ہ بالا تحریری مباحث کے تناظر میں ہے۔ لہٰذا اس کے بعد شائع ہونے والے کسی مضمون، کالم اور بیان وغیرہ کاجواب اس میں شامل نہیں۔
مذکورہ تحریری مباحث کے نفسِ مضمون کے ضمن میں اپنے معروضات رقم کرنے سے قبل اس بات کا تذکرہ لازمی ہے کہ بہت سارے افراد ایسے ہیں جنھوں نے اگرچہ میری کاوش کو بہت سراہا لیکن ساتھ ساتھ اپنے طور پر بعض نام یاد کرکے یہ شکوہ بھی کیا کہ اُن کا ذکر نہ کرنا قرینِ قیاس نہیں ہے۔ ایسے تمام صاحبان سے مَیں متفق ہوں، تاہم ایک کالم (اور وہ بھی اخباری) میں اُن تمام افراد کے نام لکھنا جو کسی نہ کسی پہلو یا حوالے سے کوئی نہ کوئی کارنامہ انجام دے چکے ہیں، ممکن نہیں۔ اس لیے کہ ایسے افراد کی تعداد درجنوں یا سیکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہے۔ البتہ دو کیس بصورتِ استثنا یہاں لکھنا ضروری ہیں۔ وہ اس لیے کہ جوں ہی میرا کالم میرے ہاتھ سے اشاعت کے واسطے نکلا، اُس وقت مجھے یہ کیس یا د آئے۔ لہٰذا مذکورہ کیس کالم میں شامل ہونے سے رہ گئے تھے۔ ان دو شخصیات میں مام ڈھیریٔ کا بخت بیدار اور ان کا چچا زاد بھائی غفور الرحمان ہیں جنھوں نے مام ڈھیریٔ میں رہتے ہوئے ابتدا ہی سے مزاحمت اور مقابلہ کی آخر تک جرأت کی (حتیٰ کہ مام ڈھیریٔ ہی میں پولیس کو پناہ بھی دی اور انھیں بحفاظت وہاں سے نکال کر پولیس چوکی کانجو پہنچایا) جس میں بخت بیدار جان کا نذرانہ پیش کرگیا اور دوسرا خوازہ خیلہ پولیس اسٹیشن میں متعین ایس ایچ اُو عمر فاروق خان اور اس کے ساتھ متعین سپاہی جو متعدد بار ڈٹ کر طالبان کے خلاف لڑے اور اُن کے حملوں کو پسپا کردیا۔ (واضح رہے کہ عمر فاروق خان بعد میں مینگورہ میں تاک شدہ قتل کا نشانہ بنایا گیا۔)
دوسری بات یہ کہ راقم نے اس المیہ کے صرف دو پہلوؤں کے متعلق بات کی ہے اور صرف اُن کے متعلقہ حوالے سے چند افراد کے نام لکھے ہیں جس کے ضمن میں کئی دفعہ یہ اعتراف کیا ہے کہ یہ ’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ کے مصداق ہیں، یعنی گھوڑا یا گدھا اناج کا جتنا بوجھ اُٹھالے جاتاہے، اُس میں سے مٹھی برابر یعنی نمونہ اور مثال کے طور پر۔ چونکہ ’’المیۂ سوات‘‘ میں مختلف حوالوں اور مختلف پہلوؤں سے بہت سارے لوگوں نے اپنے اپنے طورپر مختلف کردار ادا کیے ہیں، لہٰذا اب بھی اگر لوگوں کے بتائے ہوئے یا نمایاں کیے ہوئے نام لکھتا ہوں، تو ہزاروں دیگر افراد کی شکایت باقی رہے گی کہ فلاں فلاں کانام نہیں لکھا۔ المیۂ سوات کے وقت مختلف میدانِ عمل میں خدمات اور کارنامے سر انجام دینے والوں کے سب نام مختلف ذرائع سے اکٹھے کیے جاسکتے ہیں اور اکٹھے کیے جانے چاہئیں۔ یہاں پر اس پشتو ٹپہ پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
کہ یو یادوم دَبل گیلہ شی
زمونگ دَچم ھلکان ٹول دی زیڑ گلونہ
مطلب یہ ہے کہ اگر ایک کی تعریف و توصیف کرتا/ کرتی ہوں تو دوسرا شکوہ کرتا ہے۔ اس لیے اکتفا اسی پر ہے کہ ہمارے محلہ کے سارے نوجوان قابلِ ستایش پھول ہیں۔
جہاں تک میرے مذکورہ کالم سے متعلق مذکورہ بالا مباحثی تحریروں کی نوعیت اور وقعت کا تعلق ہے، تو اُن میں بعض نکات مشترک ہیں جب کہ بعض مختلف۔ میری کوشش ہے کہ جتنا ہوسکے اختصار سے کام لیا جائے اور جو نکات مشترک ہیں،اُن کی وضاحت و تشریح ایک جگہ ہوجائے۔ تاہم علاحدہ علاحدہ یا ایک دوسرے سے مختلف مباحثی صورتوں، نکات اور اعتراضات کے ضمن میں علاحدہ وضاحتیں اور تشریحات پیش کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔ اس وجہ سے شاید یہ مضمون طویل ہو جائے لیکن اختصار کی خاطر یہ ’’مبالغے اور مغالطے‘‘ ختم نہ کرنا دانش مندی ہرگز نہیں۔
اس مضمون کے عنوان کے آخری الفاظ سبحانی جوہرؔ صاحب کے کالم مشمولہ ویب سائٹ زما سوات ڈاٹ کام مورخہ 27 اگست 2012ء سے لیے گئے ہیں۔ اس طرح سبحانی جوہرؔ صاحب کے مذکورہ مضمون کے یہ الفاظ کہ ’’مبالغے او مغالطے بہرحال حقیقت نہیں ہوتے، یہ کتنے رنگین کیوں نہ ہوں، اس کا عصر حیات کتنا طویل کیوں نہ ہو، ایک نہ ایک دن اس کا پردہ چاک ہو جاتاہے اور شعور کی رو میں بہہ جاتے ہیں‘‘ بھی قارئین کے سامنے لانا ضروری سمجھتا ہوں۔ واضح رہے کہ موصوف نے اپنے مضمون میں انوکھے اُسلوب اور دل نشین انداز میں نہ صرف مبالغوں اور مغالطوں پر سیر حاصل گفتگو کی ہے، بلکہ یہ حقیقت بھی واضح کی ہے کہ مبالغوں کی زندگی دیرپا اور دائمی نہیں ہوتی۔ آخرکار اُن کو شعور کی رو میں بہہ جانا پڑتا ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جب مبالغے اور مغالطے عقیدت اور عقیدہ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، تو پھر اُن کا اذہان و قلوب سے نکلنا اور شعور کی رو میں بہہ جانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ قرآنِ کریم کی سورۂ یاسین کی آیت 75 میں ذکر شدہ صورتِ حال کے مصداق یعنی جن لوگوں کے اذہان اور قلوب میں یہ مبالغے اور مغالطے جن افراد یا چیزوں کے بارے میں رچ بس جاتے ہیں اور عقیدت اور عقیدہ کی شکل اختیار کرلیتے ہیں، تو باوجود اس کے کہ وہ افراد یا چیزیں خود اپنے دفاع کی پوزیشن میں نہیں ہوتیں، جن قلوب و اذہان میں یہ مبالغے اور مغالطے معتقدات اور عقائدکی جگہ بنالیتے ہیں، وہ ان کے دفاع میں ایک فوج کی مانند حاضرِ خدمت ہوجاتے ہیں اور بالکل یہی صورتِ حال موضوع زیرِ بحث کے ضمن میں بھی ہے۔
قارئینِ کرام! ایک بار پھر راقم کا کالم ’’المیۂ سوات اور ایوارڈز‘‘ کو بنظرِ غائر پڑھیں۔ راقم نے صرف دو نکات زیرِ بحث لاکر خود کو اُن تک محدود رکھنے کی شعوری کوشش کی ہے۔ یہ دو نکات ’’تمغۂ شجاعت‘‘ اور ’’ستارۂ امتیاز‘‘ کے ایوارڈز/ اعزازات کے حوالے سے ہیں۔ چونکہ ’’تمغۂ شجاعت‘‘ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، کسی فرد کے غیر معمولی یا اعلیٰ شجاعتی کارنامہ کے اعتراف اور احترام کے طور پر جب کہ ’’ستارۂ امتیاز‘‘ کسی خاص میدان میں امتیازی کارکردگی کے اعتراف اور احترام کے طور پر عطا کیا جاتاہے۔ جیسا کہ میرے کالم ’’المیۂ سوات اور ایوارڈز‘‘ سے ظاہر ہے کہ اس میں المیۂ سوات کے تناظر میں ان افراد (افضل خان لالا، ملالہ یوسف زئی، ڈاکٹر لعل نور آفریدی اور ڈاکٹر تاج محمد خان) کے کردار کا اس خاص پہلو سے تجزیہ کیا گیا ہے۔ لہٰذا نہ تو راقم نے ان افراد کی زندگی کے دوسرے پہلو سے بحث کی ہے اور نہ ان کے علاوہ کسی اور فرد کا نام لیا ہے۔ حتیٰ کہ ملالہ یوسف زئی کے والد ضیاء الدین کے نام اور کردار کو شعوری طور پر راقم نے نہیں چھیڑا۔
لیکن قارئین راقم کے کالم کے جواب یا تناظر میں لکھے گئے مذکورہ افراد کی تحریروں کو (خواہ محولہ اخبار میں شائع ہوئی ہیں یا ویب سائٹ پر) ایک بار پھر غور اور باریک بینی سے پڑھیں، تاکہ انھیں معلوم ہوسکے کہ انھوں نے نہ صرف ضیاء الدین کو غیر ضروری طور پر بیچ میں لاکر اُن کے کردار پر بحث کی ہے، بلکہ بعض دوسرے افراد کو بھی۔ مشہور کہاوت ہے کہ ’’بے وقوف دوست سے دانا دشمن بہتر ہے‘‘، اس لیے کہ دانا دشمن اگر نقصان پہنچاتا بھی ہے، تو موقع اور محل کو دیکھ کر جب کہ بے وقوف دوست موقع و محل دیکھے بغیر ہر وقت خفت اور شرمندگی کا باعث بنتا ہے۔ یہ کہاوت ضیاء الدین کے مداحوں پر بھی صادق آتی ہے۔ لہٰذا اَب مجبوراً ملالہ کے ساتھ ساتھ اس کے والد ضیاء الدین اور دوسرے مذکورہ افراد کے ضمن میں پائے جانے والے مبالغوں اور مغالطوں کا گورکھ دھندا سلجھانا پڑے گا۔ تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ اُمید ہے قارئین طوالت سے نہیں اُکتائیں گے۔ اس لیے کہ یہ طوالت حصہ بقدرِ جثہ کے مصداق متعلقہ باتوں، نکات اور شبہات کی وضاحت کے تناظر میں گراں ہر گز نہیں۔
راقم روزنامہ آزادی سوات کے یکم ستمبر 2012ء کے شمارہ میں برخوردار احسان الحق حقانی کے شائع شدہ مضمون کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ان کی اس بات کو بھی سراہتا ہے کہ اپنے مشاہدہ کی بنیاد پر اپنے دلائل اور مؤقف کو پیش کرتے ہیں جو کہ ان کی علمیت کا ثبوت ہے۔ تاہم جس طرح وہ بجا طور پر اپنے مشاہدات کی بنیاد اور دلائل کے بل بوتے پر اپنے مؤقف کو پیش کرتے ہیں اور ضیاء الدین یوسف زئی اور ملالہ کے ضمن میں راقم کے مؤقف سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ایسے ہی اختلاف کو راقم کا حق بھی تسلیم کرے گا۔ شاید یہ مباحثہ ان کا اپنے موجودہ مؤقف کا از سر نو جائزہ لینے کا سبب اور پیش خیمہ ثابت ہوجائے۔ آئندہ صفحات میں ان کے دو تین نکات دوسرے افراد کے ہم راہ زیرِ بحث آئیں گے۔
روزنامہ آزادی کے 30 اگست 2012ء میں تحصیل رپورٹر کبل کی رپورٹ کے مطابق ایک محترم نے میرے کالم پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اور ملالہ یوسف زئی اور افضل خان لالا کی وکالت کی کوشش کی ہے۔ اُنھوں نے یاد دہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ ’’خان لالا کو ملنے والا ایوارڈ شخصیات یا کسی مخصوص ادارے نے نہیں بلکہ خیبر پختونخوا کے منتخب ممبران اسمبلی کی متفقہ قرار داد کے نتیجے میں ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کے منتخب صدر نے ایک پروقار تقریب میں دیا۔‘‘
اگر یہ محترم راقم کے کالم کے نفسِ مضمون کو سمجھ پاتے، تو وہ کبھی ایسی باتیں نہ کرتے۔ یہی تو وہ بنیادی نکتہ ہے کہ جس پر راقم نے قلم اُٹھایا ہے۔ اگر یہ ایوارڈ کسی شخص یا مخصوص ادارے کی ذاتی جیب سے عطا کیا گیا ہوتا، تو کوئی بات نہیں تھی۔ اصل بات تو یہ ہے کہ یہ ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کے منتخب صدر نے منتخب ممبرانِ اسمبلی کی متفقہ قرار داد کے نتیجہ میں عطا کیا ہے۔ اس لیے پاکستان کے ہر شہری کو حق حاصل ہے کہ وہ اس کے جواز پر اپنے تحفظات کا اظہار کرے اور اس بنیاد کی حقیقت معلوم کرے اور پوچھے کہ ایسا کس بنیاد پر اور کیوں ہوا؟ نہ صرف خان لالا کے لیے بلکہ ملالہ کے لیے ایوارڈ کی سفارش کی خاطر رکن صوبائی اسمبلی جعفر شاہ نے 26 نومبر 2011ء کو صوبائی اسمبلی میں قرار داد جمع کی تھی (روزنامہ آزادی، 27 نومبر 2011ء)۔ اگر ایوارڈز قرار دادوں پر دیے جاتے ہیں یا صوبائی اسمبلی کی قرار داد اس کو تقدس بخشتی ہیں، تو پھر تو خیبر پختونخوا کی اسمبلی نے ایک سے زیادہ بار صوبے کا نام صرف ’’پختو نخوا‘‘ رکھنے کی قرار داد پاس کی تھی۔ اُس کی پاس داری کیوں نہیں کی گئی؟ علاوہ ازیں صوبائی اسمبلی کی قرار دادوں پر بھی ہر شہری کو نظر رکھنے اور تنقید کرنے کا حق حاصل ہے۔
