شاعر، ادیب، دانش ور، نقاد، ایڈیٹر، کالم نویس، پبلشر…… یہ ہمہ جہت شخصیت فضل ربی راہیؔ صاحب کی ہے، جو بنگالی خاندان کے چارباغ گھرانے کے چشم و چراغ ہیں۔ اُن کے دادا مینگورہ شہر میں ایک ممتاز طبیب تھے، جو خوب صورت اور وجہہ شخصیت کے مالک تھے۔ امیر طبیب صاحب کے والد صاحب بنگالی گھرانے چارباغ میں ایک متمول حیثیت رکھتے تھے۔ کیوں کہ بنگالی چارباغ گھرانا، مینگورہ بنگالی گھرانے کے مقابلے میں مالی طور پر کم زور تھا۔ بالفاظِ دیگر کوئی قابلِ ذکر کاروباری یا مالی امتیاز اس گھرانے کو حاصل نہ تھا۔
ساجد امان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/saj/
امیر صاحب کے والد صاحب نے دوسری شادی کی، جس نے خوددار نوجوان امیر پر بڑا اثر ڈالا اور والد صاحب کے ترکے میں کچھ نہ لینے اور اپنی الگ پہچان اور مقام حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ یوں چارباغ چھوڑ کر مینگورہ شہر میں سفید پوش مگر باوقار زندگی گزارنے کی ٹھان لی۔ اُن کے بیٹے محمد شعیب نے زندگی کا مقابلہ والد صاحب کی دی ہوئی خودداری اور خود انحصاری کے ورثے کے ساتھ شروع کیا۔ عرب سرزمین پر معاش کے سلسلے میں مقیم رہے اور وہاں پر ایک حادثے میں انتقال کرگئے۔ کم سن اور حساس فضل ربی احساس کا بوجھ کاندھوں پر لیے کٹھن زندگی کے مقابلے کے لیے دو قدم آگے آئے۔
فطرت میں شرافت اور کم گوئی شامل تھی، مگر ذہن میں وسعت اور شعور میں پختگی تھی، جس کی وجہ سے شرمیلا فضل ربی ’’راہیؔ‘‘ بن کر ایک اچھے شاعر اور نثّار کی صورت میں اُبھرا۔ اظہار کی طاقت نہ اُسے اتنا اُٹھایا کہ ’’پاکستان نیشنل سنٹر‘‘ کے ادبی ماحول تک کو متاثر کرگیا۔
’’ادیبِ سوات‘‘ فضل محمود روخان صاحب کی جوہر شناس نظر نے فضل ربی راہیؔ صاحب کو کانجو روڑ مینگورہ کے ایک بک سٹور میں بیٹھے پایا، تو اُنھیں مستقبل کے ادب کے ایک معتبر نام کے طور پر تاڑ لیا۔ وہاں سے فضل ربی راہیؔ ’’پاکستان نیشنل سنٹر‘‘ اور ’’سوات ادبی سانگہ‘‘ میں نکھرتے گئے اور آگے بڑھتے گئے۔
جی ٹی روڈ پر ’’شعیب سنز‘‘ کے نام سے ایک چھوٹی سی دُکان دراصل اخبارات، جرائد، کتابچے اور جلد سازی کے ساتھ شہر کی کتابوں کی بڑی دکانوں اور ناموں کے مقابلے میں بہ ظاہر ایک غیر اہم کوشش تھی، مگر یہی کوشش سوات کے ادب اور دانش کے لیے بڑی اہم ثابت ہوئی۔
امین لائبریری ایک اچھے دور سے اسی ماحول میں قائم رہ کر شہر کی اَدب سے بے زاری پر ختم ہوئی تھی۔ لائبریری کے سامنے ’’سٹار مارکیٹ‘‘ کسی دور میں وکلا اور عظیم اذہان کا مرکز رہی۔ روخان صاحب نے ادب کے لیے اپنے وقف کی ہوئی زندگی سے فضل ربی راہیؔ صاحب کو اسی مقام پر یہ گدی نہیں دی، بلکہ شہر میں ادب کے فروغ کی باقاعدہ داغ بیل ڈالی۔ یوں ادبی ماحول اور سرگرمیوں نے عروج پایا اور اَدبی جرائد کی ابتدا ہوئی۔ دونوں نے مل کر والی صاحب کا انٹرویو کیا، جو اَب سوات کی تاریخ کا حصہ ہے۔
فضل ربی راہیؔ نے اُردو ادب میں ماسٹر کیا۔ اُردو کے علاوہ پشتو زبان پر عبور حاصل کی اور انگریزی زبان سے اُردو میں تراجم کی بہ دولت خود کو ترجمہ نگار کے طور پربھی منوایا۔
دیگر متعلقہ مضامین:
کچھ امجد علی سحاب کے بارے میں
عزم و ہمت کا استعارہ، فیاض ظفر
صنوبر استاد صاحب
صحافت کا جنازہ نکالنے والوں کے نام