جیسا کہ پہلے واضح کیا گیا ہے کہ ہم نے افضل خان لالا اور ملالہ کی زندگی کے کسی دوسرے پہلو یا کام کو نہیں چھیڑا جب کہ محترم نے ان کے بارے میں اپنے ذخار خیالات قارئین کے سامنے پیش کیے ہیں۔ اگر وہ واقعی اے این پی سوات کے نائب صدر ہیں، تو پھر انھیں یہ زیب نہیں دیتا کہ ہر بات میں ٹانگ اڑائیں۔ انھیں سنجیدہ رویہ اپنانا چاہیے۔ کیا اے این پی میں دوسرے عہدے دار نہیں اور جناب ان سے کوئی سبق نہیں سیکھتے؟ خان لالا کے دوسرے کارناموں، جن کا اسی محترم نے ذکر کیا ہے، کی حیثیت کو راقم جانتا ہے لیکن چونکہ یہاں پر ان سے کوئی سروکار نہیں اور نہ راقم نے اپنے کالم میں انھیں چھیڑا ہے، اس لیے یہاں ان پر بات نہیں کی جاتی ہے۔
ایک برخوردار تبصرہ نگار نے جوابی کالم لکھنے والے برخوردار کالم نگار کے کالم پر ویب سائٹ ’’زما سوات ڈاٹ کام‘‘ پر اپنے تأثرات لکھتے ہوئے ضیاء الدین یوسف زئی اور ملالہ کے کردار کو خوب سراہا ہے۔ انھوں نے سوات سے بہت سے خوانین کے بھاگنے اور اہلِ سوات کو اللہ کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا بھی ذکر کیا ہے۔ کیا ایک بے باک صحافی کا کردار ادا کرتے ہوئے برخوردار یہ بھی بتاسکیں گے کہ یہ خوانین کب اور کیوں بھاگے اور کس پاکستانی یا بین الاقوامی قانون کے تحت اہلِ سوات کی حفاظت اور تحفظ ان خوانین کی ذمہ داری تھی؟ اگر یہ خوانین اور سوات کے باسی، سوات کے باشندے اور پاکستان کے شہری تھے، تو ان کے لیے ان کے گھروں میں محفوظ رہایش کو یقینی بنانا اور ان کو تحفظ فراہم کرنا کس کی ذمہ داری تھی؟ آیا یہ ذمہ داری ان خوانین اور سوات کے باشندوں کی ذات پر لازمی تھی یا محافظین ملک وقوم پر؟ خاص طور پر اکتوبر 2007ء کے آخر کے بعد سے جب سوات میں فوجی آپریشن شروع ہوا اور مکمل اختیارات پاکستان کے سکیورٹی فورسزکے پاس آئے۔ کیا وہ بتاسکیں گے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں سکیورٹی فورسز اور سکیورٹی اداروں کے ہوتے ہوئے شہری خود اپنی حفاظت کرتے ہیں اور باغیوں کے خلاف لڑتے ہیں؟
روزنامہ آزادی یکم ستمبر 2012ء کے شمارہ میں گلوبل پیس کونسل کے سیکرٹری اطلاعات اور کمیونٹی ڈیویلپمنٹ کونسل کے صدر ہونے کے دعوے دار ایک صاحب نے بھی ضیاء الدین یوسف زئی اور ملالہ یوسف زئی کے حق میں خامہ فرسائی کی ہے۔ ظاہری بات ہے کہ گلوبل پیس کونسل جس کے ضیاء الدین چیئرمین ہیں کا سیکرٹری اطلاعات تو ایسا ہی بیان دے سکتا ہے۔ تاہم غور طلب بات یہ ہے کہ پہلی بار یہ بات منظرِ عام پر آئی کہ گلوبل پیس کونسل کا کوئی سیکرٹری اطلاعات بھی ہے۔ ابھی تک تو ’’ون مین شو‘‘ تھا اور ضیاء الدین ہی بحیثیت چیئرمین اپنی باتوں کے پھول جھڑتے تھے۔ اس صاحب کا بطور سیکرٹری اطلاعات گلوبل پیس کونسل کے بیان سے یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ گلوبل پیس کونسل کا سیکرٹری اطلاعات تو کوئی اور تھا اور پچھلے ایک سال میں کونسل کا کوئی اجلاس بھی نہیں ہوا، تو یہ سیکرٹری کس طرح تبدیل ہوئے؟ کیا کونسل کے چیئرمین ضیاء الدین نے خود مختارِ کُل کا کردار ادا کرتے ہوئے ایسا کیا ہے اور یا کونسل کے کسی اجلاس کے فیصلے کے ذریعے یہ عہدہ اسی صاحب کے پاس آیا؟ پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ جواب طلب ہے کہ سابقہ سیکرٹری اطلاعات کو کیوں اندھیرے میں رکھا گیا؟
برخوردار جوابی کالم نگار گورنمنٹ جہان زیب کالج سیدو شریف میں راقم کے اُن ہم منصب افراد میں سے ہیں جو راقم کو بہت عزیز ہیں۔ راقم کے کالم کے جواب میں سب سے پہلے ان کے نام سے کالم شائع ہوا۔ یہ ان کا بنیادی حق ہے کہ وہ راقم یا کسی بھی فرد سے اختلاف رکھیں اور اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کریں۔
انھوں نے ایک طرف ملالہ کے حق میں دلائل دیتے ہوئے تحریر کیاہے کہ ’’سوات کے ابھرتے ہوئے تجزیہ نگار اور کالم نگار امجد سحابؔ نے بھی اپنے کالم ’تورہ بہ لالا وہی، نوڑیٔ بہ عبداللہ‘ میں ملالہ یوسف زئی کے کام کا اعتراف کیا ہے۔‘‘ لیکن دوسری طرف امجد علی سحابؔ پر اس لیے برس پڑے ہیں کہ اس نے اپنے کالم میں جن لوگوں کو ایوارڈز/ اعزازات دینے کے قابل گردانتے ہوئے ان کے نام لکھے ہیں، ان میں ضیاء الدین یوسف زئی کے نام کو کیوں شامل نہیں کیا؟ وہ لکھتے ہیں: ’’امجد سحابؔ نے جن حضرات کا ذکر اپنے کالم ’تورہ بہ لالا وہی نوڑیٔ بہ عبداللہ ‘میں کیا ہے واقعی وہ لوگ سوات کے محسن ہیں اور ہم سب کو ان کے احسانات کا احساس ہونا چاہیے۔ تاہم اس فہرست میں ایک جان دار، متحرک اور مؤثر شخصیت ضیاء الدین یوسف زئی کو شامل نہیں کیا گیا ہے، جنھوں نے ہر فورم پر سوات اور سواتیوں کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ سوات کے محسنین تمام کے تمام قابل احترام ہیں، تاہم ان میں سے کسی کے کردار کو منفی نہیں کیا جاسکتا۔ کیا ضیاء الدین یوسف زئی کا کام اس قابل نہیں تھا کہ وہ بھی اس فہرست میں جگہ پاتے؟ ہوسکتا ہے، میری معلومات محدود ہیں۔ شاید سحابؔ صاحب کو یقین ہو کہ وہ بھی میڈیا کی تخلیق کردہ ایک دیو مالائی کردار ہے۔‘‘
راقم کی معلومات کی حد تک امجد علی سحابؔ نہ صرف ضیاء الدین یوسف زئی کو جانتے ہیں بلکہ دونوں میں اچھے مراسم بھی ہیں۔ نیز ضیاء الدین کی صاحبزادی ملالہ کو بھی سحابؔ خوب جانتے ہیں۔ تاہم وہ ایک حق گو انسان ہے (جس کا ثبوت ان کے کالم ہیں) اور اس وجہ سے سفید کو سفید اور سیاہ کو سیاہ کہنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ فارسی کا مقولہ ہے کہ ’’عقل مند را اشارہ کافی است‘‘ اور پشتو میں ہے کہ ’’عقل مند پہ اشارہ پو ھیگی‘‘ یعنی عقل مند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے یا وہ اشارہ ہی کو سمجھ لیتا ہے۔ برخوردار کو معلوم ہونا چاہیے کہ الفاظ کے معنی کے کئی پرت ہوتے ہیں۔ کچھ ظاہری اور کچھ پوشیدہ۔ پوشیدہ معنی سمجھنے والے ہی سمجھتے ہیں۔ لہٰذا ہم تو امجد علی سحابؔ کے کالم میں مذکورہ دونوں قسم کے طرزِ عمل سے یہی نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ضیاء الدین سے عقیدت اور تعلق کے باوجود سحابؔ نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، جو اسے سچ معلوم ہو رہا تھا، اس کے بارے میں کھل کے لکھا ہے۔ لیکن جو اسے مبالغے اور مغالطے کا نتیجہ اور میڈیا کی تخلیق کردہ دیومالائی کردار معلوم ہو رہا تھا، اس کا نام نہ لے کر اشارہ میں سمجھانے کی کوشش کی یا مافی الضمیر بیان کرکے، خوشامدی اور چاپلوسی کے چھینٹوں اور داغوں سے اپنے دامن کو بچا کر پشتو کے مشہور شاعر امیر حمزہ خان شنواری کے اس شعر کا عملی نمونہ پیش کیا ہے:
ما ٹیٹ ورتہ لیمہ کڑل زما سر نہ ٹیٹیدہ
شاید چہ پہ الفت کے ھم افغان پاتے کیدم
یعنی میں نے محبوب کی محبت میں آنکھیں جھکا تو دیں، لیکن میرا سر جھک نہیں پا رہا تھا۔ شاید کہ محبت کے معاملہ میں بھی میرا افغان ہونا برقرار رہا۔
کاش کہ برخوردار دانش مندی کا مظاہرہ کرکے اشارہ ہی سے سمجھ پاتے اور سحابؔ کی اس جرأتِ رندانہ پر اسے خراجِ تحسین پیش کرتے۔ دوسرے لفظوں میں راقم کو بھی دبے الفاظ میں نہیں، اشاروں کنایوں میں نہیں بلکہ کھلے الفاظ میں بات کرنا ہے۔ شاید وہ لوگ سمجھ گئے ہوں گے جن کا کہنا ہے کہ راقم کو اشاروں کنایوں میں بات کرنی چاہیے تھی کہ راقم نے کیوں اپنے کالم میں اشاروں کنایوں میں بات نہیں کی۔
ڈر ہے کہ ملالہ یوسف زئی کے ضمن میں امجد علی سحابؔ نے اپنے کالم ’’تورہ بہ لالا وہی، نوڑیٔ بہ عبداللہ ‘‘ میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے، وہ مبالغوں کی وجہ سے اس کا مغالطہ ثابت نہ ہوا ہو اور ملالہ سے متعلق اس کی رائے دوسرے بہت سارے افراد کی طرح تبدیل نہ ہوجائے یا تحلیل ہونے کی صورت اختیار نہ کردے؟ اس لیے کہ اس طرح کے مباحثوں میں بہت سارے مبالغے اور مغالطے نہیں بلکہ اعتقادات اور عقائد تک ہی ٹوٹ جاتے ہیں۔ شاعر کے اس قول کے مصداق:
ع دا ھغہ نظارے دی چہ توبے پہ کے ماتیگی
جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ نظارے ہیں جس میں توبے ٹوٹ جاتے ہیں۔
بہت سارے لوگ بشمول برخوردارِ مذکورہ یہ راگ الاپتے رہتے ہیں کہ’’ نیدر لینڈ کی ایک عالمی تنظیم Kids Rights نے ملالہ یوسف زئی کے کام کو جانچا اور پرکھا اور اس کو (International peace award) کے لیے پوری دنیا کی سطح پر پانچ بچوں کی فہرست میں شامل کیا۔ یاد رہے کہ ملالہ یوسف زئی پہلی پاکستانی بچی ہے جس کو اس عالمی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا اور اس سارے عمل میں حکومت پاکستان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ یہ تنظیم ہر سال پوری دنیا کے ان بچوں میں سے ایک کو ایوارڈ دیتی ہے جو بچوں کے حقوق کے لیے کام کرتے ہیں یا ان کی وکالت کرتے ہیں۔ ظاہر ہے ایک عالمی تنظیم کو غلط مندرجات اور پروپیگنڈے کی بنیاد پر گمراہ نہیں کیا جاسکتا۔ ڈرامہ یا ڈھونگ رچاکر کسی کو ایوارڈز نہیں دیے جاتے کیوں کہ عالمی تنظیموں کا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے اور کسی کام کے دعویٰ کے ساتھ ساتھ ثبوت بھی فراہم کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا ٹھیک نہیں ہے کہ ملالہ یوسف زئی یا کسی اور نے غلط مندرجات اور جھوٹے ڈرامے کے بل بوتے پر Kids Rights کو گمراہ کیا ہے۔‘‘
اس طرح کے مبالغوں سے لا محالہ اس طرح کے مغالطے ہی جنم لیں گے۔ لیکن صاحبِ نظر افراد ہمیشہ چیزوں اور ایشوز کی چھان بین کرتے ہیں، تنقیدی نگاہ سے بغور مطالعہ کرتے ہیں اور جائزہ لیتے ہیں نیز ایشوز اور معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر کوئی مبالغہ اور مغالطہ ہو تو نہ صرف اس کا شکار ہونے سے بچتے ہیں بلکہ امجد علی سحابؔ کے ایک کالم ’’ریوڑ‘‘ میں تجزیہ شدہ ریوڑ کا حصہ بننے سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں، بلکہ دوسروں کو بھی حقائق سے آگاہ کرتے ہیں تاکہ وہ بھی مبالغوں کی بنیاد پر مغالطوں کا شکار ہوکر غلط عقیدت رکھنے اور غلط عقیدہ پالنے کے مرتکب نہ ہوں۔
برخوردار محولہ بالا مندرجات میں جن نکات کو سامنے لاتے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ انٹرنیشنل پیس ایوارڈ کی نامزدگی کے ’’سارے عمل میں حکومت پاکستان کا کوئی کردار نہیں‘‘ رہا۔ کیا وہ یہ وضاحت پیش کرنا پسند کریں گے کہ اس بات کا ذکر راقم کے کالم میں کہاں پر ہے کہ نامزدگی کے اس عمل میں حکومت پاکستان کا کردار رہا ہے؟ تاہم جہاں تک ان نکات کا تعلق ہے کہ ’’ایک عالمی تنظیم کو غلط مندرجات اور پروپیگنڈہ کی بنیاد پر گمراہ نہیں کیا جاسکتا۔ ڈرامہ یا ڈھونگ رچا کر کسی کو ایوارڈ نہیں دئیے جاتے۔ کیوں کہ عالمی تنظیموں کا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے اور کسی کام کے دعویٰ کے ساتھ ساتھ ثبوت بھی فراہم کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا ٹھیک نہیں ہے کہ ملالہ یوسف زئی یا کسی اور نے غلط مندرجات اور جھوٹے ڈرامے کے بل بوتے پر Kids Rights کو گمراہ کیا ہے۔‘‘ تو کیا وہ وضاحت کرنا پسند کریں گے کہ دنیا کا اہم ترین امن کا بین الاقوامی نوبل ایوارڈ امریکہ کے صدر بارک ابامہ کو امن کی خاطر اس کی کون سے کارکردگی کی بنیاد پر دیا گیا؟ کیا نوبل انعام دینے والی بین الاقوامی تنظیم اور متعلقہ کمیٹی کا یہ فیصلہ ایک عالمی تنظیم کا تنازع فلسطین یا مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے بارک ابامہ کے اقدامات کے غلط پروپیگنڈہ مہم کا شاخسانہ نہیں؟ کیا بارک ابامہ کا امن کا نعرہ ڈھونگ یا ڈراما نہیں؟ امن کے کس ثبوت کی بنیاد پر اسے اس ایوارڈ سے نوازا گیا؟ کیا وہ وضاحت پیش کریں گے کہ کڈز رائٹس کے انٹرنیشنل پیس ایوارڈ کے لیے تنظیم کی طرف سے سوالات کے جوابات ملالہ یوسف زئی ہی دیتی رہی۔ کسی اور کا اس میں بالکل ہاتھ اور کردار نہیں رہا اور یا جو لوگ اس عمل میں شامل رہے، وہ اس ضمن میں ملالہ کے جوابات یا بیانات میں واقعی کوئی تحریفی صورت میں مدد دینے سے الگ تھلگ رہے؟
اگر برخوردار یا کوئی بھی شخص وثوق سے یہ کہہ سکے، تو اسے ماننے کے لیے غور کرنے پر سوچا جاسکتا ہے کہ ہاں ہوسکتا ہے اس طرح کا کوئی ڈھونگ نہیں رچایا گیا۔ تاہم پھر بھی اس اہم نکتہ اور سوال کا جواب اسے یا کسی اور اہلِ بصیرت کو دینا چاہیے کہ کیا وجہ تھی کہ ملالہ یوسف زئی کو اس ایوارڈ کے حصول سے محروم ہونا پڑا؟ کیا برخوردار اور ان جیسے دیگر پیرِ میخانہ کے مریدان عقیدت مند افراد میں سے کوئی اس کی مدلل صراحت پیش کرسکیں گے؟
تجسّس ختم کرنے کی خاطر ہم بتاتے ہیں۔ بارک ابامہ کی مذکورہ مثال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عالمی ادارے بھی ایوارڈز دینے میں غلطی کے مرتکب ہوسکتے ہیں یا غلط اطلاعات اور پروپیگنڈے کے بل بوتے پر وہ غلط فیصلے کرسکتے ہیں اور یا وہاں پر بھی جوڑ توڑ کا عمل دخل ہوسکتا ہے۔ جس طرح کہ برخوردار لکھتا ہے کہ بین الاقوامی ادارے پوری چھان بین کرتے ہیں، دلائل دیکھتے ہیں اور یہ کوشش کرتے ہیں کہ غلط معلومات کی بنیاد پر غلط فیصلوں سے دور رہ کر ایوارڈ غیر مستحق فرد کو نہ دیا جائے۔ چناں چہ چھان بین اور تحقیق کا یہی عمل تھا جس نے ملالہ کے کیس میں مبالغوں اور مغالطوں اور غلط اندراجات کی قلعی کھول کر اسے ایوارڈ سے محروم رکھا۔ ملاحظہ ہو راغب احمد صدیقی کے الفاظ میں: ’’بچوں کا عالمی امن انعام آرگنائز کرنے والی تنظیم کڈز رائٹ کے مطابق ملالہ یوسف زئی عالمی امن انعام کے لیے مضبوط ترین امیدوار تھیں اور وہ اس مقابلہ میں دوسرے نمبر پر تھیں لیکن ان کی حیثیت اس وقت کمزور پڑگئی جب ذرائع ابلاغ کی جانب سے کیے جانے والے دعوؤں کے برعکس طالبان ترجمان نے کہا کہ نہ تو وہ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں اور نہ ہی ان کی جانب سے سوات میں کبھی لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کی گئی۔ شاید طالبان کی جانب سے سامنے آنے والا یہ دعویٰ اتنی حیثیت نہ رکھتا لیکن خود ملالہ یوسف زئی اور ان کے والد کی جانب سے عالمی امن انعام کے لیے اپنی نامزدگی کے بعد دیے جانے والے بیان میں اس بات کی تردید کی گئی تھی کہ طالبان لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف تھے۔ ملالہ کے والد کا ایک معروف پاکستانی ٹی وی چینل کو انٹرویو کے دوران کہنا تھا کہ اگر ملاکنڈ میں مکمل شریعت کا نفاذ عمل میں آ جائے تو دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ اسلام لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں کتنا زور دیتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر عالمی امن انعام کی تقریب سے صرف دو روز قبل ہفتہ 19 نومبر 2011ء کو بی بی سی نے خود ایک رپورٹ میں اس کی تصدیق کی تھی کہ 2009ء میں جب وادیٔ سوات میں حالات خراب تھے۔ طالبان اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں جاری تھیں، تو علاقہ کی لڑکیاں لڑائی کے خوف کے باعث اسکول نہیں جاسکتی تھیں۔ بی بی سی نے کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (کے) ترجمان احسان اللہ احسان کی جانب سے سامنے آنے والے بیان کے تناظر میں رپورٹ شائع کی تھی۔ احسان اللہ احسان کا سوات کی طالبہ ملالہ یوسف زئی کے عالمی امن انعام میں نام زدگی کے تناظر میں دیے جانے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ وہ کبھی خواتین کی تعلیم کے خلاف نہیں رہے ہیں بلکہ وہ صرف سیکولر مغربی تعلیم کے خلاف ہیں۔
اس سے کچھ دن قبل ہی ملالہ کے والد نے کہا تھا کہ ان کی بیٹی نے کبھی نہیں کہا کہ طالبان نے اسے اسکول جانے سے روکا تھا۔ اس طرح کے بیانات کے باعث یہ تنازع پیدا ہوگیا تھا کہ جس بنیاد پر ملالہ کو ایوارڈ دیا جا رہا ہے وہ ہی درست نہیں ہے، اور خود ملالہ کے خاندان نے اس بات سے انکار کر دیا تھا کہ انھوں نے کبھی طالبان کے خلاف بیانات دیے ہیں۔ 25 اکتوبر 2011ء کو بچوں کے لیے عالمی امن انعام کے لیے نام زد کیے جانے کے بعد دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ نے سوات کا رُخ کیا تھا جہاں انھوں نے ملالہ اور اس کے والد سے بات چیت کی تھی۔ اس دوران میں ملالہ اور اس کے والد کی جانب سے طالبان کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگانے کی تصدیق سے انکار کردیا تھا اور یوں بی بی سی اور بعد ازاں دیگر عالمی ذرائع ابلاغ کی جانب سے شائع کی جانے والی ملالہ کی ڈائریاں مشکوک ٹھہری تھیں۔ ملالہ نے خود اپنے بیانات میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ وہ اس دور میں چھائے عام خوف کی وجہ سے لڑکیوں کے اسکول نہ جاسکنے کے حوالہ سے لکھا کرتی تھیں جب کہ یہاں ہونے والے عام ظلم و ستم کو بھی ان کی جانب سے اپنی تحریروں میں بتائے گئے ظلم و ستم کو خاص طور سے طالبان سے جوڑ کر بیان کیا جاتا رہا۔ اس تنازع کے بعد امن ایوارڈ کے منتظمین نے ملالہ کو ایوارڈ نہ دینے کا فیصلہ کیا مگر ملالہ کے عالمی امن انعام کے لیے منتخب نہ ہونے کے باوجود پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی اور خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ امیر حیدر ہوتی کی جانب سے ملالہ کو ایوارڈ دینے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔‘‘ (روزنامہ آزادی سوات، 5 دسمبر 2011ء) (یاد رہے کہ اس حوالے سے ملالہ یوسف زئی سے منسوب کتاب ’’آئی ایم ملالہ‘‘ میں بھی ایک طالبان راہ نما عدنان رشید کا یہ بیان کتاب کے صفحات 262 اور 263 پر مذکور ہے کہ ملالہ کو کس سبب نشانہ بنایا گیا؟ اس نے واضح کیا ہے کہ ملالہ کو اس کی تعلیمی مہم کی وجہ سے نشانہ نہیں بنایا گیا۔)
بات صاف اور واضح ہے کہ بین الاقوامی ادارے کی چھان بین نے ان غلط بیانات، پروپیگنڈے اور ڈھونگ یا ڈرامہ کا بھرم کھول دیا جو کاغذاتِ نامزدگی میں کیے گئے اور جس کی بنیاد پر ملالہ کو پانچ نامزد افراد کی فہرست میں شامل کروانے میں کامیابی حاصل کی گئی تھی۔ غلط بیانات، پروپیگنڈے اور ڈھونگ یا ڈرامے کی قلعی کسی نہ کسی موڑ پر کھل ہی جاتی ہے۔ بارک ابامہ کی طرح ایوارڈ ملنے کے بعد یا ملالہ یوسف زئی کی طرح ایوارڈ ملنے سے قبل۔
برخوردار ملالہ سے متعلق لکھنے والوں کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ ’’ملالہ کی بچوں کے حقوق کے لیے یہ فعالیت دیکھ کر حامد میر، جمیل مرغز اور نذیر بشیری جیسے مستند تجزیہ کاروں نے ان پر خصوصی کالم لکھے جو بالترتیب دی نیوز، روزنامہ آج اور روزنامہ آزادی میں چھپے (یہ ملالہ یوسف زئی کو قومی ایوارڈ ملنے سے پہلے کی بات ہے)‘‘۔
ایسی کوئی بات نہیں کہ راقم کو یہ معلوم نہیں کہ ملالہ کے متعلق لوگوں نے کچھ لکھا نہیں۔ راقم جانتا ہے کہ ملالہ کے متعلق نہ صرف محولہ بالا افراد یا بقول برخوردار ’’مستند تجزیہ کاروں‘‘ نے خصوصی کالم لکھے بلکہ بہت سے دوسرے افراد اور کالم نگاروں جیسا کہ ظاہر شاہ نگار، پروفیسر سیف اللہ خان، سعید الرحمان، حمزہ یوسف زئی، فضل محمود روخان اور سیف الحق چکیسری نے بھی لکھا ہے۔ لیکن راقم جس حد تک سمجھ چکا ہے، وہ یہ ہے کہ بحیثیت محقق ایسی تحریروں، تجزیوں اور سنی سنائی باتوں کو آنکھیں بند کرکے قبول کرنا، صحیح تسلیم کرنا اور شخصیات اور ناموں سے مرعوب ہونا دانش مندی ہرگز نہیں، بلکہ ان کا کھلی آنکھوں اور مکمل ادراک سے تنقیدی جائزہ لینا، چھان بین کرکے دوسرے مستند مأخذ سے ان کا تقابلی جائزہ کرنا، نیز اس کے بعد اس عمل کے نتیجے میں کلی یا جزوی صداقت کو صحیح مان کر تسلیم کرنا یا غلط گردان کر رد کرنا ایک سلیم العقل محقق کا شیوہ ہی تو ہے۔
راقم نے بے شک بہت سارے تجزیہ نگاروں کے تجزیے، میڈیا کی رپورٹیں اور بہت کچھ سنا اور پڑھا ہے۔ حتیٰ کہ خود ضیاء الدین یوسف زئی کے تجزیے، انٹرویوز، اخباری بیانات اور پریس کانفرنسز وغیرہ۔ اور ملالہ یوسف زئی کے خیالات سے بھی میڈیا کے ذریعے راقم کو آگاہی حاصل ہے۔ لیکن جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے انھیں ماننے اور تسلیم کرنے کے لیے اُصولِ تحقیق کو مدِ نظر رکھ کر اُن سے اختلافِ رائے کی گنجایش ہر لمحہ موجود ہے۔