ہماری صحافت، بندر کے ہاتھ میں اُسترا
سوات ٹی ہاؤس (شعیب سنز) کی مختصر تاریخ
قارئین! شہر میں کتابوں کی دکانیں کئی تھیں، مگر کہیں خلیل جبران کی کتابوں کو سجاکر نہیں رکھا گیا تھا۔ کہیں بھی میرے ادبی ذوق کی تسکین نہیں ہوتی تھی۔ کسی اور جگہ شاعر کو کام کا بندہ نہیں کہا گیا تھا۔ بچوں کے رسائل سے لے کر سنجیدہ جرائد تک موجودگی مالکِ دکان کے کاروباری دیوالیہ پن اور علمی و ادب کی قدر دانی کی گواہی ہوتی تھی۔
وہ شہر جو اَدب سے لڑ چکا تھا، جہاں سے اَدب رخصت ہو رہا تھا، اَدب کہیں اردوئے معلی کی طرح فصیلوں میں بند ہو رہا تھا۔ سرکاری اور پُرتشدد بیانیے کو نصاب و نشریات کا لازم حصہ بناکر پیش کیا جارہا تھا۔ آمریت کے گہرے اثرات معاشرے پر پڑ رہے تھے۔ اَدب اور ادیب دونوں کو دھتکارا جا رہا تھا۔ صحافی کوڑے کھاکر اور شاہی قلعے کی دیواریں شعور کا انجام دیکھ کر خاموش تھیں۔ اس مندی میں ادب کی دُکان سجانا واقعی دیوانوں کا خواب تھا۔ ’’آدم اور فلسفی‘‘ کی بحث تھی۔ علم کے قطرے رستے رہتے اور سنگلاخ چٹانوں میں راستے بنتے جاتے۔
’’شعیب سنز‘‘ جو قطعی غیر اہم ادارہ تھا، اسے اہمیت ملنے لگی۔ غیر محسوس انداز میں شہر واپس اَدب کی طرف لوٹنا شروع ہوا۔
دوسری طرف راہیؔ صاحب کے قلم میں اعتماد اور بھروسا عود کر آیا۔ اَدبی معجزے رونما ہونا شروع ہوئے۔ اَدب کی تخلیق بڑے سلیقے سے ہونے لگی۔ شہر کے شعرا اور اُدبا کی ڈھارس بندھنے لگی۔ ایک پلیٹ فارم ملا جہاں سے اُڑا جاسکتا تھا۔ یوں بڑے بڑے نام سامنے آئے۔ ایک مقناطیسی میدان وجود میں آگیا تھا، جہاں پہنچ کر ادبی وجدان سا طاری ہوتا تھا۔ ایک گم نام آتش فشاں یہی سے لاوا اُگلنا شروع ہوا، جو موتی اور جواہر نچھاور کرتا رہا۔ تراجم اور تحاریر کا ماحول پیدا ہوا، تو لوگ اصلاح اور داد لینے آتے گئے اور حوصلے مضبوط لے کر پُرجوش واپس جاتے گئے۔ اب راہی صاحب کا تحریری سلسلہ ’’چینی نکتہ چینی‘‘ کی شکل میں زبان زدِ خاص و عام تھا۔
شعیب سنز کا ’’بک سیلنگ‘‘ سے ’’پبلشنگ‘‘ تک کا سفر آسان نہ تھا، مگر دل گردے والے راہیؔ نے ثابت کردکھایا۔ ہزارہ ڈویژن کے سپوت اور اُردو ہندکو زبان کے نام ور شاعر نیاز سواتی (مرحوم) کا سوات سے محبت اور عقیدت کا رشتہ ’’شعیب سنز‘‘ کی بہ دولت تھا۔ پورے ملک کی ادبی شخصیات کی سوات آمد ’’شعیب سنز‘‘ کے قیام کے بعد ممکن ہوئی۔ راہیؔ صاحب کے لاشعور میں شاید چارباغ سے پیار رچ بس گیا تھا۔ دلبر حکیم صاحب جیسے ممتاز نام کے خاندان میں پروفیسر صاحب کی دختر سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوکر چارباغ سے اپنی محبت کو نئے سرے سے دوبارہ استوار کیا ( یہ ازراہ ِمذاق لکھا۔)
راہیؔ صاحب آج کل مانچسٹر میں رہایش پذیر ہیں، جہاں گاہے گاہے علم وادب کی خبریں اُن کو شہ سرخیوں کی زینت بناتی ہیں۔ شعیب سنز پبلشرز اب بھی قائم ہے۔ سیکڑوں اشاعت شدہ کتب کے ساتھ یہ سوات کی تاریخ کا ناقابلِ فراموش ادارہ بن چکا ہے، جو اس لمحے بھی ادب اور شعور کی آب یاری میں پیش پیش ہے۔
قارئین! فضل ربی راہیؔ صاحب چوں کہ صاحبِ علم و قلم ہیں۔ اُن پر ایک ادنا سے شخص کی تحریر خراجِ تحسین کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے، گر قبول افتد زہے عز و شرف……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