برخوردار نے حامد میر، جمیل مرغز اور نذیر بشیری کے نام لکھ کر اور انھیں مستند تجزیہ کار قرار دیتے ہوئے ان کے تجزیوں کی بنیاد پر ملالہ کے دفاع کی کوشش کی ہے۔ معلوم نہیں کہ اسے پتا نہیں کہ ملالہ کی تعریف و توصیف میں پشتو کے معروف شاعر اور عوامی نیشنل پارٹی کے نمایندہ ماہ نامہ ’’پختون‘‘ کے مدیرِ اعلیٰ رحمت شاہ سائل نے بھی کچھ لکھا ہے، یا اُس نے عمداً یا سہواً اس کے نام کا ذکر نہیں کیا۔ راقم کے خیال میں رحمت شاہ سائل کا ذکر نہ کرنا ارادی نہیں اس لیے کہ برخوردار کو اگر اس کا پتا ہوتا، تو یہ اسے ایک اور بہت بڑے مستند تجزیہ کار کے تجزیے کی حمایت حاصل ہوجاتی اور اس طرح اس کا دعویٰ مزید مضبوط اور وزنی بن جاتا۔
راقم ہی بتاتے ہیں کہ رحمت شاہ سائل جیسے پشتو کے معروف شاعر اور ماہ نامہ ’’پختون‘‘ کے مدیرِ اعلیٰ نے ملالہ یوسف زئی کے متعلق کیا لکھا ہے۔ ماہ نامہ ’’پختون‘‘ کے دسمبر 2011ء کے شمارہ میں زیرِ عنوان ’’دملالے دویم تصویر‘‘ (ملالہ کی دوسری تصویر) میں رحمت شاہ سائل رقم طراز ہے کہ سوات، دیر اور باجوڑ کے اندر ایک ایسا کھیل شروع ہوا جس نے مردوں اور عورتوں کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا۔ ملاکنڈ سے نشیب کی طرف پختون افغانوں کے گھر، ڈیرے، بیٹھک، اسکول ان علاقوں کے بچوں اور ماؤں بہنوں سے بھر گئے۔ نیز ملاکنڈ سے پشاور تک اسکولوں، بیٹھکوں، حجروں اور گھروں سے جو لوگ رہ گئے، وہ بڑے بڑے کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہوگئے۔ لیکن ایک بہت چھوٹی بچی ملالہ نے اپنے ماں باپ کو مجبور کیا تھا کہ ہم نہیں جاتے اور وہ بچی گل مکئی کے نام سے ملکی اخبارات اور غیر ملکی ریڈیوز کے نام حالات کی نزاکت اور جائزے دنیا کے امن پسند لوگوں کو پیش کرتی رہی۔ یہ سب کچھ وہ سوات کے حسن کو برقرار رکھنے کے لیے گمنامی میں کرتی رہی اور آخرکار سوات، دیر، باجوڑ کے وہ لوگ اور مائیں بہنیں واپس اپنے اپنے گھروں کو چلی آئیں۔ بندہ نہیں کہہ سکتا کہ اس وقت ملالہ یوسف زئی اتنی کم عمری میں اس خوشحالی کا یہ بوجھ اپنے چھوٹے دل پر کیسے اُٹھا چکی ہوگی اور کس طرح اسے اطمینان ہوا ہوگا اور پھر اس کی روح قرار پاچکی ہوگی۔ لیکن جب ایک نوبل انعام یافتہ فرد ڈیسمنڈ ٹو ٹو نے ایک بہت بڑے عالمی ادارہ سے اعزاز پانے کے لیے اس بچی کا نام پیش کیا، تو شاید یہ نوبل پرائز کے لیے ایک نیا نام اس لیے بھی تھا کہ ابھی تک دنیا کی بڑی بڑی شخصیات کو جس مذکورہ اعزاز سے نوازا گیا تھا، اس بچی کا قد کاٹھ بعض لوگوں کی نظر میں اس اعزاز کے لیے بہت چھوٹا لگ رہا تھا۔ لیکن قدرت نے اس عمل میں تجسّس اور تحقیق کے لیے بہت سارے نشانات کا در وا کرنے کے علاوہ اس نامزدگی ہی میں شاید نوبل پرائز کے اس ادارے کو اصلی معنوں میں پہلی بار ایک نئی زندگی بخشی اور اس ادارہ کی عظمت کو بڑے بڑے ایوانوں سے پہاڑوں کی چوٹیوں اور گارے مٹی کے گھروں کو لے آیا۔ (ملاحظہ ہو محولہ ماہ نامے کے محولہ شمارے کا صفحہ 45)
راقم اس رسالے کے مدیرِ اعلیٰ، جس کے بانی باچا خان تھے اور جن کو خود پشتو ادب کی دنیا کا نامی گرامی اور درخشندہ ستارہ مانا جاتا ہے، کے محولہ بالا فرمودات پر کسی تفصیلی تبصرہ اور نقد و جرح سے احتراز کرتا ہے۔ شاید کہ یہ گستاخی شمار ہو۔ اس لیے کہ بقول اقبال: ؔ
کیا فائدہ کچھ کہہ کے ہوں میں اور بھی معتوب
پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند
تاہم کوئی بھی ہو وضاحت کرے کہ واقعی ملالہ یوسف زئی نے اپنے والدین کو مجبور کیا اور وہ گھر نہیں چھوڑ گئے تھے اور خود ملالہ سوات ہی سے گل مکئی کے فرضی نام سے ملکی اخبارات اور غیر ملکی ریڈیوز کے نام حالات کی نزاکت اور جائزے امن پسندوں کو پیش کرتی رہی؟ اگر ایسا ہے تو ملالہ اور اس کے گھر والے ان دنوں پہلے شانگلہ اور پھر پشاور کیسے اور کیوں جا کے ٹھہرے؟ اور کیا اس کے والد روحانی توسط سے اسلام آباد اور پشاور وغیرہ میں اجلاسوں اور کانفرنسوں وغیرہ میں شرکت کرتے رہے؟ اور نیویارک ٹائمز کی جس ڈاکومینٹری کا چرچا رہا، اس میں اس خاندان کی سوات سے باہر والے مناظر اور نقل و حمل کی ریکارڈنگ کیسی ہوئی؟ کیا گل مکئی کے نام سے یہ تأثرات اور جائزے مئی 2009ء میں شروع ہونے والے آپریشن کے وقت سوات سے ارسال ہوتے رہے یا اس سے ماقبل؟ اور یہ عقدہ کشائی کون کرے گا کہ ملالہ یوسف زئی کو ’’نوبل پرائز‘‘ کے لیے نامزد کیا گیا تھا جیسا کہ رحمت شاہ سائل فرما چکے ہیں یا کڈز رائٹس کے انٹرنیشنل پیس ایوارڈ کے لیے جیسا کہ برخوردار جوابی کالم نگار بتاتا ہے؟
سمجھنے والے سمجھ گئے ہوں گے کہ کیوں صرف نام یا راوی ہی کافی نہیں کام اور روایت کی چھان بین اور تجزیہ کرنا بھی ہوتا ہے جو کہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ’’کارِ زر گر زر شناسد و کارِ جوہری جوہر شناسد‘‘۔ یعنی سونے کو پہچاننا سنار کا کام ہے جب کہ جوہر کی پہچان جوہری ہی کرسکتا ہے۔ جب رحمت شاہ سائل جیسی نامور شخصیت کا یہ حال ہے، تو حامد میر، نیویارک ٹائمز اور دوسرے اخبارات اور چینلز کے تبصروں، تجزیوں اور رپورٹوں والے وغیرہ کہاں کھڑے ہوں گے، جن کی اطلاعات کے حصول کا منبع اور مأخذ بھی زیادہ تر ٹیلی فون کے ذریعے معلومات فراہم کنندے ہیں اور وہ بھی سوات، پشاور اور لاہور سے تعلق رکھنے والے چند معلومات فراہم کنندے۔ اس کے باوجود یہ باور کرانے کی سرتوڑ کوشش کی جاتی ہے کہ ہمارے افسانوی داستانوں کو حقائق مطلق سمجھ کر قبول ہی کرلیا جائے۔ ایں چہ بوالعجبی است؟
یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ برخوردار لکھتا ہے کہ ’’چوں کہ ملالہ یوسف زئی کا مشن بچوں کے حقوق کی وکالت کرنا، اس حوالے سے عوامی شعور اُجاگر کرنا اور عالمی اور قومی میڈیا کی توجہ اس طرف مبذو ل کرانا تھی اور جب ایسا مقصود ہو، تو یقینا آپ کو میڈیا ہی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ سوات کے بہت سارے صاحبِ نظر اور اہلِ قلم نے یہی طریقہ اپنایا اور ملالہ یوسف زئی نے بھی ایسا ہی کیا۔ اس نے اپنے مشن کے لیے میڈیا کو بطورِ Tool اور Sourse استعمال کیا اور میڈیا نے اسے بھرپور کوریج دی۔ ظاہر ہے کہ اس کارِ خیر میں سوات کے مقامی صحافیوں نے اس کو بھرپور انداز میں سپورٹ کیا۔ کیوں کہ صحافی جانتے تھے کہ ہمار ا cuase مشترک ہے اور ساتھ ساتھ انھیں یہ بھی اندازہ تھا کہ ملالہ کا پیغام مؤثر بھی ہے اور متوازن بھی۔‘‘
معلوم نہیں کہ برخوردار کو کیوں یہ تحریر کرنے کی ضرورت پڑی؟ راقم نے تو اپنے کالم میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ ملالہ یوسف زئی نے کیوں اپنے مقصد کے حصول کے لیے میڈیا کے ذریعے کو ’’بطور Tool اور Source استعمال کیا۔‘‘ راقم کا نکتہ تو یہ ہے کہ ملالہ نے میڈیا کو نہیں بلکہ میڈیا نے ملالہ کو اپنے مقاصد کے لیے نامناسب طریقے سے استعمال کیا ہے۔
جاننے والے جانتے ہیں اور سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ میڈیا کو ملالہ یوسف زئی سے کوئی سروکار نہیں۔ انھیں کمرشلزم کی وجہ سے اپنے اخبارات، چینلز، ریڈیو اسٹیشنز وغیرہ کے لیے جائز و ناجائز اور غلط و صحیح کی تمیز کیے بغیر مبالغہ آمیزی اور سنسنی خیزی کی ضرورت ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ کمائی ممکن ہوسکے۔ اسی وجہ سے راقم نے اس تناظر میں ملالہ کے حوالے سے قومی اور بین الاقوامی میڈیا کو حدفِ تنقید بنایا ہے نہ کہ ملالہ کو۔
جیسا کہ برخوردار اور دوسرے حضرات کہتے ہیں کہ ملالہ یوسب زئی تو بچی ہے، تو ہم بھی تو یہی رونا روتے ہیں کہ ملالہ تو بچی ہے اور وہ ذہین ہی سہی، اس کی عمر اور عمر کی مناسبت سے ذہنی استعداد کہاں یہ سمجھ پاسکتی تھی کہ میڈیا اور دوسرے ٹاؤٹس کس طرح اسے اپنے عزائم اور مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ کاش! اس کے والد کو یہ ادراک ہوتا۔ ہمارے دوستوں کو معلوم ہے کہ ہم تو یہی رونا روتے ہیں کہ اس کے بچپنے کو تباہ کردیا گیا۔ اس کی نیچرل گروتھ یا قدرتی بڑھوتری کو متاثر کیا گیا۔ اس کے تعلیمی کیرئیر کو نقصان پہنچایا گیا اور یہ سب عوامل آگے جاگر اس کی شخصیت کو متوازن نہیں بلکہ غیر متوازن بننے کا پیش خیمہ بنیں گے۔ مثال کے طور پر ملالہ یوسف زئی کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ بارک ابامہ اس کا آئیڈیل ہے۔ جب وزیرِ اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کی طرف سے اُسے ایوارڈ سے نوازا گیا، تو اُس کا یہ بیان آیا کہ پیپلز پارٹی کے مرحوم لیڈر بے نظیر بھٹو اس کی آئیڈیل ہے اور جب وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا امیر حیدر خان ہوتی کی طرف سے اُسے انعام سے نوازا گیا، تو باچا خان بھی اس کا آئیڈیل بن گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کل اگر مسلم لیگ کی حکومت آئے گی اور اُسے کوئی انعام یا ایوارڈ وغیرہ سے نوازا جائے گا، تو قائد اعظم بھی اُس کا آئیڈیل بنے گا۔ اس طرح جمعیت العلمائے اسلام کی صورت میں مفتی محمود یا حسین احمد مدنی بھی، جماعتِ اسلامی کی صورت میں سید ابوالاعلیٰ مودودی بھی…… و علیٰ ہذا القیاس۔ (1)
ملالہ یوسف زئی تو بچی ہے، لیکن کیا اس کے والدین نے اس پر کبھی سنجیدگی سے غور کیا ہے؟ باوجود اس کے کہ ضیاء الدین کے کچھ دوستوں نے اسے متنبہ کیا تھا۔ راقم کو یاد ہے کہ پچھلے سال جب ملالہ کو ایواڈز اور انعامات سے نوازا جا رہا تھا اور میڈیا پر اس کے حوالے سے مبالغہ آمیز تشہیر جاری تھی، تب ملالہ کے آئیڈئلز بڑھتے جارہے تھے اور وہ پارٹی بنانے اور اس طرح کی دوسری باتیں کرنے لگی، تو کراچی یونی ورسٹی میں ہمارے ایک قابل ترین اور زیرک پروفیسر ڈاکٹر طاہرہ آفتاب صاحبہ نے فون پر مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بچی کیا کررہی ہے؟ راقم نے جواباً کہا کہ وہ بے چاری تو بچی ہے، اُس کی اتنی ذہنی استعداد کہاں ہے۔ وہ ان باتوں کے دور رس عواقب اور مستقبل کے نتائج اور اس کی عملی زندگی اور کردار پر ان کے منفی اثرات کا کیا ادراک کرسکتی ہے؟ قصور تو ان کا ہے جو اس کو یہ باتیں سمجھا اور سکھا رہے ہیں۔
ملالہ یوسف زئی کے اس قضیہ میں بنیادی کردار ’’بی بی سی اُردو ڈاٹ کام‘‘ پر شائع ہونے والی ڈائریاں اور اس سلسلے میں عبدالحئی کاکڑ ہے۔ جیسا میں پہلے ہی بتا چکا ہوں، اپنے کالم ’’المیۂ سوات اور ایوارڈز‘‘ میں، مَیں نے شعوری کوشش کی ہے کہ دو نکات اور متعلقہ افراد تک اپنے آپ کو محدود رکھوں اور دوسرے افراد کو اس مباحثے میں شامل کرنے سے احتراز کروں۔ اس وجہ سے ابتداً مذکورہ ڈائریوں کے ضمن میں بات کرتے ہوئے میں نے یہ لکھا تھا کہ اس بات کا بخوبی علم تو بی بی سی کے نمایندے عبدالحئی کاکڑ ہی کو ہوگا اور وہ صحیح جواب دینے کی پوزیشن میں ہیں کہ بی بی سی اُردو ڈاٹ کام پر جو چند ہفتہ وار ڈائریاں گل مکئی کے نام سے شائع ہوئیں، وہ کیسی اور کس طرح لکھی اور چھاپی گئیں؟ لیکن عبدالحئی کاکڑ کو بیچ سے نکالنے کی خاطر اس جملہ کو حذف کر دیا گیا۔
تاہم چوں کہ اب ضیاء الدین یوسف زئی اور ملالہ یوسف زئی کے مداحین نے عبدالحئی کاکڑ کا حوالہ دیا ہے اور برخوردار احسان الحق حقانی نے اگرچہ عبدالحئی کاکڑ کا ذکر تو نہیں کیا ہے، تاہم یہ لکھا ہے کہ ’’لیکن یہ بھی کوئی راز نہیں تھا کہ گل مکئی کون ہے۔ میرے خیال میں ڈاکٹر صاحب سمیت سب کو معلوم تھا کہ یہ ملالہ ہی تھیں جو سوات کے حالات کی بہترین رپورٹنگ کررہی تھیں۔‘‘ یقینا ہمیں معلوم تھا کہ گل مکئی کا نام ملالہ ہی کے لیے استعمال ہورہا ہے لیکن یہ بھی بتادیں کہ اُس وقت بھی اس رپورٹنگ اور ڈائریوں کی اصلیت سے متعلق ہمارے تحفظات تھے۔
جیسا کہ احادیث کی چھان بین کے لیے علمائے حدیث نے صدیوں پہلے چند اصول وضع کیے ہیں جن میں نہ صرف خبر یا متن کو پرکھا جاتا ہے بلکہ راوی کو بھی اور راوی کو خبر سے پہلے ہی پرکھا جاتا ہے کہ آیا اس کی شخصیت قابلِ اعتبار ہے؟ اس طرح وہ دوسری بہت سے مطلوبہ شرائط پر پورا اُترتا ہے کہ نہیں؟ اس کے بعد خبر یا جس بات یا حدیث کو وہ روایت کررہا ہے، اس کی وضع شدہ اُصول و قواعد کے تحت چھان بین کی جاتی ہے۔ اگر وہ اس معیار پر پورا اُترے، تو پھر اس خبر یا حدیث کو صحیح اور قابلِ قبول گردانا جاتا ہے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ یہی اُصول موجودہ زمانے میں تاریخ کی تحقیق میں بنیادی یا ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور اسے ’’اِکسٹرنل کریٹیسزم‘‘ اور ’’اِنٹرنل کریٹیسزم‘‘ کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ لہٰذا بحیثیت محقق، جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے، کسی بھی خبر، تحریر اور بات کو آنکھیں بند کرکے قبول کرنا راقم کے لیے ممکن نہیں۔
پہلے ہی راغب احمد صدیقی کا ایک طویل اقتباس بلکہ اس کے کالم کا زیادہ تر حصہ ملالہ یوسف زئی کو ایوارڈ سے محروم رہنے کے اسباب کے ضمن میں حوالہ کے طور پر نقل کیا جا چکا ہے جس میں بھی ذکر ہے کہ ’’اور یوں بی بی سی اور بعد ازاں دیگر عالمی ذرائع ابلاغ کی جانب سے شائع کی جانے والی ملالہ کی ڈائریاں مشکوک ٹھہری تھیں۔‘‘ اس وجہ سے عبدالحئی کاکڑ کے قابلِ اعتبار ہونے اور اس کی رپورٹنگ کے معتبر ہونے پر سوالیہ نشان لگے؟ ہماری معلومات کے مطابق یہ ڈائریاں تحریری طور پر عبدالحئی کاکڑ کو نہیں ارسال کی گئیں بلکہ زبانی یا ٹیلی فون کے ذریعے اس سے باتیں کی جاتی تھیں جس کی وجہ سے ان کی تحریری صورت میں گڑبڑ کا احتمال ممکن ہے۔
تاہم یہاں پر عبدالحئی کاکڑ کے تحریر کردہ ’’بی بی سی اُردو ڈاٹ کام‘‘ پر دو کالم یا رپورٹیں جو کہ زبانی طو ر پر بی بی سی ریڈیو پر بھی نشر ہوئی تھیں، سے اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں، تاکہ قارئین اندازہ کرسکیں کہ عبدالحئی کاکڑ کی سب رپورٹیں اور تحریریں قابلِ اعتبار نہیں۔ اپنے کالم بعنوان ’’کتابوں کے محافظ ‘‘، مورخہ 20 مارچ 2009ء، میں عبدالحئی کاکڑ محمد پرویش شاہین صاحب کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’پشتو کے تیئس کتابوں کے مصنف ساٹھ سالہ پرویز [پرویش] شاہین سوات کے صدر مقام مینگورہ سے سات کلومیٹر دور منگلور کے رہائشی ہیں‘‘۔ کیا کوئی شاہین صاحب کی پشتو کی تیئس کتابوں کے اشاعتی اداروں اور سالِ اشاعت کے بارے میں وضاحت کرسکتا ہے یا یہ کہ یہ کتابیں کس بک شاپ یا لائبریری میں دستیاب ہیں؟
اس طرح 15 فروری 2009ء کے ’’سوات امن معاہدہ‘‘ کے بعد جب معاہدہ کو سبوتاژ کرنے کی خاطر مختلف اطراف سے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے صورتِ حال کو خراب کرنے کی کوشش کی جارہی تھی، تو لڑکی کو کوڑے مارنے کی مشہورِ زمانہ ویڈیو کو اچانک سامنے لاکر اس کی مبالغہ آمیز حد تک تشہیر کی گئی۔ مذکورہ ویڈیو نے بہت سارے سوالات کو جنم دیا جن میں سے ایک سوال یہ تھا کہ ویڈیو کے مناظر تازہ اور 15 فروری کے ’’معاہدۂ امن‘‘ کے بعد کے دنوں کے ہیں یا اس سے پہلے کے؟ دوسری بات یہ کہ یہ ویڈیو جعلی ہے یا اصلی؟ اور تیسرا سوال یہ تھا کہ یہ واقعہ کس علاقے میں وقوع پذیر ہوا ہے؟ یہاں پر اس سے سروکار نہیں کہ ویڈیو جعلی تھی یا اصلی…… لیکن یہ دو باتیں بہت اہم ہیں کہ یہ واقعہ ’’معاہدۂ امن‘‘ کے بعد وقوع پذیر ہوا یا پہلے اور یہ بھی کہ یہ کس جگہ رونما ہوا؟ اس ضمن میں اپنی رپورٹ زیرِ عنوان ’’ویڈیو جعلی ہے، حکومت کا اصرار‘‘، مورخہ 5 اپریل 2009ء، شائع شدہ ’’بی بی سی اُردو ڈاٹ کام‘‘، میں عبدالحئی کاکڑ لکھتے ہیں کہ ’’یاد رہے کہ حکومت کی طرح طالبان نے بھی سنیچر کو ویڈیو کو جعلی قرار دیا تھا۔ حکومت کی طرح ان کا بھی مؤقف یہی تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے افراد شکل و صورت اور لب و لہجے سے سوات کے لوگ نہیں لگتے۔ یاد رہے کہ کم سن لڑکی کی یہ ویڈیو تین روز قبل منظرِ عام پر آئی تھی جس میں طالبان کے حلیے میں تین افراد ایک جواں سال لڑکی کو اوندھے منہ لٹاکر کوڑے مار رہے ہیں۔ بی بی سی کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق واقعہ حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد تحصیل کبل کے کالا کلی میں پیش آیا ہے۔ طالبان نے لڑکی کو سرِ عام سزا دینے کے بعد لڑکے اور لڑکی کا نکاح بھی کروادیا ہےـ‘‘ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بی بی سی یا دوسرے لفظوں میں عبدالحئی کاکڑ کی تحقیقاتی رپورٹ کا دعویٰ دو باتوں کی وجہ سے غلط ہے۔ ایک یہ کہ اگر واقعی یہ ویڈیو کالا کلے کے واقعہ کی ہے، تو وہ واقعہ 15 فروری 2009ء کے’’ معاہدۂ امن‘‘ سے پہلے ہی وقوع پذیر ہوا تھا۔ دوسرا یہ کہ عینی شاہدین کے مطابق کالا کلے کے واقعہ میں کوڑوں کی سزا پانے والی لڑکی کا لباس ایسا نہیں تھا جیسا کہ ویڈیو میں ہے۔
عبدالحئی کاکڑ کی یہ دو اور اس طرح کی دوسری رپورٹیں ملالہ یا گل مکئی اور اس کی ڈائری سے متعلق شبہات اور اس کی صحت کے متعلق اٹھائے گئے سوالات کو مزید تقویت بخشتے ہیں۔
رہی راقم کی یہ بات کہ ’’فرضی ناموں سے تو بہت سارے اور لکھاریوں نے بھی لکھا ہے‘‘ کا توڑ پیش کرتے ہوئے برخوردار نے جوابی کالم کے مختلف جگہوں پر کچھ اس طرح کے الفاظ استعمال میں لائے ہیں کہ ’’اب اگر کسی دوسر ے بچے نے ایسا کیا ہے تو کیا وہ آج اپنے کام کو own کر سکتا ہے؟؟؟ ‘‘، یہ کہ ’’اگر ایسا کوئی بچہ موجود تھا یا ہے تو اسے منظرِ عام پر لانا چاہیے‘‘ اور یہ کہ ’’تاہم اگر کسی کے پاس ایسا کوئی بچہ/ بچی موجود نہیں تو پھر سوالیہ نشان کیوں…..؟ پھر میں سمجھتا ہوں اس سوالیہ نشان پر ایک اور سوالیہ نشان لگتا ہے۔‘‘
برخوردار کے ان سوالا ت کے ضمن میں صرف اتنا ہی کہنا کافی ہوگا کہ جن بچوں اور لوگوں نے فرضی ناموں سے لکھا تھا، ان کا اصل مقصد نام نہیں کام اور مقصد کا حصول تھا اور اس مقصد کا حصول ان کے لیے سب کچھ تھا اور ہے۔ اسی وجہ سے انھوں نے نہ پہلے اس کا اظہار کیا اور نہ اب کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ وہ اپنے کام کو own نہیں کرسکتے بلکہ ملالہ یوسف زئی کے برخلاف نہ تو وہ میڈیائی تشہیر اور نام و نمود کے قائل ہیں، نہ اپنے آپ کو چینلز اور نشریاتی اداروں کی زینت اور کمائی کا ذریعہ بنانے پر تیار ہیں اور نہ اس میں اپنی زندگی کے انمول اوقات ضائع کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے عزائم اور حوصلے بلند ہیں۔ وہ اپنی ساری توجہ اور توانائیاں اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں صرف کرنا چاہتے ہیں، تاکہ مستقبل میں اس سے بڑھ کے کچھ کر سکیں۔ وہ ان عظیم لوگوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں جن کا ذکر برخوردار اپنے کالم کے شروع میں کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ ’’انسانی معاشروں کے عظیم افراد جو کام کرتے ہیں اور اپنی ملک و ملت کے لیے جو کار ہائے نمایاں سر انجام دیتے ہیں۔ ان کے سامنے صرف قومی سماجی اور ملکی وقومی مفادات ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اس لیے غیر معمولی ہوتے ہیں کہ وہ ذاتی مفادات کے لیے کام نہیں کرتے۔ فطرتاً یہ لوگ بے لوث اور بے غرض ہوتے ہیں‘‘۔
برخوردار کے ان جملوں پر میرے خیال میں مزید کسی بات کا اضافہ غیر ضروری ہے۔ اس لیے کہ انھوں نے خود ان گمنام ہستیوں کی خصوصیات بیان کرکے ان کی عظمت پر مہر ثبت کی ہے۔ تاہم اس کے مضمون پر رفیع خان کے تبصرے میں اُٹھائے گئے چند سوالات میں سے کم از کم ان سوالات کے جوابات اگر دے دیے جائیں، تو بات مزید واضح ہوجائے گی۔
1:۔ کیا وہ ’’ملالہ‘‘ واحد بچی تھی جس نے دہشت گردوں کے خلاف جرأت کا مظاہرہ کیا، یا ہم یہ کہیں کہ وہ واحد بچی تھی جس کو میڈیا تک رسائی حاصل تھی۔
2:۔ کیا استعمال کیے گئے الفاظ اس کے اپنے ہیں یا…..؟
3:۔ اگر میڈیا کے کوریج کے عامل کو ہٹایا جائے، تو ہمارے پاس کیا رہ جاتا ہے؟
4:۔ اگر ملالہ ایک عام فرد کی بیٹی ہوتی (سر ضیاء کی نہیں) تو کون اس کی کہانی کو شائع کرلیتا؟
5:۔ اگر وہ عارفہ کریم کی طرح واقعی ذہین ہے، تو اسے اس کی اصل صلاحیت کو دکھانے چھوڑ دیا جائے۔ اس کی صلاحیت کو ایوارڈز کے اس دنگل میں مصروف رکھ کر ضائع نہ کرو۔
برخوردار اپنے جوابی کالم میں کچھ اس طرح بھی لکھ چکے ہیں کہ ’’یہ فقط لفاظی نہیں، یہ صرف جذباتی اندازِ بیاں اور شاعرانہ نثر نہیں بلکہ اس نے جو کچھ کیا ہے، وہ پورے کا پورا ریکارڈ پر موجود ہے اور اس انداز میں موجود ہے کہ اسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔‘‘ اس کے بعد انھوں نے کئی ایک چینلز اور اداروں کے نام لکھے ہیں جن پر بقول ان کے ملالہ یوسف زئی کی کارکردگی کا ریکارڈ موجود ہے۔ وہ یوں بھی لکھتے ہیں کہ ’’نیویارک ٹائمز کے ان ہر دو ڈاکومینٹریوں میں وہ ببانگ دہل بولتی ہے۔ اگر وہ واقعی ڈرتی اور کچھ کہنے اور own کرنے کی جرأت نہ کرسکتی تو نیو یارک ٹائمز کے ان ہر دو ڈاکو مینٹریوں میں کیوں سکرین پر آتی؟ ان ڈاکو مینٹریوں کے نام یہ ہیں (Class dismissed in Swat valley) اور (A school girl’s odesse) تصدیق کے لیے ان ڈاکو مینٹریوں کو اب بھی سرچ کیا جاسکتا ہے۔‘‘
جیسا کہ ہم پہلے ہی بتاچکے ہیں کہ قومی اور بین الاقوامی میڈیا نے حقائق کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے اور حقائق کو مبالغوں اور مغالطوں کے پہاڑوں تلے نہ صرف دبایا ہے بلکہ اس کو دفن کرنے کی ہر ممکن کوشش بھی کی ہے۔ تو جتنے اداروں، اخبارات اور چینلز کا برخوردار نے ذکر کیا ہے، براہِ مہربانی وہ اُن پروگرامات کی تاریخیں بتائیں اور اُن ڈاکومینٹریوں کی تیار کرنے کی بھی، تاکہ ان کا تنقیدی جائزہ لے کر واضح کیا جاسکے کہ ببانگِ دہل کہنے والی یہ باتیں کس دور کی ہیں؟ اس لیے کہ نہ تو میڈیائی رپورٹوں، تجزیوں اور ڈاکومینٹریز، خواہ وہ یورپ اور امریکہ کے اداروں اور افراد کی ہوں یا پاکستان کی، کو جوں کا توں تسلیم کیا جاسکتا ہے اور نہ اسکالرز اور محققین کی اٹکل پچو کتابوں اور رپورٹوں اور ریسرچ پیپرز پر بند آنکھوں سے ’’آمنّا و صدّقنا‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ مئی 2009ء کے بعد تو ہر کس و ناکس طالبان کو دہشت گرد کہہ رہا ہے۔
برخوردار کے جوابی کالم کے مطابق ملالہ یوسف زئی ’’بچوں کے لیے کام کرنے والی ڈسٹرک چائلڈ اسمبلی کی پہلی سپیکر رہی اور وہاں بھی اپنا کردار بخوبی نبھاتی رہی۔ اتنی کم عمری میں اتنا کام کرنا ( کوئی مانے یا نہ مانے) کارنامہ ہی ہوتا ہے۔ اس کے ہم عمر بچوں میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس نے اتنی مؤثر انداز میں بچوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی ہو یا کوشش کی ہو۔ اگر ایسا کوئی بچہ موجود تھا یا ہے تو اسے منظرِ عام پر لانا چاہیے۔‘‘
اس دعویٰ سے اختلاف کرتے ہوئے شاہ وزیر خان خاکیؔ کا کہنا ہے کہ سال 2005ء سے سیو دی چلڈرن کا چائلڈ رائٹس ’’سی آر سی‘‘ یعنی کنویشن آن دی رائٹس آف چائلڈ پر ایک پراجیکٹ میں خپل کور فاؤنڈیشن کی وساطت سے میونسپل کمیٹی مینگورہ کی حدود میں تین یونین کونسلوں میں کام ہو رہا تھا۔ 2006ء میں پراجیکٹ ایریا کے پراجیکٹ ورکرز سے بچے چن کر ان کی چائلڈ اسمبلی بنائی گئی۔ اس کے اسپیکر کے انتخاب کے لیے دو امیدوار، ایک ایلم پبلک اسکول اور دوسرا خپل کور فاؤنڈیشن کے خپل کور ماڈل اسکول سے سامنے آئے جن میں سے الیکشن کے ذریعے خپل کور ماڈل اسکول کے عنایت اللہ اسپیکر کا انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ نہ صرف سوات یا صوبہ بلکہ پورے ملک میں پہلی چائلڈ اسمبلی تھی اور اس کے پہلے اسپیکر عنایت اللہ تھے نہ کہ ملالہ یوسف زئی۔ اس طرح برخوردار کے اسی جوابی کالم پر اپنے تأثرات میں اکرام الرحمان لکھتے ہیں کہ ایک بچی نفیسہ رحمان قاضی آف کانجو نامساعد حالات میں ڈٹ کر مقابلہ کرتی رہی اور اپنی کتاب تصنیف کرگئی۔
برخوردار احسان الحق حقانی اور برخوردار جوابی کالم نگار کے کالموں میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ ملالہ نے اپنی ذات کے لیے کچھ نہیں مانگا اور اگر مطالبہ کیا تو برخوردار کے الفاظ میں: ’’سوات اور شانگلہ دونوں کے لیے گرلز ڈگری کالج کا مطالبہ کیا تھا اور وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا نے اسی وقت مینگورہ کے لیے ایک اور گرلز ڈگری کالج کی منظوری دی تھی۔ اس طرح وزیرِ اعظم سے ملاقات کے دوران اس کے مطالبے پر وزیر اعظم پاکستان نے یونی ورسٹی آف سوات میں آئی ٹی کے بلاک کی منظوری کا عندیہ دیا تھا۔‘‘ جب کہ برخوردار احسان الحق حقانی کے الفاظ میں ’’جہاں تک ملالہ کی تعلیمی خدمات کا تعلق ہے تو وہ ابھی خود ہائی اسکول کی طالبہ ہے۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ نے جب اس سے پوچھا کہ بتاؤ میں تمہارے لئے کیا کرسکتا ہوں، تو منگورہ [مینگورہ] میں گرلز ڈگری کالج کا قیام ملالہ کا مطالبہ تھا۔ وزیر اعلیٰ نے ہنس کر کہا کہ اپنے باپ کے سکول کے لئے کچھ مانگو، سرکاری ادارے تو ہم بناتے رہیں گے، ملالہ کا جواب تھا کہ میرے باپ کا سکول بالکل ٹھیک ہے اور اسے سرکاری گرانٹ کی ضرورت نہیں۔ سرکاری گرانٹ کی ضروت [ضرورت] منگورہ [مینگورہ] میں لڑکیوں کے لئے ڈگری کالج کو ہے۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں ملالہ نے مجھے بتایا کہ انعامات کے ساتھ ملنے والی تمام رقوم وہ بچیوں کی تعلیم پر خرچ کریں گے۔‘‘
ہر کسی کو حق حاصل ہے کہ اپنی معلومات کی بنیاد پر یہ تسلیم کرے کہ ملالہ یوسف زئی نے اپنی ذات کے لیے یا اپنے والد کے لیے کچھ نہیں مانگا اور یہ کہ ملالہ نے انعامات کے حوالے سے وضاحت کی کہ اس مد میں ملنے والی تمام رقوم کو وہ بچیوں کی تعلیم پر صرف کرے گی۔ تاہم وزیراعظم سے ایوارڈ وصول کرنے کی خاطر اسلام آباد جانے سے قبل ذاتی مطالبات کی ایک فہرست تیار کی گئی تھی لیکن وہ ان افراد کی تگ و دو اور کوششوں کی نذر ہوئی جنھوں نے ملالہ کے کڈزرائٹس کے انٹرنیشنل پیس ایوارڈ کی نامزدگی کا سلسلہ شروع کیا تھا اور اس پراسیس یا عمل کا اپنے طور پر حمایت بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔ یہ بھی ان افراد کی کوشش اور دوڑ دھوپ ہی تھی جس کے نتیجے میں ملالہ اور اس کا والد اس پر آمادہ ہوئے کہ انعامات میں وصول کی ہوئی رقوم بچیوں کی تعلیم پرخرچ کی جائے گی۔ پھر بھی بجائے اس کے کہ اپنی ذات کے لیے کچھ نہ لینے کے دعویٰ کا بھرم رکھتے ہوئے ضیاء الدین یوسف زئی اور ملالہ یوسف زئی پاک فوج کے جی اُوسی میجر جنرل غلام قمر کی طرف سے ان کے اسکول کے لیے دس لاکھ روپے کی گرانٹ شکریہ کے ساتھ وصول کرنے سے انکار کرلیتے (اس گرانٹ کے لیے دیکھیں روزنامہ آزادی، 20 دسمبر 2011ء) انھوں نے اسے وصول کرکے اس مغالطے کا بھی خاتمہ کر دیا کہ ملالہ یوسف زئی یا ضیاء الدین یوسف زئی نے اپنی ذات کے لیے کچھ بھی قبول نہیں کیا۔ ( 2 )
راقم احسان الحق حقانی کی اس بات سے اتفاق کرتا ہے کہ ضیاء الدین یوسف زئی ہر وقت میڈیا کے لوگوں سے بہتر ین گفتگو کے لیے دستیاب ہوتے تھے۔ اس لیے کہ راقم ان کی گفتگو سن چکا ہے۔ لیکن بعض لوگوں کو ویسے بھی میڈیا سے بات کرنے کی خواہش رہتی ہے جب کہ بعض کو نہیں۔ اس وجہ سے یہ دوسرے قسم کے لوگ طالبان سے پہلے بھی اور بعد میں اب تک میڈیا سے بات نہیں کرتے۔ تاہم یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ ضیاء الدین یوسف زئی نے نہ تو غیر جانبدارانہ گفتگو کی ہے اور نہ پورا سچ کہا ہے۔
اور یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ جب نومبر 2008ء میں سوات سے تعلق رکھنے والے ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی اور دوسرے سرکردہ افراد کا صدرِ پاکستان آصف علی زرداری سے ملاقات طے ہوئی، تو بعض ممبرانِ اسمبلی اور دوسرے معززین نے اس ملاقات میں شمولیت سے اجتناب کیا جب کہ بعض اس غرض سے اسلام آباد گئے۔ دل چسپ اور گنجلک صورتِ حال اس وقت پیدا ہوئی جب صدرِ پاکستان سے ملاقات سے قبل ضیاء الدین یوسف زئی نے بعض افراد کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ صدرِ پاکستان سے ملاقات کرنے والے ان افرد کی تصاویر میڈیا پر نہ دکھائی جائیں اور ان کے نام صیغۂ راز میں رکھے جائیں، تاکہ طالبان کو وفد میں شامل افراد کا پتا نہ چل سکے۔
مسئلہ یہ تھا کہ صدرِ پاکستان سے یہ بات کرے گا کون؟ آخر اے این پی کے ایک سربراہ کی وساطت سے اس مسئلے کا یہ حل نکالا گیا کہ وفد کے ارکان کی پشت کی طرف سے تصویر لی جائے۔ اس طرح وفد کے ارکان کے نام اور تصاویر لوگوں کی آنکھوں سے مخفی رہیں۔ بعض اخبارات نے وہ تصویر کہ جس میں صدر تو نظر آرہے تھے لیکن وفد کے ارکان پہچانے نہیں جاسکتے تھے، شائع تو کی لیکن یہ کہا گیا کہ صدر ایک قبائلی جرگہ سے ملاقات کررہے ہیں۔ سوات کا نام چھپایا گیا۔ طالبان کے خوف سے اپنے نام اور تصاویر نہ چھاپنے کا یہ عمل کسی دوسرے فرد یا خوانین کی تحریک اور اصرار پر نہیں ہوا (جو بعض افراد کے بقول سوات سے بھاگ گئے تھے) بلکہ اس فرد کی تحریک اور اصرار پر ہوا جس کی جرأت اور بہادری کے چرچے عام ہیں۔ (3)
اس لیے تو بقولِ شاعر:
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
اور بقولِ خوشحال خان خٹک:
چہ دستار تڑی ہزار دی
دَ دستار سڑی پہ شمار دی
مطلب یہ کہ دستار باندھنے والے تو ہزاروں کی تعداد میں ہیں لیکن صاحبِ دستار آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔
ایک اور تبصرہ نگار ،فضل ربی راہیؔ کے کالم پر، جذباتی انداز میں اپنے تبصرہ کی شکل میں لکھتے ہیں:
The noted and rigid dichotomy about all the articles and comments posted against Zia-ud-Din and his brave daughter Malala Yousafzai is when the government bestowed Tamgha-e-Shuja’at (or was it other award? for my memory fails altogether) on Afzal Khan Lala for no services of his to Swat or the people of Swat, no one had the courage to speak openly and express his opposition. The press was to a larger degree silent or content as well.
یعنی ضیاء الدین اور اس کی بہادر بیٹی ملالہ یوسف زئی کے خلاف اس سخت اور کھلے اظہارِ خیال کا موازنہ اس بات سے کرنا چاہیے کہ جب حکومت نے سوات اور سوات کے عوام کے لیے اس کی کوئی خدمت نہ ہونے کے باوجود افضل خان لالا کو تمغۂ شجاعت (یا یہ کوئی دوسرا ایوارڈ تھا؟ اس لیے کہ میرا حافظہ مکمل طور پہ یاد نہیں دلا پا رہا) سے نوازا تو کسی کو بھی یہ جرأت نہ ہوسکی کہ کھل کر اس پر بات کرے اور اپنی مخالفت کا اظہار کرے۔ اس ضمن میں پریس یا تو بڑی حد تک خاموش تھا یا مطمئن۔
آگے چل کر اسی تبصرہ نگار نے ضیاء الدین یوسف زئی اور ملالہ یوسف زئی کی خدمات کا ذکر کیا ہے اور ملالہ کو مشورہ دیا ہے کہ لوگوں کے نمائشی یا اکڑفوں تبصرے (swanky comments) آپ کی راہ کی رکاوٹ نہ بننے پائیں اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے سخت محنت، دیانت داری اور استقلال کے ساتھ آگے بڑھیں، اس لیے کہ آپ کی خدمات سوات کے عوام کی اکثریت، بشمول سیاستدانوں کے، منہ پر ایک طمانچہ ہیں۔
الفاظ اور طرزِ تخاطب سے ظاہر ہے کہ برخوردار جوابی کالم نگار کی طرح یہ محترم تبصرہ نگار بھی جذبات کی رو میں بہہ گئے ہیں اور اس وجہ سے وہ ان مضامین اور تأثرات کو کامل بصیرت کے ساتھ پڑھنے سے قاصر رہے ہیں جن کے بارے میں وہ برہم ہیں اور جن کے لکھنے والوں پر وہ برس پڑے ہیں۔ اگر وہ ان مضامین اور تبصروں کو ٹھنڈے دماغ سے پڑھ چکے ہوتے، تو کبھی یہ نہ لکھتے کہ اسے نہیں یاد کہ افضل خان لالا کو کون سا ایوارڈ ملا تھا اور اس پر لوگ اور میڈیا خاموش رہے ہیں۔ اس لیے کہ کم از کم راقم کے کالم میں خان لالاکا نام سرفہرست لکھ کراس ایوارڈ کا ذکر ہے۔ لوگوں یا میڈیا کی خاموشی کا مطلب یہ نہیں کہ وہ افضل خان لالا کو تمغۂ شجاعت دینا درست سمجھتے تھے یا وہ ڈرکے مارے کچھ کہہ نہیں سکتے تھے۔ اس ایوارڈ کے بارے میں لوگوں کے تحفظات تھے اور اس کا ثبوت بی بی سی کے وسعت اللہ خان کے اس کالم میں موجود ہے جو 21 اکتوبر 2010ء میں بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر شائع ہوا تھا اور اب ان کی کتاب ’’سیلاب ڈائری‘‘ میں بھی موجود ہے۔ یہ اور بات ہے کہ پاسِ مروت یا کسی اور مصلحت کے تحت کسی نے اس ضمن میں کھل کے نہیں لکھا یا خاموشی اختیارکی۔ شاید یہ خاموشی اورنہ لکھنا اس وجہ سے بھی ہو کہ اب بھی بعض افراد خان لالا کے اس تمغہ کے متعلق لکھنے اور سوال اٹھانے پراس طرح سیخ پا ہیں جس طرح کہ یہ صاحبان ملالہ کے ضمن میں ہیں۔
یہ محترم تبصرہ نگار اگر اپنے اس سوال یا اعترض یا نکتہ کے دوسرے پہلو پر بھی ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرتے، تو شاید اس طرح کا تبصرہ نہ لکھتے۔ ان لوگوں نے اگر اب لکھا تو انھوں نے یہ نہیں کیا کہ انھیں صرف ملالہ یوسب زئی کے ایوارڈز کے ضمن میں اپنے تحفظات کا اظہار کرنا مقصود تھا اور افضل خان لالا کو نظر انداز کرنا۔ افضل خان لالا کا نام پہلے ہے اور ملالہ کا بعد میں۔ اعتراض کرنے والوں یا اپنے تحفظات کا اظہار کرنے والوں کا مقصد ملالہ اور اس کے والد کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنا یا روڑے اٹکانا ہر گز نہیں۔ یہ شاید ان کی غلط فہمی یا جذبات کی رو میں بہہ کر حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے یا غیر ضروری دفاع کی کوشش ہے۔ پشتو کا مقولہ ہے کہ ’’چے زر پاک وی نو د اورہ ئے سہ باک وی‘‘ یعنی اگر سونے میں کھوٹ اور ملا وٹ نہیں، تو اسے آگ میں ڈال کر پرکھنے سے احتراز کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر کوئی اس طرح کا احتراز کرتا ہے یا ایسا کرنے پر زور دینے والے یا اصرار کرنے والے پر برس پڑتا ہے اور یا لوگوں کو مجبور کرتا ہے کہ سونے کو آگ میں ڈال کر مت پرکھو، تو اس کا مطلب ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔
اگر اسی محترم تبصرہ نگار ہی کے نکتہ یا دلیل کا اطلاق ملالہ یوسف زئی پر کیا جائے تو پھر……؟ کیا وہ یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ ملالہ کو وزیرِ اعظم پاکستان کی طرف سے دیے گئے ایوارڈ پر ابھی تک کسی نے کھل کے احتجاج کیا ہے، خواہ وہ احتجاج ذاتی طور پر ہو، میڈیا کے فورم پر ہو یا میڈیا نے بھی؟ اگر نہیں تو کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پریس اور سوات کے لوگ ملالہ یوسف زئی یا ضیاء الدین یوسف زئی سے ڈر رہے تھے اس وجہ سے خاموش رہے؟
جس طرح کہ سوات کے لوگوں کو خان لالا کو ’’تمغۂ شجاعت‘‘ سے نوازنے اور میڈیا میں غیر ضروری اور مبالغہ آمیز پروپیگنڈہ اور تشہیر پر تحفظات تھے جن کا وہ دبے لفظوں میں اظہار بھی کرتے رہے ہیں (وسعت اللہ خان کے کالم اور کتا ب سے ظاہر ہے) اس طرح ملالہ یوسف زئی کو وزیرِ اعظم پاکستان کی طرف سے ملنے والے ایوارڈ و انعام اور دیگر دوسرے انعامات اور میڈیا پر غیر ضروری مبالغہ آمیز پروپیگنڈے اور نمود و نمائش پر بھی ان کو تحفظات تھے جن کا اظہار وہ نجی طور پر کرتے رہے ہیں۔
مسلمہ اصول دراصل یہ ہے کہ کوئی بھی مسئلہ یا ایشو ہو اور دنیا میں جہاں کہیں بھی ہو، چیزوں کو ایک خاص حد تک برداشت کیا جاتا ہے۔ جب بھی اس حد سے تجاوز شروع ہو جاتا ہے، تو پہلے انگلیاں اور پھر آوازیں اُٹھنا شروع ہوتی ہیں۔ اس کے بعد حالات قابو اور کنٹرول سے نکل جاتے ہیں اور یہ بات ملالہ یوسف زئی کے حوالہ سے مباحثی اُلجھن میں کارفرما رہی، جس کو جذبات کی رو میں بہنے والے صاحبان تو شایدنہ سمجھ سکے ہیں لیکن فضل ربی راہی سمجھ سکے ہیں۔ اس لیے تو وہ ایک طرف اگر چہ ملالہ کی تعریف و توصیف بھی کرتے ہیں، تو دوسری طرف یہ سمجھانے کی کوشش بھی (شاید کہ کوئی سمجھے) کہ ’’یہ ضروری نہیں کہ تمام ایوارڈز اور انعامات کا مرکز و محور صرف وہ (ملالہ) ہی ہو۔ اگر ایسا ہوگا تو ظاہر ہے اعتراضات اُٹھیں گے اور اس سے اس کی اُجلی شخصیت پر گرد بیٹھنے کا احتمال ہوگا۔‘‘ (روزنامہ آزادی، 4 ستمبر 2012ء)
جہاں تک ایوارڈز/ اعزازات سے سوات کے لوگوں یا کسی فرد کو نوازنے کا تعلق ہے، تو راقم کی رائے باقی لوگوں سے مختلف ہے۔ راقم نے اپنے کالم ’’المیۂ سوات اور ایوارڈز‘‘ میں کہیں بھی نہیں لکھا کہ المیہ سوات کے حوالے سے سوات کے کسی فرد، گروپ یا بحیثیت مجموعی سوات کے باشندوں کو ایوارڈز سے نوازا جائے اور یا اُن کی یاد گاریں تعمیر کی جائیں۔ اس کالم میں راقم کا صرف ابھی تک المیۂ سوات کے تناظر میں جن لوگوں کو ایوارڈ ز دیے گئے ہیں اوریا ان کا اعلان کیا گیا ہے، اس کے طریقۂ کار اور شرائط و لوازمات، جو ایسے ایوارڈز یا فتہ افراد کے لیے ضروری ہیں، کا اس خاص تناظر میں اور اس خاص نقطہ نظر اور پہلوکے ساتھ باقی لوگوں سے موازنہ کرکے یہ واضح کرنا تھا کہ ان ایوارڈز اور انعامات کے نوازنے میں شفافیت نہیں ہے۔ لہٰذا اگر متعلقہ حوالے سے ریاست، حکومت اور دوسرے اداروں کی طرف سے ایوارڈز اور انعامات دینے ہیں، تو وہ ایسے افرادکا حق ہے جو مقررہ معیار، پیمانہ اور شرائط پر پورا اُترتے ہوں۔ نیز یہ بھی دنیا کو بتانا مقصود تھا کہ المیۂ سوات کے موقع پر ان چند افراد، جن کو اعزازات دے کر سامنے لایا گیا ہے اورجن سے دنیا کو مانوس کرایا گیا ہے، کے برعکس ہزاروں ایسے افراد اور ہیں جن کی کار گزاری اپنے اپنے میدان میں ان افراد سے کہیں بڑھ کر ہے۔ یہ اور بات ہے کہ میڈیا ہی کے کردار اور غلط تشہیر کی وجہ سے ان کے نام اور کارنامے دب کر گوشۂ گمنامی میں پڑے ہیں۔
راقم کے خیال میں المیۂ سوات (2007 ء تا2009 ء) کے حوالے سے سوات کے عوام کو نہ انفردی ایوارڈز/ اعزازات کی ضرورت ہے، نہ گروپ کی شکل میں، نہ پیشہ کے حوالے سے اور نہ اجتماعی صورت میں۔ سوات کے لوگوں نے جس میدان میں اور جس جس طریقے سے جو بھی قربانی دی ہے۔ طالبان کا مقابلہ کیا ہے، یا لوگوں کی خدمت کی ہے، امن کے لیے کوششیں اور تگ و دو کی ہے، یا میڈیا کے توسط سے آواز بلند کی ہے و علیٰ ہذا القیاس۔ وہ بس ان کا فرض تھا اور سوات کے باشندے ہونے کی وجہ سے خطۂ سوات کا ایک طرح سے ان پر قرض تھا۔
سوات کی کہانی غیر معمولی بھی ہے اور انوکھی بھی، دردناک بھی ہے اور اندوہناک بھی۔ اس کا ہر ہر منظر اور ہر ہر دن اپنے جلو میں ایسی داستانیں چھپائے ہوئے ہے جن کے لیے دفتر چاہیے۔ تاہم اس ٹپہ کے مصداق کہ
د َظالم دِ ظلم تہ گورہ
ھم مے وھی ھم مے ژڑا تہ نہ پریدینہ
یعنی ظالم کے اس ظلم کو دیکھو کہ مجھے مارتا بھی ہے اور رونے بھی نہیں دیتا۔
جو لوگ سوات کی کہانی کو بغیر لگی لپٹی سنانے یا یہ دکھ بھری داستان بیا ن کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو انھیں ڈرایا دھمکا یا جاتاہے اور سچ کو جھوٹ کے پروپیگنڈے میں لپیٹ کر چھپانے کی کوشش کی پر آمادہ کیا جاتا ہے۔
المیۂ سوات کے دوران سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں مملکتِ پاکستان کے خطۂ سوات کے پاکستانی شہری (سِٹیزنز اینڈ نیشنلز) قربان اور ان کی املاک تبا ہ ہوئیں۔ اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ پاکستانی اور بین الاقوامی قوانین کے تحت ان کی حفاظت اور تحفظ (خواہ خان ہو یا مزارع، مال دار ہو یا غریب، آجر ہو یا اجیر، کاشت کار ہوں یا دوسرے پیشہ ور افراد، سرکاری وغیر سرکاری ملازم ہوں یا محنت مزدوری کرنے والے، مسلمان ہوں یا غیر مسلم و علیٰ ہذا القیاس) مملکتِ پاکستان، اس کے خفیہ اداروں اور سکیورٹی فورسز کی ذمے داری تھی لیکن یہ تمام ادارے اپنی اپنی ذمے داری نبھانے اور فرائض پورے کرنے میں ناکام رہے۔
راقم کو اس بات سے بالکل اتفاق نہیں کہ سوات کے لوگوں نے قربانی دی۔ اس کے خیال میں خطۂ سوات اور سوات کے پاکستانی شہریوں کو قربان کیا گیا، خواہ یہ باقی پاکستان اور وہاں کے باشندوں کی بقا کی خاطر ہو اور یا کسی اور غرض سے۔ یہ ڈراما کرتے وقت مملکتِ پاکستان کے خطۂ سوات کے شہریوں سے کیا کسی نے پوچھا تھا کہ آپ قربان ہونے کے لیے تیار ہیں؟ کیا مملکتِ پاکستان کے خطۂ سوات کے شہریوں سے کسی نے یہ پوچھا تھا کہ آپ گھر بار چھوڑنے کے لیے تیار ہیں؟ جس طرح کہ خیرات و ثواب کی خاطر قربان ہونے والے جانوروں سے کوئی نہیں پوچھتا کہ وہ قربان ہونا چاہتے ہیں یا قربانی کرنے والے کے ثواب کی خاطر قربان ہونے کے لیے تیار ہیں؟ یہی حال سوات کے شہریوں کا تھا۔
ہمارے بعض معزز اہلِ قلم، سوات اور سوات کے باشندوں کی قربانی کے جانور وں کی طرح قربان ہونے پر قربانی کرنے والوں سے نالاں ہیں بلکہ بار بار مطالبہ کرتے رہتے ہیں کہ اس قربانی کے بدلے جو امداد ملی ہے، اس میں سے سوات کا حصہ دیا جائے۔ کیا قربانی کا ثواب قربان کیے گئے جانوروں کو ملتا ہے یا قربانی کرنے والوں کو؟ قربانی کرنے والے نہ صرف ثواب کے حق دار ٹھہرتے ہیں بلکہ قربان ہونے والے جانوروں کا گوشت بھی ان ہی کا تو ہوتا ہے، جسے وہ کھاتے ہیں اور کھال سے بھی ثواب کماتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ان کے خون سے اپنے دروازے بھی رنگتے ہیں اور ان کے سینگ دیوار یا چھت کے کسی نمایاں مقام پر اس غرض سے رکھتے ہیں جس سے ہر ذی عقل یہ سمجھ سکے کہ یہ صاحب کسی جانور کی قربانی کر کے ثواب حاصل کرچکے ہیں۔
ایسی کوئی بھی یادگار خواہ اجتماعی ہو یا کسی اور بنیاد پر یا اس کے شیلڈز اور ایوارڈز وغیرہ کی مثا ل قربان کیے جانے والے جانوروں کے سینگوں کی طرح دیوار یا چھت کے کسی نمایاں مقام پر نمائش کے طور پر سجانے اور ان کے خون سے اپنے دروازے رنگنے کے مترادف ہوگا۔ نہ صرف یہ بلکہ جس طرح کہ ہم ا سکولوں، کالجوں، پلوں، اسپتالوں، لائبریریوں اور پارکوں وغیرہ کے ضمن میں دیکھ رہے ہیں۔ شاید اسی طرح کی شیلڈز اور یادگاروں پر ’’پاک آرمی کا تحفہ‘‘ کے الفاظ، متحدہ عرب امارات کے جھنڈے، اور یو این ڈی پی، یو ایس اےڈ اور ڈھیر ساری غیر سرکاری تنظیموں کے مونوگرام اور نام بھی کندہ دیکھنے کو ملیں۔
سوات اور اہلِ سوات کو نہ کسی کے تحفے کی ضرورت ہے اور نہ کسی کی ایسی امداد اور خیرات کی جس پر امداد اور خیرات دینے والے کے نام، جھنڈے، مونوگرام اور تختیاں نصب ہوں، جو صرف سوات میں دیکھے جاسکتے ہیں لیکن پاکستان کے کسی دوسرے حصہ میں ایسا ہرگز نہیں اور جس سے ایسا تأثرمل رہا ہے کہ گویا سوات کئی ایک بیرونی ممالک، پاک آرمی اور بین الاقوامی اداروں کی نو آبادی یا کالونی ہے۔
مملکتِ پاکستان سے خطۂ سوات اور یہاں کے شہر یوں کو قومی آمدنی اور خزانہ میں ان کا حق چاہیے۔ نیز ان کی حفاظت نہ کرنے اور تباہی سے بچانے میں ناکامی پر جرمانہ اور تاوان کی ادائیگی بھی ان لوگوں کو ضروری ہے۔ راقم پہلے بھی اپنے ایک مضمون ’’تحفے، خیرات، امداد، وعدے اور سوات‘‘ ( ماہ نامہ شعور، مینگورہ، کے اپریل 2011ء کے شمارہ میں شائع شدہ) میں لکھ چکا ہے کہ اگر سوات پاکستان کا حصہ تھا اور سوات کے باشندے پاکستانی شہری ہیں، تویہ ریاستی اداروں کی ذمے داری تھی کہ ان کے جان و مال کا تحفظ کیا جاتا اور ان کی عزت و ناموس پر آنچ نہ آنے دی جاتی۔ اب جب کہ ریاستی ادارے اپنے ان فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہے ہیں، تو 2007ء سے سوات اور یہاں کے عوام کے ساتھ جو کچھ ہوا اور جس کے ہاتھوں بھی ہوا، ان سب کی دگنی تلافی ریاست اور ان متعلقہ اداروں کی ذمے داری ہے اور سوات کے عوام کا حق، نہ کہ ان پر کسی کا احسان یا ان کے لیے کسی کا تحفہ ہے۔
آئی ایس پی آر کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل عارف محمود اپنے ایک کالم (روزنامہ آزادی، 9 جون 2012ء ) میں لکھتے ہیں کہ ’’اور پھر 3 مئی 2009ء کو غیبی مدد آن پہنچی پاک فوج نے آپریشن کا آغاز کردیا تھا۔ یہ آپریشن اتنا شفاف اور اپنے ہدف پر تھا کہ صرف 89 دنوں کے اندر دہشت گردوں کو ایسے نیست و نابود کیا کہ پوری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔‘‘ عارف محمود اسی کالم میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’’روزنامہ آزادی کے قارئین کی مسلسل ای میلیں اور پیغامات کم از کم اس بات کی غمازی تو ضرور ہے کہ یہ اخبار اندرون و بیرون ملک ایک وسیع حلقے پر پڑھا جاتا ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ کتنے لوگ ہماری معروضات کو درجہ قبولیت دیتے ہیں اور کتنے محض دیوانے کی بڑ سمجھتے ہیں، در اصل حق اور باطل کے درمیان شراکت اہل قلم کو زیب نہیں دیتی۔ باطل دوئی پسند ہوسکتا ہے لیکن حق گولوں اور توپوں کی گھن گرج اور گرتے لاشوں میں بھی لا شریک رہتا ہے۔ ‘‘
لہٰذا جو کچھ عارف محمود لکھ رہے ہیں ان کی نظر میں سچ اور حق ہے۔ انھی کے حق پر مبنی یہ الفاظ کہ تین مئی 2009 ء کو شروع کردہ’’یہ آپریشن اتنا شفاف اور اپنے ہدف پر تھا کہ صرف 89 دنوں کے اندر دہشت گردوں کو ایسے نیست و نابود کیا کہ پوری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا‘‘، دوسرے لفظوں میں یہ گواہی دے رہے ہیں اور اس امر کا اعتراف ہے کہ اس سے پہلے جتنے آپریشن اور فوجی کارروائی ہوئی تھی وہ شفاف اور ہدف پر نہیں تھی۔ اگرتین مئی 2009ء کو شروع ہونے والے آپریشن کی طرح برہدف ہونا ابتدا ہی سے ہوتا، تو نہ 89 دنوں کی ضرورت تھی اورنہ سوات اور سوات کے با شندے اتنے تباہ و برباد اور ذلیل ہوتے اور نہ دنیا میں اہلِ سوات، پختونوں اور پاکستان کی اتنی بدنامی ہوتی۔
سوات اور اس کے شہریوں کو تباہی سے بچانے میں ناکامی اور ان کو طرح طرح کے مظالم، اذیتوں اور تکالیف میں مبتلا کرنے (جس کے اثرات آیندہ نسلوں تک رہیں گے) اور یا پاکستان کے دوسرے علاقوں اوران علاقوں کے شہریوں کی خاطر قربانی کا بکرا بناکر قربان کرنے کا مداوا اور تلافی نہ ایوارڈز کے بخشنے اور یادگاروں کی تعمیر سے ممکن ہے اور نہ کسی بھی اور طریقے سے یہ تلافی کافی ہے۔ اس کا صرف اور صرف ایک ہی مداوا ہے جو کہ قومی اور بین الاقوامی اُصولوں اور پختون روایات سے بھی میل کھاتا ہے اور وہ اعلیٰ اخلاقی اقدار اور جرأت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے سوات اور یہاں کے باشندوں کی حفاظت اور تحفظ کے لیے بروقت صحیح اور برہدف اقدام نہ اُٹھانے اور اس ضمن میں اپنی ناکامی کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے سوات اوراہلِ سوات سے غیر مشروط معافی مانگنا ہے۔ راقم نے روزنامہ آزادی کے 24 جون 2010ء کے شمارہ میں شائع شدہ اپنے کالم بعنوان ’’سوات کی تعمیر نو کے حوالے سے چند تجاویز‘‘ میں بھی لکھا تھا کہ معلوم نہیں کہ ہمارے حکم رانوں اور مقتدرحلقوں ’’میں سے کو ئی کبھی اعلیٰ اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بروقت اقدام نہ اٹھانے اور اپنی ناکامی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے یہاں کے باسیوں سے معافی مانگے گا؟ ‘‘ جو تا حال ’’صدا بہ صحرا‘‘ ہی رہی ہے۔
نوٹس
(1) جولائی 2013 ء میں اقوام متحدہ سے ملالہ یوسف زئی کے خطاب میں دنیا نے دیکھ لیا کہ ناموں کی یہ فہرست کافی طویل ہوچکی ہے۔ تاہم ملالہ کی کتاب ’’آئی ایم ملالہ‘‘ (I Am Malala) میں یہ طویل فہرست ایک فرد یعنی بے نظیر بھٹو تک سکڑ گئی ہے۔
(2) اس دعویٰ یا بات، کہ ملالہ یوسف زئی نے اپنے ذات یا اپنے والد کے اسکول وغیرہ کے لیے کچھ نہیں مانگا، کے غلط یا مغا لطے ہونے کا ایک اہم دستاویزی ثبوت ملالہ کا وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کے نام تین نکاتی خط میں دوسرے نکتہ کے طور پر یہ مطالبہ بھی ہے کہ
I read in khushal school & College which is a renown institution imparting quality education for the last 17 years. But the school is housed in rented building. Therefore I request for one time grant or interest free loan for the construction of my school building.
یعنی میں خوشحال اسکول اینڈ کالج میں پڑھتی ہوں جو کہ گذشتہ 17 سال سے معیاری تعلیم فراہم کرنے والا ایک مشہور ادارہ ہے۔ لیکن یہ اسکول کرایہ کی عمارت میں قائم ہے۔ اس لیے میں اسکول کی عمارت کی تعمیر کے لیے ایک بار کی مالی معاونت (گرانٹ) یا بلا سود قرضے کے فراہمی کی گزارش کرتی ہوں۔
اگرچہ اس خط پر تاریخ درج نہیں لیکن اس کے ساتھ ہاتھ آنے والی دوسری دستاویزات سے واضح ہے کہ یہ برخوردار جوابی کالم نگار اور برخوردار احسان الحق حقانی کی تحریروں سے قبل کا تحریر شدہ ہے۔ اس خط کے پورے متن کے لیے خواہش مند حضرات وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کے نام ملالہ یوسف زئی کا خط بعنوان ’’امپرومنٹ آف ایجوکیشن اِن دِی وار ہِٹ وَیلی آف سوات‘‘ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
مزید یہ کہ ملالہ یوسف زئی کے نام سے شائع شدہ کتاب ’’آئی ایم ملالہ‘‘ میں بھی یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ اس نے آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل اطہر عباس سے اپنے والد کے پرائیویٹ اسکول کے لیے مالی اعانت کی درخواست کی تھی اور اس نے انھیں گیارہ لاکھ روپے نقد امداد فراہم کی تھی۔ (ملاحظہ ہو ملالہ یوسف زئی کی انگریزی کتاب ’’آئی ایم ملالہ‘‘، کے وائڈن فیلڈ اینڈ نکلسن، لندن، کے 2013ء میں شائع کردہ ایڈیشن کے صفحات 160 تا 164۔) اس کتاب کے صفحات 181 اور 233 پر یہ وضاحت بھی موجود ہے کہ اس سال کے آخر تک ملالہ کو مختلف سرکاری ذرائع سے جو رقوم ملی تھیں، وہ اُس کے والد نے ذاتی اُمور، ذاتی اسکول اور ضلع شانگلہ میں اپنے آبائی گاؤں میں ذاتی زمین خریدنے پر صرف کی تھیں۔
علاوہ ازیں ملالہ یوسف زئی سے منسوب محولہ بالا کتاب کے صفحہ 135 پر بھی یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ ملالہ کے والد ضیاء الدین کے لیے اسکولوں کی بندش کا مطلب اس کے کاروبار کا نقصان بھی تھا۔ لڑکوں کے اسکول تو سردیوں کی چھٹیوں کے بعد دوبارہ کھل جاتے، لیکن لڑکیوں کے اسکولوں کا کھو جانا ہماری (یعنی ملالہ کے کنبے کے) آمدنی میں ایک بڑی کٹوتی کا غماز تھا۔
مذکورہ بالا اور اس طرح کے ڈھیر سارے دوسرے شواہد، جن کی طوالت کے وجہ سے یہاں پر دیا جانا ممکن نہیں، اس بات کے ناقابلِ تردید شواہد ہیں کہ تعلیم کے نام پر ملالہ یوسف زئی اور اس کے والد ضیاء الدین یوسف زئی کے تگ و دو کا بنیادی محور اپنے پرائیویٹ تعلیمی کاروبار اور معاشی مفادات کا تحفظ تھا۔
(3) دل چسپ امر یہ ہے کہ سوات کی خوانین اور دوسرے سر کردہ لوگوں کو کشیدہ حالات میں سوات چھوڑنے کے طعنے دیے جارہے تھے، حالاں کہ اُن میں سے بہت سے اُن حالات میں نکلنے سے قبل سخت مقابلے بھی کرچکے تھے اور بڑے جانی و مالی نقصانات بھی اٹھا چکے تھے۔ وہ تو سوات واپس آکر اب بھی خطرات و مشکلات کے باوجود سوات ہی میں ہیں: باوجود اس کے کہ کئی ایک اس دوران میں تاک شدہ قتل ( ٹارگٹ کلنگ) کا نشانہ بھی بنے۔ تاہم جس باپ بیٹی کی بہادری کے ڈھنڈورے پیٹے جارہے تھے اور سوات کے مذکورہ قسم کے لوگوں سے ان کا موازنہ کیا جا رہا تھا اور انھیں ان سے بہادر اور نڈر مانا اور پیش کیا جا رہا تھا، پشتو کے اس ضرب المثل کہ ’’خراڑے دَ گزارہ سرہ لاڑے‘‘ اور ’’خراڑے دَ ڈزہ سرہ لاڑے‘‘ یعنی ’’اُو چنڈول، تم تو ایک ہی وار کے ساتھ اُڑ گئے‘‘ کے مصداق ایک ہی وار پر سوات تو کیا ملک ہی چھوڑ گئے۔
علاوہ ازیں گولی کا نشانہ بیٹی بنی اور ملک باپ بھی پورے کنبے سمیت چھوڑ گیا۔ باوجود اس کے کہ سوات کے حالات کم از کم 2007ء تا 2009ء جیسے کشیدہ اور خطرناک بھی نہیں ہیں۔ اور یہ بھی کہ اس کے بعد ملالہ یوسف زئی کے والد (جو کہ ہر وقت میڈیا سے باتوں کے لیے دستیاب ہوتے تھے) کو ملک سے باہر رہتے ہوئے بھی میڈیا سے اس طرح کی باتوں کی توفیق نہیں ہو رہی۔
…………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے